Tuesday, November 6, 2012

Shair-E-Lashker – شاعرِ لشکر

Shair-E-Lashker – شاعرِ لشکر

قبلہ میرے بڑے اچھے دوست ھیں، ان کو پیار سے میں شاعر لشکر کہتا ھوں۔
وجہ ؟؟؟
قبلہ gregarious جانداروں کی طرح رہتے بھی شاعروں کے لشکر میں ہیں اور ان کا مزاج اور انداز بھی لشکری شاعروں جیسا ہے۔ یعنی اپنے لشکر کی تعریفوں کے پل باندھتے رہنا خواہ وہ مائل بہ شکست ہی ہو اور مخالف لشکر کی ہجو کرنا خواہ وہ کشتوں کے پشتے لگا رہا ہو۔ ان کے لشکر میں شامل ہونے کی بنیادی اہلیت عورت ہونا ہے لیکن اگر بدقسمتی سے فطرت آپ کو عورت بنانے میں ناکام رہی ہے تو بھی آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے لیے بھی اِن کے لشکر میں شامِل ہونے کی گنجائش موجود ہے۔ ان کے لشکر میں شامل ہونے کے لیے آپ کا اچھا شاعر ہونا قطعا ضروری نہیں، بس ان کی ہاں میں ہاں ملاتے جا ئیے یہ خود ہی اپنے زور بازو سے آپ کو اعلی ترین شاعر منوا لیں گے۔
اجی ٹھرئیے، رکیئے بھئی، سنیئے تو، کہاں بھاگ لیئے! آپ تو عظیم شاعر بننے کے جنون میں بغیر سوچے سمجھے میری بات سنتے ہی اِن کے لشکر میں شامل ہونے بلکہ کودنے کا سوچنے لگے ۔ پہلے میری پوری بات تو سن لیں!
لشکر کے spirit کو برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے اس میں موجود رہنے کا معیار امریکہ کی طرح بڑا سخت رکھا ہوا ہے، یعنی .You are either with us or against us۔

اس معیار کو جان لینے کے بعد بھی اگر ابھی تک آپ ذہن پر راتوں رات عظیم شاعر بننے کا خناس چھایا ہوا ہیے تو مجھے آپ سے بڑی ہمدردی ہے، کیونکہ اِن کے لشکر میں آ چکنے کے بعد کبھی آپ بھولے سے بھی اِن کے مخالِف لشکر کی تعریف کرنے کی حماقت کر بیٹھیں تو آپ کے لیے اِن کے قہر سے بچنے کی دعا ہی کی جا سکتی ہے، لیکن میں جانتا ہوں یہ معجزہ ہو گا نہیں!!!

اب آپ پر طعن و تشنیع کے ایسے ایسے کوڑے برسیں گے کہ زمین بھی آپ کو پناہ دینے سے مکرر انکار کر دے گی۔ پھر facebook پر آن لائن ہوتے ہی آپ پر وہ وہ تبرے برسیں گے کہ آپ کی حالت نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن والی ہو کے رہ جائے گی۔ آپ بڑی خجالت محسوس کرتے، گڑگڑاتے، گھگھیاتے، دوڑے دوڑے واپس آئیں گے اور قبلہ کے پاوٗں پڑ جائیں گے لیکن اب آپ کو بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ قبلہ آپ کو لشکر میں واپس قبول نہیں کریں گے کیونکہ۔۔۔۔گربہ کشتن روز اول۔۔۔۔ان کا فلسفہ ہے۔آخر محاورے ہوتے کس لیے ہیں۔

اب تک آپ کی حالت بڑی قابل رحم ہو چکی ہوتی ہے کہ مخالف کیمپ بھی تو آپ کو قبول نہیں کر رہا ہوتا۔۔۔آپ تو محض اپنے خوش ذوق اور ادب دوست ہونے کا مظاہرہ کر رہے تھے اور یہ کیا ہو گیا۔۔۔۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے۔۔۔ دیکھا قبلہ کا انتقام!
قبلہ کو عاجزی بہت پسند ہے لیکن صرف دوسروں میں۔ آپ ان سے جتنی زیادہ عاجزی سے ملیں گے آپ کے شاعرانہ درجات بلند ہونے کے امکانات اُتنے ہی زیادہ ہیں۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کب سے اُول جلُول بک رہا ہے لیکن اس ذاتِ والا صفات کا نام ابھی تک نہیں بتایا۔ قبلہ کے متعلق اِتنا کہنا ہی کافی ہے کہ آپ۔۔۔۔ اسم بامسمی۔۔۔۔ کی مکمل تعریف ہیں اور ہمہ وقت شاعری کے اعلَی و ارفع مقام پر فائض رہتے ہیں۔ ا للہ کی صناعی میں سرِمُو تبدیلی کو کفر گردانتے ہیں لہزا اللہ نے فطرۃ جیسا پیدا کیا تھا اُس پر راضی بہ رضا ہیں اور آج تک اُس میں کوئ تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ جنوبی امریکہ کے ملک کینیڈا کا ایک شہر ٹورانٹو اِن کی آماجگاہ ہے۔ ٹورانٹو، اسکے گردو نواح اور facebook پر بکثرت پائے جاتے ہیں۔

بچپن سے ہی میرے اور کچھ اور دوستوں کے دوست ہیں، بچپن کا حوالہ اِس لیئے نہیں دے رہا کہ ہم کوئ بچپن میں ایک ہی لنگوٹ پہن کر گھومتے رہے تھے بلکہ بچپن کی دوستی کا حوالہ اِس لیئے دے رہا ہُوں کہ یہ ہمارے دوست تو بیشک ہیں لیکن اِن کے سامنے ہم پاوں پاوں چلتے بچے ہی ہیں۔ ہم اِن سے کوئ بھی بات کر لیں اور اُس بات کی سپورٹ میں چاہے جتنی بڑی مرضی علمی یا عقلی دلیل پیش کر لیں یہ اُس کو بچوں جیسی بات کہ کے ہمیں چپ کرا دیتے ہیں۔ اِن کے اِس رویے نے ہم پر بڑے منفی اثرات ڈالے ہیں۔ اِن کے رویے کا اثر مجھ پہ یوں ہوا ہے کہ میرا سارا اعتماد جاتا رہاہے اور میں بات کرتے ہُوئے اکثر ہکلا جاتا ہُوں۔ اور ایک دوست تو بیچارہ باقائدہ تُتلانے پر اُتر آیا ہے۔ اور تو اور بے دھیانی میں انگوٹھا تک چوسنے لگتا ہے۔

دنیا میں گنجے دو قسم ک ہوتے ہیں، ایک وہ گنجا کہ جب آ رہا ہو تو دُور سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ گنجا آ رہا ہے اور دُوسری قسم کا وہ کہ جب تک گزر نہ جائے پتہ ہی نہیں چلتا ہے کہ گنجا ہے۔۔۔ قبلہ پہلی قسم کے گنجے ہیں اور اِن کو آتے دیکھ کر بچے دُور سے ہی شور مچانے لگتے،۔۔۔ گنجا آیا، گنجا آیا! ایک دن مجھ سے ملے تو اُکھڑے اُکھڑے سے بولے، ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔۔۔۔حضور خیریت تو ہے؟ بولے خاک خیریت ہے، بیگم سے لڑائی ہو گئی ہئ۔۔۔ کہتی ہیں ہفتے بھر کا صابن لاتی ہوں اور تم تین چار روز میں ہئ ختم کر دیتے ہو!۔۔۔ تم ہی بتاوُ بھلا اِس میں میرا کیا قصُور ہے، صبح منہ دھوتے ہُوئے پتا ہی نہیں چلتا کہ صابن کہاں تک لگانا ہے؟ قبلہ نائی کے پاس جاتے ہیں تو جانے کس دھن کہتے ہیں۔۔۔۔ یار آج بال ذرا سٹائلش کاٹنا، ایک مشاعرہ ہے (انتہائ چھچھورے انداز مین آنکھ مارتے ہوئے) اُس میں خواتین بھی ہوں گی۔ میں ایک تازہ غزل پڑھوں گا!۔۔۔۔ نائ بھی ان کا دل رکھنے کو دائیں کنپٹی سے کچھ بال اُٹھا کر قبلہ کی چندیا پر پھیلا دیتا ہے،اور سوچنے لگتا ہے کہ اگر یہ اپنی غزل کے ساتھ تازہ کا لفظ نہ بھی لگائیں تو میں تو کیا پُورے محلے کو پتہ ہوتا ہے آپ ساری ساری رات بیٹھ کر غزلیں ہی بُنتے ہیں اور صرف تازہ ہی پڑھتے ہیں۔۔۔۔۔خدا گنجے کو ناخن نہ دے والا مُحاورہ اِن کے گنجے ہونے کے بعد ہی اِیجاد ہُوا تھا۔

سنا ہے گھر میں صرف یہی ہیں جو پڑھے لکھے پیں،اور اِس کی تصدیق کچھ قبلہ کے لب و لہجے اور مزاج سے بھی ہوتی ہے۔ ایک دفعہ ان کے ابا کے ایک دُور کے دوست مری سے ملنے آئے تو اِن کے بڑے بھائی کے متعلق پوچھنے لگے کہ کیا کام وام کرتے پیں۔ اِن کے ابا فرمانے لگے۔۔۔۔۔,بس یار کیا بتاوں ابھی تک فارغ ہی ہے,۔۔۔۔ پھر قبلہ کا ذکر چھڑ گیا تو اِن کے ابا بولے۔۔۔۔, چھوڑو یار وہ بھی شاعر ہے,۔۔۔۔۔دوست بڑے حیران ہوئے اور لگے پوچھنے کہ یہ تم نے شاعر کے ساتھ ۔۔۔ بھی۔۔۔ کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے؟۔۔۔۔ تو اِن کے ابا بولے کہ۔۔۔ بھی۔۔۔ اس لیے لگایا ہے کہ شاعر ہے تو اُسے بھی فارغ ہی سمجھو!۔ ان کے ابا کے دوست کہنے لگے یار پڑھا لکھا ہے کہیں نہ کہیں تو جڑ دیتے۔۔۔۔۔
بس اُس دن کے بعد سے اِن کو کچھ الفاظ۔۔۔ ۔بھی۔ ۔ہی۔ ۔پِھر۔ ۔پُھر۔ ۔جڑا۔ ۔کھڑا۔ ۔پہاڑیاں۔ اور اس قبیل کے کئی اور الفاظ سے ایک خاص قسم کی چڑ ہو گئ۔ اب تو یہ حالت ہے کہ کوئ بھی اِن الفاظ کو اپنی گفتگو میں استعمال کرے یہ فوراّ بھڑک جاتے ہیں۔ قبلہ کو لگتا ہے کہ اِن کا مضحکہ اُڑانے کے لیئے یہ الفاظ استعمال کیے جا رہے ہیں۔

قبلہ چوبیس گھنٹے ہی فارغ ہوتے ہیں اور اِس فراغت کو فیس بک پر نظر رکھنے کے لیئے استعمال کرتے ہیں۔ ایک بڑا سا رجسٹر بنا رکھا ہے جس پر مختلف قسم کا ڈیٹا لیتے رہتے ہیں۔ امرہکہ کے انسٹیٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز کی طرح فیس بک پر وقوع پزیر ہونے ولی تبدیلیوں کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ مثلا کس خوبصورت خاتون کو کتنے پھول مل رہے ہیں اور کون کون بھیج رہا ہے؟ کس کس کو کون کون کب کب کس کس زبان میں کومنٹس بھیج رہا ہے، وغیرہ؟ اور پھر انہی سٹڈیزکی روشنی میں امریکہ کی ہی طرح مختلف قسم کی پالیسیاں وضع کرتے ہیں۔ اور پھر ان پالیسیز کی روشنی میں موقع، دوستی، دشمنی، صنف، اور مختلف زبانوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مختلف کومنٹس فرماتے رہتے ہیں۔ کس کو کس وقت کون سی اذیت، طعنہ یا دھمکی دینی ہے یہ تمام تفصیلات قبلہ اپنی انہی سٹڈیز کی روشنی میں وضع کرتے ہیں۔

قبلہ کو آج تک اچھی اور معقول بات کرتے نہیں دیکھا گیا، سوائے چند غزلوں کے۔ ستم ظریفی دیکھیئے کے کہ برنیتی پر مبنی ان کی انتہائ نامعقول کوششوں کے باوجود کچھ لوگوں کا فائدہ ہو جاتا ہے، مثلا۔۔ فیس بک پر آپ کو کوئ خاتون اچھی لگتی ہیں، اور آپ اپنے اُسی جزبے سے مغلوب ہو کر اس خاتون کے کسی ادب پارے پر کوئ اچھا سا تبصرہ کرتے ہیں، اور وہ بیچاری کسی نامعقول وجہ سے ان کی معتوب ہونے کا شرف بھی رکھتیں ہیں، تو قبلہ فورا ہی آپ پر حملہ آور ہوں گے اور آپ کو اُن محترمہ کے عاشق ہونے کے اعزاز سے نوازیں گے۔۔۔۔۔ اب آپ کے دل میں تو کب سے یہ کھد بد ہو رہی تھی کہ اُن محترمہ تک اپنی بات کیوںکر پہنچائ جائے، ایسے میں ان کے یہ کومنٹس آپ کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوں گے۔۔۔۔آپ اُن محترمہ کے پرسنل میسیج میں بظاہر تو ان کے مخرب اخلاق کومنٹس پر برا ہی منائیں گے، لیکن اندر ہی اندر آپ خوش ہو رہے ہوں گے جو کام آپ مہینوں سے نہیں کر پا رہے تھے قبلہ کے ایک کومنٹ نے چٹکیوں میں کر دیا۔ ان کے اس فیضان سے میں بھی سیراب ہو رہا ہوں۔ کبڑے کو ان کی لات راس آگئ ہے اور الحمدللہ اب فیس بک پر تین چار محبوبائیں مل گئ ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ سب ہی مجھ سے ہزارہا میل کی دوری پر رہتی ہیں لیکن اس کی کون کافر پروا کرتا ہے۔ بندے کا فقط مجھ سا چھچھورا ہونا ہی کافی ہے۔

قبلہ دشمن سازی میں بڑے خود کفیل ہیں۔ آپ دشمنی ٹالنے کی چاہے لاکھ کوشش کریں اور اسی کوشش میں چاہے انکی جھوٹی اور بے تکی تعریف بھی کریں، بات کو اِدھر اُدھر گھمائیں، ہنس ہنس کر بات کریں لیکن بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی کے مصداق آپ سے کوئ نہ کوئ غلطی تو ہو گی ہی کہ انسان جو ٹھرے، بس ہو گئ دشمنی شروع۔ آپ سے دشمنی ہو جانے کے بعد خوش خوش پھرئیں گے، سیٹی پر محمد رفیع کے گیت۔۔۔۔میرے دشمن تو میری دوستی کو ترسے۔۔۔۔ کی بےسری دھن بجاتے پھریں گے، دوستوں کو دشمنی کی باریک سے باریک تفصیلات بڑے فخریہ انداز میں بتائیں گے اور ان سے نیا محاذ کھلنے کی مبارک باد وصول کرتے پھریں گے، الغرض خوش ہونے کے جتنے بھونڈے طریقے جانتے ہیں اپنائیں گے۔ دوست بھی ان کی اس نئ نویلی دشمنی پر انتہائ خوشی محسوس کرتے ہیں کہ چلو سب کو شاعری کے علاوہ بھی کچھ کرنے کو ملا۔
قبلہ بڑے فراخ دل واقع ہوئے ہیں اور ہر جاننے والے کو۔۔۔ بلا تخصیص صنف۔۔۔ زندگی میں کم از کم ایک دفعہ اپنے ساتھ دشمنی کا موقعہ ضرور عنائیت کرتے ہیں۔ اور اگر آپ کو ان سے دشمنی کی سعادت حاصل ہوگئ تو آپ دشمنی کی بابت بےفکر ہو جائے کیونکہ دشمنی کے باقی لوازمات یہ خود ہی پورے کر لیں گے۔ اور اگر آپ ابھی تک قبلہ سے دشمنی کی سعادت سے محروم ہیں تو میری تمام ہمدردیاں آپکے ساتھ ہیں، لیکن یاد رکھیے کہ اللہ کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ قبلہ نفرت کو بڑی محبت سے پالتے ہیں۔ دشمن کی تاک میں شست لگا کر بیٹھ جاتے ہیں، اور جونہی دشمن نصیب کا مارا اِن کی رینج میں آتا ہے گردن سے جا دبوچتے ہیں اور خوب بھنبوڑتے ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ ایک صاحب جن سے حسب دستور ان کی ٹھن چکی تھی، خود کُشی کو خود کَشی لکھ بیٹھے، بس پھر کیا تھا پہلے تو اُن کو key board پر keys کی پوزیشن جتلائ تاکہ سند رہے مبادہ دشمن اپنے کیئے سے مکر جائے۔۔۔ظاہر ہے بھئ میدان قبلہ کے حصے میں ہی آیا۔

کسی زمانے میں بی جمالو کا کردار پڑھا تھا لیکن اس کردار کو قبلہ کی ذات میں پہلی دفع مجسم دیکھا تو سمجھ آئ کہ بی جمالو پن کیا ہوتا ہے اور کیسے ہوتا ہے۔ میں بچپن سے ہی ذہنی طور پر پسماندہ رہا ہوں اور کئ باتیں لاکھ کوششوں کے باوجود آج تک سمجھ نہ پایا، ان میں ایک محاورہ۔۔۔۔یہ حبِ علئ نہیں بغض معاویہ ہے۔۔۔۔تو کبھی بھی پلے نہیں پڑا اور اس پر اساتزہ سے ہمیشہ ہی بحث کی اور جی بھر کر مار کھائ لیکن قبلہ کی فیس بک پرکچھ لوگوں سے محبت کا اظہار دیکھ کر اس محاورے کے علاوہ بھی مزید کافی کچھ سمجھ آ چکا ہے اور ان تمام چیزوں کی تفہیم دینے پر میرا سر قبلہ کے احسانات کے بوجھ سے جھکا ہوا ہے۔

قبلہ کے مختلف زبانوں پر عبور سے میں بہت مرعوب ہُوں، خاص طور پر عربی کے تو عالمِ بے بدل ہیں۔ نہ جانے کب عربی بولنی پڑ جائے اس لیے احتیاطؑ دائیں کھیسے میں ایک ٹوپی رکھتے ہیں۔ آپ فیس بک پر بھی اکثر ان کے عربی ملفوظات دیکھتے رہتے ہوں گے۔ کہیں سے عربی کا ایک جملہ نہ جانے کب سے میرے ذہن میں اٹکا ہوا ہُوا تھا۔ ایک دن قبلہ کا موڈ اچھا دیکھا تو سوچا کیوں نہ آج وہی جملہ پوچھوں ڈالوں ، ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔۔۔۔۔قبلہ یہ ۔۔۔۔ ھل ترکیبَ دِغ دِغ۔۔۔۔ کا کیا مطلب ہے؟۔۔۔۔۔جملہ سننا تھا کہ ان کے چہرے پر ایک تشنجی کیفیت پیدا ہُوئ، تیزی سے ٹوپی نکال سر پہ دھری، قلقلہ درست کیا (قبلہ عربی بولنے سے پہلے جب بھی قلقلہ درست کریں تو جانیئے آپ پر کوئ بہت بڑی آفت نازل ہونے والی ہے) اور پھر عربی میں ہی نہ جانے کیا کیا فرمانے لگے۔ مجھ پہ ایسا سہم طاری ہوا کہ کاٹو تو لہو نہیں، بس چپکا بیٹھا رہا اور سوچتا رہا۔۔۔یا اللہ مجھ سے قبلہ کی شان میں ایسی کیا گستاخی سرزد ہو گئ ہے کہ ان کا جلال کم ہونے میں ہی نہیں آ رہا؟۔۔۔اللہ اللہ کر کےغصہ کچھ کم ہوا تو فرمانے لگے۔۔۔پاجی، لعنتی مارے، خبیث! یہ بات پوچھنے کو تجھے میں ہی ملا تھا کیا! تمھارے گھر میں باپ یا کوئ بڑا بھائ نہیں ہے! میں خجالت کے مارے سر نہوڑائے بیٹھا رہا۔ لیکن یہ اندازہ ضرور ہو گیا کہ یقیناؑ کوئ لزیز بات ہے جو بتانے سے احتراز فرما رہے ہیں۔

ہمارے ایک ڈکٹیٹر حکمران ایوب خان خود ساختہ (self appointed) فیلڈ مارشل رہے ہیں۔ چونکہ مزاجّ قبلہ بھی ڈکٹیٹر واقع ہوئے ہیں لہزا انہوں نے بھی اپنے آپ کو نقاد کے عہدے پر خود ہی فائض کر لیا ہے، اور تنقید کے ایک نئے سکول آف تھوٹ ۔بِستی ہی بِستی۔ (بے عزتی ہی بے عزتی) کی بنیاد ڈالی۔ بڑی ادق قسم کی تنقید کرتے ہیں۔ تنقید میں ایسی ایسی اصطلاحات استعمال کرتے جو پہلے صرف طّب کی کتابوں میں ہی ملتی تھیں،۔۔۔مثلا نظم یا غزل کی نامیاتی، لحمیاتی، نِشاستائ یا عضلاتی ترتیب وغیرہ،۔۔ نظم یا غزل کا سفراوی، بلغمی یا فشاری مزاج وغیرہ،۔۔نظم یا غزل کی آفاقی، افلاقی، ملکوتی سطح وغیرہ،۔۔۔ تجریدی، وریری، عروقی یا نسائ لہجہ وغیرہ وغیرہ۔
وجہ اسکی یہ ہے کہ قبلہ فاضل طب والجراحت ہیں اور گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ طبیب حاذق ہیں اور ٹورانٹو آنے سے پہلے اپنے گاوں میں مطپ کرتے تھے۔تنقید میں جیسے طب کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں بعینہِ مریض دیکھتے وقت شاعری کی اصطلاحات استعمال کرتے۔ مثلا کوئ مریض آکے کہتا کہ دمہ ہو رہا ہے تو فرماتے۔۔۔۔۔یوں کہیے نا کہ سانس نے قافیہ تنگ کر رکھا ہے۔۔۔۔۔۔مریض بیچارہ انکا منہ تکتا رہ جاتا۔ عربی اور فارسی سے ان کی محبت جنوں کی حد کو پہنچی ہوئ تھی کہ بیمارہوں کے نام تک مفرس یا معرِب کرنے کی کوشش کرتے۔ جیسے ایک دفعہ بخار اور نزلہ زکام کا مارا ایک مریض قبلہ کے پاس حاضر ہوا۔ پہلے تو اُس کی نبض پر ہا تھ رکھے رکھے گہرے مراقبے میں چلے گئے۔ کافی دیر انتظار کے بعد مریض کے جھنجھوڑنے پر ھڑبڑا کر مرقبے سے باہر آئے اور فرمایا۔۔۔۔۔آپ کو تو تپِ خنزیر لگتا ہے۔ مریض چونکا، گھبرایا، لاحول ولا پڑھنے لگا اور انتہائ پریشان ہوکر پوچھا کہ یہ کون سا نیا مرض ہے تو بتایا کہ swine flu کی بات کر رہا ہوں۔

تنقید کہ میرا بھی پسندیدہ موضوع ہے۔ شومئ قسمت، اس غلط فہمی میں کہ تنقید کے کچھ نئے در وا ہوں گے، ایک دن قبلہ سے تنقید کی تعریف پوچھ بیٹھا۔ فوراّ جلال میں آ گئے اور کسی جنّاتی سی زبان میں کچھ فرمانے لگے (بعد میں خود ہی بتا دیا تھا کہ یہ قدیم کینیڈین باشندوں کی زبان ہے)۔ جب بھڑاس نکال چکے تو فرمانے لگے۔۔۔۔ تو کافر ہو گیا ہے تعریف صرف اللہ کی ہوتی ہے اور اللہ کے بعد صرف اور صرف میری، میں تمھارے ساتھ فری ہوں تو اس کا یہ مطلب ہرگز یہ نہیں کہ تیرے دماغ میں جو فتور بھی آیے تو اُس کا اظہار کرتا پھرے۔

بڑے سخت ناقد ہیں ( یہاں نقاد سے مراد وہی ہے جو قبلہ کے ذہن میں ہے)۔ تنقید میں اِن کا ایک اپنا اصلوب (اسلوب) ہے اور اُسی اصلوب سے سب کو مصلوب کرتے ہیں۔ ان کی اجازت کے بغیر آپ کی مجال ہے کہ اپنے آپ پر کوئ کیفیت طاری کر سکیں۔۔۔مثلا، چاندنی رات میں آپ پر پاگل ہونا منع ہے۔ البتہ اِن کی طرح دن کے وقت پاگل رہنے پر ان کو مطلق اعتراض نہیں۔آپ آزاد نظم نہیں کہ سکتے کہ آزاد نظم کے وجود میں آنے کی وجہ اور تاریخ ان کو معلوم نہیں۔ الغرض جو بات قبلہ کی سمجھ سے باہر ہو اصول ہے کہ اُس کا استعمال صریحاّ حرام ہے۔

قبلہ غصہ یوں فرماتے ہیں گویا پیار فرما رہے ہوں۔ ان کے غصے اور پیار میں فرق کرنا تقریباّ نا ممکن ہے، وجہ اسکی یہ ہے کہ پیار آے تو بھی گالیاں ہی ارشاد فرماتے ہیں۔

استعاروں اور کنایوں پر عبور رکھتے ہیں۔ جب بھی کسی کو گالیاں بخشنا مقصود تو استعارے استعمال کریں گے۔ اور جب کسی کو کھلم کھلا گالیاں ارشاد فرما رہے ہوں تو جانئیے کسی استعارے کی تشریح و تو ضیع فرمارہے ہیں۔

باتیں بہت گہری کرتے ہیں۔ اور کئ باتیں تو اتنی گہری ہوتی ہیں کہ کئ کئ دن کی کھدائ کے بعد جب آپ بات کی تہ تک پہنچتے تو پتا چلتا ہے کہ اس بات کا تو کوئ مطلب ہی نہیں ہے۔ ایسی ہی ایک گہری بات آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔۔۔ فیس بک پر موجود ایک دوست (اس دوست کو سب ہی جانتے ہیں) سے ایک دن فرمانے لگے۔۔۔۔یار تم اتنی اچھی شاعری کرتے ہو کہ میں شاعری چھوڑنے کا سوچ رہا ہُوں۔۔۔۔۔قبلہ کا یہ اعلان سن کر میں بڑا خوش ہوا کہ اب اِن کی شاعری سے جان چھٹ جائے گی۔ لیکن صاحب کہاں، جب کئ دنوں کی انتظار کے بعد میری امید دم توڑ گئ تو میں نے سوچا کہ یہ بھی میری کج عقلی ہی ہو سکتی ہے جو ۔۔چھوڑنے۔۔کو ترک کرنے کے معنے میں لے رہا ہوں۔ اس بات کا ذہن میں آنا تھا کہ ابّا کے زمانے کی اردو لغات لکال کر بیٹھ گیا۔ اب جو ۔۔چھوڑنے۔۔ کا مطلب دیکھا تو میرے اپنے پسینے چھٹ گئے۔ پتہ چلا کہ یہ ۔۔چھوڑنا۔۔ محاوراتی چھوڑنا تھا،۔۔۔۔جیسے، ہاتھ چھوڑنا، کتّے چھوڑنا، سانس چھوڑنا، کھلا چھوڑنا، لمبی لمبی چھوڑنا وغیرہ۔۔۔۔۔۔ جبھی جس دن سے قبلہ نے شاعری چھوڑنے کی بات کی ہے اُس دن کے بعد سے بہت زیادہ غزلیں چھوڑنے لگے ہیں۔
جی کیا سمجھے آپ، میں اور آپ سات جنموں تک بھی اتنی گہری بات کرنے کا تصور نہیں کر سکتے!!!

میری پوری زندگی میں اس طرح کے یہ دوسرے انسان ہیں، پہلے بھی یہی ہیں کہ ان کو دوج گوارا نہیں۔ فیس بک پر ان کا طوطی بولتا ہے یا بولتی ہے۔ کسی کی موت آئ ہے جو اِن سے آنکھ ملا کر بات کر سکے۔ سب اِن کے آگے جاہل گنوار اور گدھے ہانکنے والے ہیں۔ البتہ دوستوں کے لیے بریشم ہیں۔ ان کے اکثر دوست ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی شاعری اِنکے کندھے پر رکھ کر چلاتے ہیں۔
بڑے ہی حسن پرست واقع ہوئے ہیں۔ فیس بک پر کسی بھی خاتون کی تصویر، خواہ وہ بیس سال پرانی ہی ہو، دیکھیں گے تو فوراّ فدا ہو جائیں گے۔ہر حیلہ آزمانے کے بعد بھی اگر وہ خاتون چکنی مچھلی ثابت ہو تو پھر اُسے باجی کہنے سے بھی نہیں چوکیں گے۔ جب کوئ باجی اِن کی نیت کو بھانپتے ہوئے اِن کے لشکر سے بغاوت کر دے تو قبلہ اپنے تیئں اُس کا جینا حرام کر دیتے پیں۔ اور یہ بالکل بھول جاتے ہیں کہ اِن کے مدمقابل کون ہے ۔ہم ایک ایسی معاشرت سے تعلق رکھتے ہیں جہاں عام خواتین کو بھی عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے،یہ تو پھر شاعرات ہیں اور عام خواتین سے زیادہ حساس۔ آبگینوں جیسی نازک!!۔

Mohammed Naeem-Glasgow

بشکریہ ’محمد نعیم ۔ گلاسگو‘‘۔

نوٹ ۔ میرے بلاگ پر فی الحال اردو کلیدی تختے کی تنصیب ممکن نہیں لہذا آپ سے التماس ہے کہ اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیےاردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھیں اور اسے تبصرے والے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں ۔۔۔ بہت شکریہ

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...