Tuesday, November 6, 2012

Prof.Seher Ansari – دریاۓ نیل کا سفر

Prof.Seher Ansari – دریاۓ نیل کا سفر


Prof: Seher Ansari

” درد کی نیلی رگیں“ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ شاعرہ کے اپنے شعری رویئےاور زندگی کی فکر

میں ان کا جو سانچہ ہے وہ ذرا مختلف سا نظر آتا ہے، اس میں سب سے پہلی بات تو یہ کہ اس کتاب

کا سائز اوراور اس کی پروڈکشن بیحد منفرد ہے۔

فرزانہ نے ایک کتاب کی جو عام طریقوں سے تیاری ہوتی ہےاس کی ترکیب کو مختلف انداز سے پیش کیا ہے، پھر اس کے ساتھ یہ ہے کہ شاعری میں ایک ایسی شدت احساسات کی سمودی ہے کہ کلام پڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ معلوم ہوتا کہ واقعی یہ شاعری کو زندگی میں برتتی ہیں اور اپنے گردو پیش کی جو زندگی ہے اس میں فطرت اور مختلف انسانوں کو اپنی شاعری میں سموتی ہیں۔اسی کو آپ دیکھ لیجئے تو اندازہ ہوتا ہےکہ وہ انفرادیت اور پامال رستوں سے ہٹنے کا رویہ اپنی زندگی میں رکھتی ہیں،۔

فرزانہ نے جس طرح نثر میں بھی جو بات لکھی ہے کہ مولسری کی شاخوں میں چھپا دیتی ہوں جن پر میں تپتی دوپہروں میں مولسریاں کھا کر اس کی گٹھلیاں راہگیروں کو مار کر اپنے آپ کو ماورائی شخصیت سمجھتی تھی، ایک اور بات یہ کہ موہنجو ڈارو کےقبرستان میں شاعری کھڑا کر دیتی ہیں، جہاں ماں باپ کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے ہوئے میں کانچ گھڑی میں ریت کی مانند بکھرنے لگتی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔

یہ ایک ایکویژن ہے کہ موہنجو ڈارو کی پوری تہذیب اس وقت اور اس کے ساتھ پھر اپنےماں باپ کی قبر، فاتحہ اور اس کےساتھ پھر وقت ریت کی طرح گزارنے کی کیفیت، یہ وہ چیزیں ہیں کہ جن سےمعلوم ہوتا ہےکہ محسوسات کو ایک تجسیمی شکل میں دیکھنا اور انھیں پیش کرنا یہ شاعری کی ایک بہت بڑی خصوصیت ہے، فیض صاحب کی ایک نظم میں ہےکہ”درد کی کاسنی پازیب بجاتی نکلی“ تو اب دیکھئے درد کی کاسنی پازیب اور ”درد کی نیلی رگیں“ تو ایک غیر مرئی چیز ہی”درد“ اس کو آنکھوں سےدکھا دینا، محسوس کرادینا جو کہ نظر نہیں آتا ہےوہ نیلی رگوں کےذریعےہی ممکن تھا، تو یہ بات پوری شاعری میں نظر آتی ہے کہ محسوسات کو تمثیلوں کے ذریعے تصویروں کی طرح اجاگر کیا گیا ہے کہ شاعرہ کے تخیل کو اور ان کےمحسوسات کی دنیا کو، ہم ان کی شاعری میں پوری طرح پالیتےہیں،

میں نے جتنے اشعار منتخب کئے تھے وہ سنائے جا چکے ہیں، پھر بھی اس طرح ہے کہ

اک وراثت کی طرح گاؤں کی گڑ سی باتیں
گٹھڑیاں باندھ کےاس دل کےنگر آتی ہیں



تو اب اس طرح کی جو امیجری ہے آپ دیکھیں گے کہ پراندہ ہے، رہٹ، مور پنکھ ،اوک میں پانی بھرنا وغیرہ ۔ ۔ ۔

جن کو شاعری کی دنیا میں ہم غیر شاعرانہ الفاظ کہتے ہیں، شاعری وہیں اپنا جوہر دکھاتی ہےکہ جہاں لفظ جنھیں آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بے جان ہیں یا اس کا استعمال غیر شاعرانہ ہوجائےگا وہاں شاعر اپنی تخلیقی قوت سےاس کو ایک نئی زندگی دے تو وہ ہی دراصل شاعری کا اصلی جوہر ہوتا ہے، ایسی کئی مثالیں نیناں کی شاعری میں نظر آتی ہیں ۔ ۔ ۔

تمہیں گلاب کے کھلنے کی کیا صدا آتی
تمہارے گرد تو ہر وقت صرف پیسا ہے

تو زندگی کو انھوں نےجس طرح دیکھا ہے وہ بھی ایسےماحول میں رہتے ہوئے جہاں آپ دیکھیں گےکہ انسان کی کوئی قدر نہیں ہے، جذبِ زَر کا ایک رحجان پایا جاتا ہے اور اس کے بارے میں نظیر اکبر آبادی نے کہا ہے کہ

”کوڑی کےساتھ جہان میں نصب نہ دین ہے کوڑی کےپھر تین تین ہیں“

تو وہاں ان قدروں کو محسوس کرنا کہ پیسہ اور دولت کوئی قدر نہیں ہے اصل چیز تو یہ ہے کہ آپ کے کانوں تک گلاب کے چٹکنے کی صدا پہنچ سکی، شدید جذبات ہیں اور لطیف جذبات ہیں، نیناں نے مختلف حوالوں سے محسوس کیا ہے اب جیسے ہمارے معاشرے کی زندگی میں کارو کاری کا بہت ذکر ہوتا ہے ۔۔۔۔

کے مختلف مسائل بھی آتے رہتے ہیں اب ان کو شعروں میں اس طرح ڈھالنا کہ Honour

قبیلے کےخنجر بھی لٹکے ہوئے ہیں

کھڑی ہیں جہاں لڑکیاں دل کو ہارے

تو اب یہ جو ہے کہ ۔ ۔ ۔

لگا تار روتی ہے لہروں کی پائل

سدا جھیل میں ہیں شکاری شکارے


ان کی غزلوں اور نظموں میں جو نئے الفاظ کی تلاش ہے اس کو آپ رعایتِ لفظی نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ اپنی معنویت کے ساتھ ہیں جیسے” شکاری اور شکارے“ میں جو معنوی کیفیت ہے وہ پوری طرح واضح ہوجاتی ہے ۔ ۔ ۔


پیاسوں کے واسطے یہی نیناں بھرے بھرے
جلتے جھلستے تھر میں کبھی رکھ دیا کرو

ہے بلند آدمی ذہانت سے

ذہنیت پست ہے تو پستہ ہے


اب یہ جو بات لکھی ہے کہ میں سماجی مسائل کی بابت نہیں لکھتی، یہ سماجی زندگی تو خود بخود شاعر کے اندر آجاتی ہے اگر اس میں کوئی شعور
موجود ہے کیونکہ کسی انتہائی باطنی اور داخلی تجربے کو یہ محسوس کریں کہ اس کا کوئی خارجی حوالہ نہیں ہے تو تجزیئے سے معلوم ہوگا کہ وہ بھی کسی خارجی حوالے کے ذریعے آپ تک پہنچا ہے ۔ ۔ ۔


دھوپ گر نہ صحرا کےراز کہہ گئی ہوتی
میں تو بہتےدریا کےساتھ بہہ گئی ہوتی



ان کےاشعار میں بے ساختگی کے ساتھ مصرعوں کی جو پوری ساخت نظر آتی ہے اس میں پورا ایک سانس کا اتارچڑھاؤ جو کہ شاعری کے لئے بہت ضروری ہے وہ مصرعوں میں پوری طرح محسوس ہوتا ہے، اس پر کم گفتگو ہوئی ہے، نظموں پر بھی کم گفتگو ہوئی ہے، نظموں میں ایک اہم بات یہ ہےکہ خیال کی ہر لہر شروع سےآخر تک ایک رہے اور اس میں نامیاتی اکائی یا آنریری یونٹی ایک رہے اور وہ نامیاتی اکائی ان کی نظموں میں نظر آتی ہے ۔ ۔ ۔


کڑی دھوپ میں چلتےچلتے سایہ اگر مل جائے۔۔۔ تو

اک قطرے کو ترستے ترستے، پیاس اگر بجھ جائے۔ ۔ ۔ تو
برسوں سے خواہش کے جزیرے ویراں ویراں اجڑے ہوں
اور سپنوں کےڈھیر سجا کر کوئی اگر رکھ جائے۔۔۔ تو

بادل، شکل بنائیں جب نیل آکاش پہ رنگوں کی
ان رنگوں میں اس کا چہرہ آکےاگر رک جائے۔۔۔ تو

خاموشی ہی خاموشی ہو دل کی گہری پاتالوں میں
کچھ نہیں کہتے کہتے گر کوئی سب کہہ جائے ۔ ۔ ۔ تو
زندہ رہنا سیکھ لیا ہو سارے دکھوں سے ہار کے جب
بیتے سپنے پا کے خوشی سے کوئی اگر مر جائے۔۔۔ تو



یہ پوری اکائی ایک خیال کی موجود ہے اگر اس میں سے یہ نکال دی جائے تو یہ محسوس ہوجاتا ہے کہ اس میں ایک کمی واقع ہوگئی ہے، ان کے یہاں نظموں میں انفرادیت ہے، نیناں پہلے بھی یہاں آچکی ہیں جب بھی سنا اور اب بھی، یہ ثابت ہوا ہے کہ ان کے یہاں دوسروں سے مختلف ایک انفرادیت موجود ہے اور یہ دوسروں سے الگ لہجہ، اپنی شاعری کا راستہ، رخ اور انداز بنا رہی ہیں، لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے اور اس کا احساس ان کی اس نظم میں نمایاں ہے کہ:

اپنا راستہ ڈھونڈنا اکثر اتنا سہل نہیں ہوتا ہے
لوگوں کےاس جنگل میں، چلنا سہل نہیں ہوتا ہے
یہ تو کوئی جگنو ہےجو لے کر روشن سی قندیل
کبھی کبھی یوں راہ بنائی، جیسے ہو دریائےنیل

تو یہ حقیقت ہے کہ انفرادیت کا راستہ شاعری میں بنانا، جہاں اتنی آوازیں ہیں اتنے لہجے ہیں، تو یہ واقعی اک دریائے نیل کا سا سفر ہے جو اپنا راستہ خود بناتا چلا جاتا ہے۔۔۔

مجھے اس کی پوری امید ہے کہ یہ دریائے سخن اسی طرح بہتا رہے گا اور یہ دریائے نیل جو کہیں جاکر سفید بھی ہو جاتا ہےوہ اپنے رنگ اجاگر کرتا رہے گا ، میں ان کو بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نےایک بہت اچھا مجموعہ اردو شاعری کو عنایت کیا ہے۔ ۔ ۔ شکریہ

پروفیسر سحر انصاری ۔ ۔ ۔ کراچی


No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...