Tuesday, November 6, 2012

Haider Sherazi – تتلیوں کی فصل

Haider Sherazi – تتلیوں کی فصل

تتلیوں کی فصل” butterfly3.gif

مدعا لفظ ہو یا تصویر کیا جائے، کوششِ اظہار انسان کا حق نہیں بلکہ اس پر واجب ہے، لفظ سے تصویر تک سارا کھیل تو

نقطےکے پھیلاو کا ہے، جیسے بیج میں درخت کا ہونا امرِ واقعہ ہےا ُسی طرح نقطےمیں تصویر اور لفظ ہر دو موجود ہوتےہیں،

اِ س کے پھیلاو کا نتیجہ قلم اور مو قلم کے فرق کی بنا پر مختلف ہو سکتا ہے۔


Haider Sherazi and Farzana Khan

میرےخیا ل میں شاعری، قلم سےنقطے کو تصویر کرنا ہے بشرطیکہ نقطےسے کشید کا یہ عمل اپنے پیچ و خم میں رقص کی سی ترتیب رکھتا ہو، ایسی ترتیب جو کوشش کے نتیجے سے زیادہ خود رو محسوس ہوتی ہو کہ کوشش جہانِ ممکنات کا تمدن ہےاور شاعری خدشہ و امکان، ہر طرف نقطے کا پھیلاو کھوجنا ہے، مجھےعادت ہے منظروں سے نابود پس منظروں تک بےارادہ خیال آرائی کی، منظر کےحدود اربعےمیں واقع ہونےکے باوجود، نابودی کے خوف کو مجھ میں دھڑکتا چھوڑ دیا گیا ہے، مجھے میری پیدائش کےواقعے میں قید رکھ کر میری نمو کی حد بندی کردی گئی ہے۔


زمان و مکان کی ردیف میں پابند ہستی کےاس مصرع طرح پر طبع آزمائی کی گنجائش ہی کتنی ہے، قافیہ پیمائی میں مضمون دسترس سےنکل نکل جاتا
ہےاور مضمون سنبھالنے میں بحر کا سانس پھولنے لگتا ہے۔

نقطےکے پھیلاوسے ہستی کےجغرافیے تک کوئی راز ہے جسے ذوقِ نظارہ سےاوجھل رکھا گیا ہے، شاعری نقطےکا اس قدر پھیلاؤ ہے کہ وہ راز تصویر نہ ہونے پائے تو بھی شعور کی سطح پر ثابت قرار پائے، مجھ میں اور فرزانہ خان میں بہت فرق ہےلیکن فرق کی یہ ساری بہتات بھی شاعرانہ ہے، اُس کے ہاں لفظ اُترتا ہوا محسوس ہوتا ہے جبکہ مجھ پر تو لفظ چیختا برستا سنا جا سکتا ہے، اُس کےہاں لفظ سے اُنسیت کا تعلق صاف ظاہر ہے، میرےہاں لفظ کے ساتھ گھمسان کے ایک کارن کی سی کیفیت ہے، فرزانہ درد کو سسکیوں میں اور خوشی کو مسکراہٹوں میں لکھتی ہے، میری طرف لفظ صدائے ماتم سے گونجتا عزاخانہ ہے یا فلک شگاف قہقہ۔۔

کوئی تقابلی مقصد ہرگز نہیں کہ تقابل کےلئے متقابلین سے کما حقہُ آگاہی لازم ہے، یہاں تو المیہ ہے کہ رگِ جان کےقرب و جوار میں بسنے والے کی خبر ہی نہیں، خود سے آگاہی کی ہر کوشش بھی انجامِ کار کسی بند گلی میں لا کھڑا کرتی ہے، زندگی یوں بھی موجود سےمعدوم کی بند گلی تک سرکنا ، رینگنا یا سرپٹ دوڑے جانا ہے، سیدھے رستےکی دریافت میں ہی کہیں عزم سفر مسلسل ہوکر دو گز زمین کا لقمہ بن جاتا ہے۔ جوئے سخن جاری کرنے کو سنگِ وجد پہ امکان کی تیشہ زنی تو ضروری ہے، سختئی روزوشب پہ جب بھی ضرب لگے، لپکتے شعلوں کا حجم اور لپک سختی سے براہِ راست متناسب ہوتا ہے ۔

فرزانہ کےہاں یہ شعلےآتش بازی سےکھلِتے ستاروں اور پھولوں جیسے ہیں، یہ اُس کا ضرب لگانےکا ہنر ہے یا روز و شب کی مہربانی کہ اُس کے ہاں شعلوں میں الاو کی سی کیفیت نہیں، مجھےلگتا ہےکہ کسی نوک دار لمحےسےالجھ کر اُدھڑنےکےبجائے وہ کسی بچگانہ تجسس کےتحت تار تار کُھلی ہے، اُس کے مضامین میں نسوانیت سے مخصوص ترتیب و تنظیم ہے۔ مجھےاُس کےلفظ انگلیوں پہ بےارادہ دوپٹہ کھولتے دکھائی پڑتے ہیں، لگتا ہےکہ خواب دیکھنے کی عمر میں آنکھیں زندگی کی بے ہنگم برہنگی کا شکار ہوئیں تو ایک ایک پور میں حیا رنگ سچائیاں جیسے برف ہو کر جم سی گئیں، اِدھر ضرب شعلہ ہوئی اور اُدھر وہ برف شبنم سی قطرہ قطرہ پگھلنےلگی، ایک ذرہ کسی ایسےقطرے کو قلم سے گدگدایا تو کاغذ پر تتلیوں کی خود رَوفصل اُگ آئی۔

مجھے ہرگز علم نہیں کہ تتلیوں کی اِس فصل پر غالب رنگ نیلا کیوں ہے؟

مجھےتو یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ ان تتلیوں کو درد کی نیلی رگیں کہنے پر کیوں مُصر ہے؟ مجھے تو آسمان کو نیلا دیکھنےکی عادت ہے یا زہر پیالے سے فارغ ہوکر سقراط کا آسمان ہو جانا میرا رومان ہے، ہوسکتا ہے کہ فرزانہ کے ہاں آسمان ریزہ ریزہ زمین کی طرف بکھرتا ہو اور تحیر سے کھنچی کمان ہوا، وجود سے بےکراں خلا میں ڈولتے آسمانی ٹکڑوں میں سے ایک دکھائ پڑ تا ہو۔۔۔۔۔

نقطےکے پھیلاو میں جہاں آسمان آپڑے وہاں خود آزمائی انجام نہیں ہوتی لیکن کوشش کی نوعیت بدل جاتی ہے، آسمان تک رسائی اس کی نیلاہٹ کی تردید کےلئے کافی ہوتی ہے لیکن اس رسائی میں اگر نقطےکا پھیلاو ہی آسمان ہوجائے تو رگوں کی نیلاہٹ ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔

فرزانہ کے ہاں نقطےکے مزید پھیلاو کے سارےامکان ستاروں کی طرح نہیں سورج کی طرح روشن ہیں، سات آسمانوں کا یہ سارا پھیلاو اس کی خواہش میں دھڑکتا محسوس ہوتا ہے، درد کی نیلی رگوں کا یہ ہوشرُباجال اُس کا نہیں اپنی پیدائش کے واقعے میں اسیر ہر شخص کا المیہ ہے، اُس کا کمال یہ ہے کہ اُس نے یہ المیہ لفظوں سےحوصلہ بَنتے ہوئے جھیلا ہے،
ہم پر واجب ہے کہ ہم اُس کےحوصلے میں برکت عطا کئےجانےکی دعا کےساتھ اُسے دیانتداری سےداد دیں۔


No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...