Welcome to the Urdu Poetry Archive! Urdu poetry is like a vast ocean. Walking along its shores on the sands of time, I have gathered a few gems that I would like to share with you.
Tuesday, November 6, 2012
Shair-E-Lashker – شاعرِ لشکر
قبلہ میرے بڑے اچھے دوست ھیں، ان کو پیار سے میں شاعر لشکر کہتا ھوں۔
اب تک آپ کی حالت بڑی قابل رحم ہو چکی ہوتی ہے کہ مخالف کیمپ بھی تو آپ کو قبول نہیں کر رہا ہوتا۔۔۔آپ تو محض اپنے خوش ذوق اور ادب دوست ہونے کا مظاہرہ کر رہے تھے اور یہ کیا ہو گیا۔۔۔۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے۔۔۔ دیکھا قبلہ کا انتقام!
سنا ہے گھر میں صرف یہی ہیں جو پڑھے لکھے پیں،اور اِس کی تصدیق کچھ قبلہ کے لب و لہجے اور مزاج سے بھی ہوتی ہے۔ ایک دفعہ ان کے ابا کے ایک دُور کے دوست مری سے ملنے آئے تو اِن کے بڑے بھائی کے متعلق پوچھنے لگے کہ کیا کام وام کرتے پیں۔ اِن کے ابا فرمانے لگے۔۔۔۔۔,بس یار کیا بتاوں ابھی تک فارغ ہی ہے,۔۔۔۔ پھر قبلہ کا ذکر چھڑ گیا تو اِن کے ابا بولے۔۔۔۔, چھوڑو یار وہ بھی شاعر ہے,۔۔۔۔۔دوست بڑے حیران ہوئے اور لگے پوچھنے کہ یہ تم نے شاعر کے ساتھ ۔۔۔ بھی۔۔۔ کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے؟۔۔۔۔ تو اِن کے ابا بولے کہ۔۔۔ بھی۔۔۔ اس لیے لگایا ہے کہ شاعر ہے تو اُسے بھی فارغ ہی سمجھو!۔ ان کے ابا کے دوست کہنے لگے یار پڑھا لکھا ہے کہیں نہ کہیں تو جڑ دیتے۔۔۔۔۔
قبلہ دشمن سازی میں بڑے خود کفیل ہیں۔ آپ دشمنی ٹالنے کی چاہے لاکھ کوشش کریں اور اسی کوشش میں چاہے انکی جھوٹی اور بے تکی تعریف بھی کریں، بات کو اِدھر اُدھر گھمائیں، ہنس ہنس کر بات کریں لیکن بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی کے مصداق آپ سے کوئ نہ کوئ غلطی تو ہو گی ہی کہ انسان جو ٹھرے، بس ہو گئ دشمنی شروع۔ آپ سے دشمنی ہو جانے کے بعد خوش خوش پھرئیں گے، سیٹی پر محمد رفیع کے گیت۔۔۔۔میرے دشمن تو میری دوستی کو ترسے۔۔۔۔ کی بےسری دھن بجاتے پھریں گے، دوستوں کو دشمنی کی باریک سے باریک تفصیلات بڑے فخریہ انداز میں بتائیں گے اور ان سے نیا محاذ کھلنے کی مبارک باد وصول کرتے پھریں گے، الغرض خوش ہونے کے جتنے بھونڈے طریقے جانتے ہیں اپنائیں گے۔ دوست بھی ان کی اس نئ نویلی دشمنی پر انتہائ خوشی محسوس کرتے ہیں کہ چلو سب کو شاعری کے علاوہ بھی کچھ کرنے کو ملا۔
ہمارے ایک ڈکٹیٹر حکمران ایوب خان خود ساختہ (self appointed) فیلڈ مارشل رہے ہیں۔ چونکہ مزاجّ قبلہ بھی ڈکٹیٹر واقع ہوئے ہیں لہزا انہوں نے بھی اپنے آپ کو نقاد کے عہدے پر خود ہی فائض کر لیا ہے، اور تنقید کے ایک نئے سکول آف تھوٹ ۔بِستی ہی بِستی۔ (بے عزتی ہی بے عزتی) کی بنیاد ڈالی۔ بڑی ادق قسم کی تنقید کرتے ہیں۔ تنقید میں ایسی ایسی اصطلاحات استعمال کرتے جو پہلے صرف طّب کی کتابوں میں ہی ملتی تھیں،۔۔۔مثلا نظم یا غزل کی نامیاتی، لحمیاتی، نِشاستائ یا عضلاتی ترتیب وغیرہ،۔۔ نظم یا غزل کا سفراوی، بلغمی یا فشاری مزاج وغیرہ،۔۔نظم یا غزل کی آفاقی، افلاقی، ملکوتی سطح وغیرہ،۔۔۔ تجریدی، وریری، عروقی یا نسائ لہجہ وغیرہ وغیرہ۔
باتیں بہت گہری کرتے ہیں۔ اور کئ باتیں تو اتنی گہری ہوتی ہیں کہ کئ کئ دن کی کھدائ کے بعد جب آپ بات کی تہ تک پہنچتے تو پتا چلتا ہے کہ اس بات کا تو کوئ مطلب ہی نہیں ہے۔ ایسی ہی ایک گہری بات آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔۔۔ فیس بک پر موجود ایک دوست (اس دوست کو سب ہی جانتے ہیں) سے ایک دن فرمانے لگے۔۔۔۔یار تم اتنی اچھی شاعری کرتے ہو کہ میں شاعری چھوڑنے کا سوچ رہا ہُوں۔۔۔۔۔قبلہ کا یہ اعلان سن کر میں بڑا خوش ہوا کہ اب اِن کی شاعری سے جان چھٹ جائے گی۔ لیکن صاحب کہاں، جب کئ دنوں کی انتظار کے بعد میری امید دم توڑ گئ تو میں نے سوچا کہ یہ بھی میری کج عقلی ہی ہو سکتی ہے جو ۔۔چھوڑنے۔۔کو ترک کرنے کے معنے میں لے رہا ہوں۔ اس بات کا ذہن میں آنا تھا کہ ابّا کے زمانے کی اردو لغات لکال کر بیٹھ گیا۔ اب جو ۔۔چھوڑنے۔۔ کا مطلب دیکھا تو میرے اپنے پسینے چھٹ گئے۔ پتہ چلا کہ یہ ۔۔چھوڑنا۔۔ محاوراتی چھوڑنا تھا،۔۔۔۔جیسے، ہاتھ چھوڑنا، کتّے چھوڑنا، سانس چھوڑنا، کھلا چھوڑنا، لمبی لمبی چھوڑنا وغیرہ۔۔۔۔۔۔ جبھی جس دن سے قبلہ نے شاعری چھوڑنے کی بات کی ہے اُس دن کے بعد سے بہت زیادہ غزلیں چھوڑنے لگے ہیں۔
میری پوری زندگی میں اس طرح کے یہ دوسرے انسان ہیں، پہلے بھی یہی ہیں کہ ان کو دوج گوارا نہیں۔ فیس بک پر ان کا طوطی بولتا ہے یا بولتی ہے۔ کسی کی موت آئ ہے جو اِن سے آنکھ ملا کر بات کر سکے۔ سب اِن کے آگے جاہل گنوار اور گدھے ہانکنے والے ہیں۔ البتہ دوستوں کے لیے بریشم ہیں۔ ان کے اکثر دوست ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی شاعری اِنکے کندھے پر رکھ کر چلاتے ہیں۔
Labels:
Articles
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment