Tuesday, November 6, 2012

Rules of Poetry – آوازیں اور عروض

Rules of Poetry – آوازیں اور عروض

i-dream-of.gif

تمام زبانیں آوازوں سے مل کر بنتی ہیں۔ آوازوں کو دو قسموں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ایک ۔ آوازوں کا بڑی ہونا اور یا چھوٹا ہونا اس کی ادائیگی سےظاہر ہوتا ہے۔ دو۔ آوازیں اس طرح ادا کی جائیں کہ بعض آوازوں کےادا کرنےمیں زیادہ زور لگانے کی ضرورت ہو اور بعض میں کم۔ اردو کا شمار پہلی قسم میں ہوتا ہے یعنی اردو میں آوازیں بڑی یا چھوٹی سننائی دیتی ہیں۔

 

چھوٹی آواز میں صرف ایک حرف کی آواز سننائی دے گا۔ بڑی آواز میں دو حروف کی آواز سننائی دے گی۔

جب ہم عروض کہتےہیں تو کان پہلے ع اور رو اور پھر ‘ ض ‘ آواز سنتے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ لفظ عروض ، ایک چھوٹی، ایک بڑی اور پھر ایک چھوٹی آواز سےمل کر بنا ہے۔ اگر ہم چھوٹی آواز کو چ اور ہڑی آواز کو ب سےظاہر کریں تو یہ علامتی ترتیب ہوگی۔ چ ۔ ب ۔چ ۔ اس طرح لفظ عروضی میں ہم ع رو اور پھر ضی کی آوازیں سنتے ہیں۔ عروضی کی علامتی ترتیب چ ۔ ب ۔ ب ہوگی۔ ان آوازوں کو ہم ‘ تہجی کےارکان ‘ یا لفظ کی حرکات ‘ (syllable) کہتے ہیں۔

اس سےہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ علم عروض اس علم کا نام ہے جس میں زبان اور شعر کا مطالعہ مندرجہ ذیل طریقہ سے کیا جا سکت اہے۔

1
۔ آواز کوادا کرتے وقت جو آواز نکلتی ہے وہ چھوٹی ہے یا بڑی ہے؟
2
۔ کتنی بڑ ی اوازیں یکجا ہوسکتی ہیں؟
3
۔ کتنی چھوٹی آوازیں یکجا ہوسکتی ہیں؟
4
۔ اور چھوٹی اور بڑی آوازوں کا بیک وقت اجتماع کس حد تک
5
۔اور کس نمونہ پر ممکن ہے؟

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے۔کہ عروض کا بنیادی کام آوازوں کی ترتیب اور ان کے نمونوں کا مطالعہ ہے۔ کسی لفظ کی آوازوں کو اگر علامتوں کے ذریعہ سےظاہر کیا جائے تو اس کو الفاظ کا وزن ظاہر کرنا کہا جاتا ہے۔
مثلاً عروض کا وزن ہے۔ چ ۔ ب ۔چ ہے۔
جب اس ترتیب کو کسی نمونے کے احاطہ میں ڈال دیا جائے اور اس پر ترکیب کا وزن کو مستقل علامتوں کے ذریعہ ظاہر کی جائے تو اس ترکیب کو تقطین کرنا یا بحر بیان کرنا کہتے ہیں۔

اصول: وہ آوازیں جو لکھنےمیں بڑی لگتی ہوں لیکن بولنے اور پڑھنے میں چھوٹی سننائی دیتی ہوں ایسی آوازیں وہ ہیں جن کو آخیر میں ( ا – و – ں – ی – ے – ہ) میں سے کوئی ایک حروف ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ مصرعہ دیکھے۔

امیدیں غریبوں کی بر لانے والا
– مولانہ حالی

اس میں لفظ کی اور نے بظاہر بڑے لگتے ہیں اور بڑی آواز والے بھی نظر آتے ہیں لیکن پڑھنےمیں دونوں کی’ ی اور ے ‘ دبائی جاتی ہے۔ یعنی اگرچہ ‘ کی ‘ اور ‘نے’ میں دو، دو حروف ساتھ ساتھ لکھےگئے ہیں لیکن پڑھنے میں ایک حرف (ک اور زیر) اور ( ن اور زیر ) کی آواز ادا ہوتی ہے اس طرح اس مصرعہ کی ترکیب کو
علا مات کے ذریعہ یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔اس نقطہ کو مزید صاف کرنے کے لئے اگر ہم کی اور نے کو ان کی ظاہری بڑی شکل میں ہی لکھیں اورعلامتی نقشہ بنائیں تو یوں لکھنا ہوگا۔

غلط علامتی شکل
اُم ۔ ی ۔ دیں
چ ۔ ب ۔ ب
غر ۔ ی ۔ بوں
چ ۔ ب ۔ ب
کی ۔ بر ۔ لا
ب ۔ ب ۔ ب
نے۔ وا ۔ لا
ب ۔ ب ۔ ب

چ = چھوٹی ب = بڑی

آپ اس نقشہ کو پڑھیں تو فوراً معلوم ہو جائے گا کہ مصرعہ نہ صرف زبان پر رواں نہیں بلکہ ناموضوع بھی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے کی اور نے کو مصنوعی طور پر وہ آوازیں دی ہیں جو فطری بول چال کے خلاف ہیں۔ لہذا اس مصرعے کی صحیح علامتی شکل وہی ہے جو میں نے پہلے بیان کی۔

صحیح علامتی شکل
اُم ۔ ی ۔ دیں
ب ۔ ب ۔ چ
غر ۔ ی ۔ بوں
ب ۔ ب ۔ چ
کی ۔ بر ۔ لا
ب ۔ ب ۔ چ
نے۔ وا ۔ لا
ب ۔ ب ۔ چ

چ = چھوٹی ب = بڑی

ہم نے چ اور ب کی علامت کو استعمال کیا ہے۔ یہ ترکیب استعمال شروع شروع میں آوازں کے کو سمجھانے کی حد تک تو کافی ہے۔ ‘ لیکن شاعری میں استعمال کرنے کے لئے ایک بہتر نظام کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے پاس کچھ ایسے الفاظ موجود ہوں جو اردو کے تمام الفاظ اور نمونوں کو علامتی طور پر ادا کر سکیں تو مشکل آسان ہوسکتی ہے۔
خوش قسمتی سے ایسی علامات پرانے زمانے میں عرب کے خلیل بن احمد نے دریافت کر لیں تھیں۔ چناچہ علمِ عروض میں مختلف آوازوں کی ادائیگی کا ایک اور طریقہ استمعال کیا جاتا ہے جس میں فرضی الفاظ استمعال کیئے جاتے ہیں جو اردو کی آوازوں کی ترتیب کا تمام ممکن نمونوں کو ظاہر کر سکتے ہیں۔ فرضی الفاظ کو افاعل یا ارکان کہتے ہیں۔

ارکان

1۔ فاعلن
2۔ فعولن
3۔ فاعلا تن
4۔ مستفعلن
5۔ مفاعلین
6۔ فاع لاتن
7۔ مس فاع لاتن
8۔ مفعولاتن
9۔ متفاعلن

10۔ مفاعلتن

 

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...