Welcome to the Urdu Poetry Archive! Urdu poetry is like a vast ocean. Walking along its shores on the sands of time, I have gathered a few gems that I would like to share with you.
Tuesday, November 6, 2012
Jazib Quereshi – روشنی کی تازہ لپک
عرب امارات ،برطانیہ، امریکا، کینیڈا کےدرمیان جو پاکستانی اپنےاپنےدائروں میں رہ کر تہذیبی و ثقافتی روایات کےساتھ ساتھ اردو زبان کی نئی تاریخ رقم کر رہےہیں ان میں نوٹنگھم میں آباد فرزانہ خان نیناں بھی شامل ہیں، نوٹنگھم میں فرزانہ نےایک ادبی اور ثقافتی تنظیم’بزمِ علم و فن‘ کےتحت اردو کا چراغ جلایا ہوا ہےجس کےزیرِ اہتمام مشاعری، جلسےاور مختلف ادبی و سماجی تقریبات ہوتی رہتی ہیں اور پاکستان سےجانےوالےاستفادہ کرتےرہتےہیں ۔
آسماں کےرنگوں میں رنگ ہےشہابی سا
حرف پیار کےسارےآگئےتھےآنکھوں میں
پارس نےدفعتاََ مجھےسونا بنا دیا
فرزانہ کےجسم و جاں پر محبتوں کےاثرات کو مختلف کیفیت میں دیکھا جا سکتا ہے
کسی کےعکس میں کھوئی ہوں اتنی
اشکوں کےپانیوں میں اترا کسی کا چہرہ
کیسا عجب سفر ہےدل کی مسافتوں کا
بسی ہےیاد کوئی آکےمیرےکاجل میں
اُسی چراغ کی لوَ سےیہ دل دھڑکتا ہے
پھرتی ہےمیرےگھر میں اماوس کی سرد رات
جی چاہتا ہےرات کےبھرپور جسم سے
شام ڈھلنےسےمجھےدیکھ سحر ہونےتک
روز دیکھا ہےشفق سےوہ پگھلتا سونا
یہ دیکھ کتنی منور ہےمیری تنہائی
مثالِ برق چمکتی ہوں بےقراری میں
تتلیاں ہی تتلیاں ہیں تم جو میرےساتھ ہو
میرےچہرےمیں چمکتا ہےکسی اور کا
ممکن ہےاس کو بھی کبھی لےآئےچاندرات
مری خا مشی میں بھی اعجاز آئے
چاند رکھا ہےکہیں دھوپ کہیں رکھی ہے
تلاش بستی میں کرتا ہےجس کو شہزادہ
عورت کا ذہن مرد کی اس کائنات میں
قبیلےکےخنجر بھی لٹکےہوئےہیں
انگلیوں سےلہو ٹپکتا ہے
سب اختیار اس کا ہےکم اختیار میں
تھل سےکسی کا اونٹ سلامت گزر گیا
بدن کی چٹانوں پہ کائی جمی ہے کہ
خلا سےمجھےآرہی ہیں صدائیں مگر
سزا بےگناہی کی بس کاٹتی ہوں
دھوپ گر نہ صحرا کےراز کہہ گئی ہوتی
بام و در ہیں ترےاشکوں سےفروزاں نیناں
لگتا ہےمجھ کو میں کسی مردہ بدن میں تھی
خیال رکھنا ہےپیڑوں کا خشک سالی میں
قدم روکتا کب سیہ پوش جنگل
سمندر کو صحراؤں میں لےکےآتے
پہنچتی اتر کر حسیں وادیوں میں
تمہیں گلاب کےکھلنےکی کیا صدا آتی
نجانےکیسےگزاروں گی ہجر کی ساعت
اوڑھےپھرتی تھی جو نیناں ساری رات
سیب اور چیری تو روز لےکےآتی ہوں
شوخ نظر کی چٹکی نےنقصان کیا
اُسےجو دھوپ لئےدل کےگاؤں میں اترا
میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
کان میں میں نےپہن لی ہےتمہاری آواز
روز آجاتی ہوں کمرےمیں ہوا کی صورت
کوئی بھی نہ دیوار پر سےپکاری
مرےوجود سےقائم ہیں بام و درمیرے
بہشت ہی سےمیں آئی زمین پر لیکن
یہ جانتےہوئےکوئی وفا شناس نہیں
میں نےفرزانہ کی نظمیں بھی پڑھی ہیں، ان نظموں میں’دریائےنیل، پگلی، پتھر کی لڑکی، سوندھی خوشبو، آخری خواہش، پہلی خوشی، ناریل کا پیڑ، اور ماں جیسی نظمیں خوبصورتی کےساتھ لکھی گئی ہیں اور احساس و خیال کو زندگی کی سچائیوں سےجوڑ دیتی ہیں،
شوخ بوندوں کی طرح جاکےاٹک جاتےہیں
رات کےخالی کٹورےکو لبالب بھر کے
صبح کےروپ میں جب دیکھنےجاتی ہوں اسے
بخش دیتی ہوں مناظر کو روپہلا ریشم
نیلگوں جھیل میں ہےچاند کا سایہ لرزاں
کیسا نشہ ہےسرخ پھولوں میں
زلف کو صندلی جھونکا جو کبھی کھولےگا
فرزانہ کی شعری جمالیات، لفظیات اور امیجز خوبصورتی و اثر پذیری کےساتھ اظہار میں آئی ہیں ، پاکستان کی تہذیبی و ثقافتی اور ادبی و معاشرتی
جاذب قریشی
Labels:
Articles,
Farzana Naina,
Sad Poetry,
urdu Poetry
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment