Tuesday, November 6, 2012

Nazir Faruqi – طلسمی مالا

Nazir Faruqi – طلسمی مالا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

پروردگار ہی نہیں ساری فضا ہےرنگیں
آپ مہماں ہیں تو ہر چیز پہ رعنائی ہے



Nazir Faruqi


درحقیقت یہ رعنائی خیال کی ہی تقریب ہے،

 

 

 

محترمہ فرزانہ نیناں منفرد لفظیات کو اپنی شاعری میں گوندھ کر ایک نیم طلسمی مالا تخلیق کرنےوالی شاعرہ ہیں،یہ بڑی خوشی کی بات ہےکہ آجکل ہماری بہت سی خواتین شاعری کی جانب مائل ہو رہی ہیں، ابھی تک ہمارے’مرد سالاری‘ رویوں نےہماری عورتوں کو بچوں اور باورچی خانےکےحصار میںقید رکھ کر جو گھٹن پیدا کر رکھی ہےاس کا اظہار برملا ہورہا ہے،آج بھی اپنےکرب کا اظہار کرنےوالی خواتین کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے،مگر کم سےکم ان کےدرد کو سن کر ہمارےمعاشرےکو اپنےگریبان میں جھانکنےکی دعوت ضرور ملتی ہے، لڑکیوں کو شعر کہنےمیں ایک اور مشکل کا سامنا بھی ہےجس کی طرف ہماری بےبدل شاعرہ پروین شاکر مرحومہ اشارہ کر گئی ہیں کہ:

اپنی رسوائی ترےنام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

جدید غزل گو زندگی کی تکلیف دہ حقیقتوں کے بیاں میں بھی شاعری کی لطافتوں کا دامن ہاتھ سےنہیں جانے دیتا ،حفیظ ہوشیار پوری کا شعر ہے

یہ تمیزِ عشق و ہوس نہیں، یہ حقیقتوں سےگریز ہے
جنھیں عشق سےسروکار ہےوہ ضرور اہلِ ہوس بھی ہیں

ہمارے بچپن کےدوست سرور بارہ بنکوی مرحوم نے بڑ ے سلیقے سے کہا کہ

میں کسی صورت ترا کربِ تغافل سہہ گیا
اب مجھےاس کا صلہ دےحرف شرمندہ نہ ہوں

جب ایک عورت اپنےاحساس کی عکاسی کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے اس کو اپنی شرمیلی طبیعت کا سامنا ہوتا ہے، حجاب کی دیواریں حائل ملتی ہیں، اپنےمخصوص لفظیات کی تلاش ہوتی ہےاور ان سب مراحل سےگزر جانا بڑے دل گردے کا کام ہے، شعر میں ظاہر کیا ہوا کرب قاری کےلیئے صرف اس وقت معنی رکھتا ہے جب وہ فن کےکسی بہترین سانچے میں ڈھل جائے، دیکھیئےمحترمہ فرزانہ نیناں نےاپنی سوچ کےاظہار کےلیئے ایک اچھوتا لہجہ اپنایا ہے

تم عجیب قاتل ہو روح قتل کرتے ہو
داغتے ہو پھر ماتھا چاند کی رکابی سا

محترمہ فرزانہ نیناں بہت چھوٹی عمر میں برطانیہ چلی گئی تھیں اور اپنے ساتھ روایتی ملبوسات و زیورات لے جانے کے بجائے اپنے رحجان کےمطابق مٹی کی خوشبو لیتی گئیں، اپنے بچپن کی یادوں، محرومیوں اور وعدہ خلافیوں کی کسک جو زندگی کا حصہ ہیں اس کو اپنے وجود میں رکھ لیا، اور تمام چیزوں کو اپنےذہن کے طاق پہ ہمیشہ سجائے رکھا، اپنی شاعری کے بارے میں خود فرماتی ہیں کہ

’جب والدین جنت الفردوس کو سدھارے، پردیس نےبہن بھائی چھین لئے، درد بھرےگیت روح چھیلنےلگےتو ڈائری کےصفحات کالےہونے لگے‘

آج انہیں صفحات پر بکھرےہوئےحروف ان کی شاعری کےجگنو بن گئے ہیں، آپ کو جب گاؤں میں گذاری ہوئی تعطیلات کی یاد آئی تو اس کا بیاں اس طرح کیا

کوئی بھی نہ دیوار پر سےپکارے
مگر ذہن یادوں کے اُپلے اُتارے

جب چنچل بچپن کی شرارتیں یاد آئیں تو یوں گویا ہوئیں

راہ میں اس کی بچھا دیتی ہوں ٹوٹی چوڑی
چبھ کےکانٹےکی طرح روز ستاتی ہوں اسے

جب وعدہ خلافیوں کا شکوہ کیا تو یہ منفرد انداز اپنایا

لئےمیں بھی کچا گھڑا منتظر تھی
تم اس پار دریا پہ آئےتو ہوتے

آپ نےمحسوس کیا ہوگا کہ ان تمام شعروں میں مہندی کا رنگ اور خوشبو بسی ہوئی ہے، یہی ان کی اپنی آواز اور آہنگ ہے، ان کی اسی منتشر خیالی اور منفرد لفظیات کےسبب ان کےکلام کو دوسرےشعراءو شاعرات سے بڑی آسانی سےالگ کیا جا سکتا ہے،محترمہ فرزانہ خان نیناں ریڈیو پر رنگا رنگ پروگرام نشر کرتی ہیں، فعال پریزینٹر ہیں، ایک ادبی تنظیم کی روحِ رواں ہیں ، ان تمام گوناگوں مشاغل کےساتھ یہ بیوٹی کنسلٹنٹ بھی ہیں اور شاید اسی لئے آپ دیکھیں کہ انہوں نےاپنی کتاب کو ایک دلہن کی طرح ایک نئےانداز سےسنوارا ہے، اس دلہن کا سراپا دلکش، اس کا لباس دھنک رنگ، اس کےگہنوں میں دل لبھانےوالا انوکھا پن ہے، میری دعا ہے کہ ان کے منتخب کیئے ہوئےحروف کے یہ گہنےاس دلہن کےماتھے پہ ہمیشہ جھومر کی طرح دمکتے رہیں۔آمین

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...