Monday, November 5, 2012

Amjad Mirza Amjad – ادبی تاج محل

Amjad Mirza Amjad – ادبی تاج محل

فرزانہ نیناںؔ شخصیت کے آئینے میں

تحریر ، امجد مرزاامجدؔ

فرزانہ نیناں سے میرا غائبانہ اور ادبی تعارف ’نوائے وقت‘ کے ادبی صفحات سے ہوا جس میں ان کے چند مضامین اور ان کی اردو شاعری پڑھ کربے حد متاثر ہوا۔ گو اس سے قبل نوٹنگھم کے ایک دوست کی فرمائش پر انہوں نے یومِ پاکستان کے موقع پر مجھے اپنے ریڈیو پروگرام میں شمولیت کی دعوت دی مگر تب تک ایک اجنبیت تھی ۔مگر منیر نیازی کی وفات پر فرزانہ نیناں نے ایک بڑا خوبصورت جذباتی تعزیاتی مضمون نوائے وقت میں لکھا جس میں انہوں نے کمال کی خوبصورتی کے ساتھ مرحوم شاعر کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور اپنے دکھ کا اظہار کیا تو میں نہ رہ سکا اور میں نے نوائے وقت میں اپنے مسلسل کالم ’’فکرِ جہاں‘‘ میں فرزانہ کے متعلق لکھا جو واقعی میرے سچے دلی جذبات تھے۔

’’ گو میں مرحوم شاعر منیر نیازی کے قدموں کی خاک برابر بھی نہیں ہوں ۔ مگر جن الفاظ میں فرزانہ نیناں نے مرحوم شاعر کو یاد کیا اپنے دکھ کا اظہار کیا اور خراجِ عقیدت پیش کیا تو پڑھ کر بے اختیار دل مرنے کو چاہا۔۔ کیوں کہ ہمارے ہاں یہ روایت ہے کہ جیتے جی کوئی نہیں پوچھتا ۔۔اس کے لئے مرنا پڑتا ہے ۔۔۔ مجھے سخت دکھ ہے کہ منیر نیازی مر گیا ۔۔

موت ایک حقیقت ہے اور ہر کسی نے اپنے وقت پر اس دنیا کو خیرباد کہنا ہے مگر نیناں کے اس مضمون اور میرے کالم نے ہمارے درمیان کی ساری دیواریں گرا دیں اور ہمارے درمیان ایک بڑا ہی مقدس رشتہ استوار ہوگیا ۔ میں امجد بھائی ہوگیا اور وہ نیناں بہن بن گئی ۔۔ فون پر اکثر طویل بات چیت ہوتی رہتی اور دکھ سکھ بانٹے جاتے مگر ہماری کبھی ملاقات نہ ہوسکی ۔ پھر انہوں نے اپنے مشہور ٹی وی پروگرام’’ فرزانہ ایک فنکار کے ساتھ‘‘ کی نئی سہ ماہی کی شروعات میں مجھے دعوت دی ۔ اس سے قبل بھی ان کی دعوت دی مگر دور کے سفر سے میں ٹال مٹول کرتا رہا مگر اس بار انہوں نے کہہ دیا کہ اس سہ ماہی کی ابتدا تم سے ہی ہوگی ۔۔ مگر جس محبت اور دعوی وحق سے انہوں نے کہا میں انکار نہ کرسکا لہذا مجھے اعزاز حاصل ہے کہ میں ان کے پروگرام میں گیا اور برطانیہ کی ایک عظیم شاعرہ سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا ۔

ان کے خاوند اختر بھائی سے بھی مل کر خوشی ہوئی جو نہایت ملنسار ،مخلص اور پیارے شخص ہیں ۔
فرزانہ نیناں ان چند خوش قسمت شاعرات میں سے ہیں جن کے خاوند شاعری اورادبی زندگی میں ان کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں۔فرزانہ کواللہ نے بہت سی رحمتوں سے نوازا ہے ۔ وہ
اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، انہوں نے نوٹنگھم کے ہر شعبہ کے کالج سے بے شمار ڈگریاں ڈپلومے حاصل کئے ۔ان کے اس علمی جنون اور ڈپلوموں کی طویل فہرست کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ یہ دھان پان سی خوبصورت نازک سی خاتون دو بچوں اور نہایت پیار کرنے والے خاوند،ریڈیو پروگرام، ٹی وی پروگرام، گھریلو مصروفیات، سروس کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کی خدمات کے علاوہ مشاعروں اور دوسرے فنکشن کے اہتمام میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ اپنی علمی پیاس بجھانے کا وقت کیسے نکالتی ہیں۔ برطانیہ کے کثیرا لاشاعت اخبار نوائے وقت کے صفحہ ’فیملی میگزین ‘ کی انچارج بھی ہیں ۔ مگر ’ہمت کرے انساں تو کیا ہونہیں سکتا‘ کے مصداق انہوں نے یہ سب کرکے دکھایا ہے ۔مگر وہ خود کہتی ہیں کہ ۔ع

پارس نے دفعتاً مجھے سونا بنا دیا

قسمت سے آج ہوگئی سرمایہ دار میں

سرمایہ دار بننے کے لئے انتھک محنت بھی ضروری ہوتی ہے ۔ جو نیناں نے کی اور بدستور جاری ہے ۔ وہ ایک اچھی ماں ہے ان کے بچوں نے اعلی تعلیم حاصل کی ہے اور ایک خوبصورت مستقبل ان کا مقدر ہے ۔ اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد رات گئے تک مطالعہ اور علم کی جستجو نے نیناں کو آج وہ مقام عطا کیا ہے جو برطانیہ میں شاید ہی کسی شاعرہ کو حاصل ہوا ہو۔۔ اور یہ ثمر بغیر لہو جلائے حاصل نہیں ہوتا ۔۔
جیسے کہتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اسی طرح میں یہ کہوں گا کہ عورت کے کامیابی کے پیچھے بھی مرد کا ہاتھ ہوتا ہے اور فرزانہ نیناں
کے ساتھ ان کے شریک حیات اختر خان جیسا مخلص محبت کرنے والا انسان ہے اور جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے کہ نیناں ان چند خواتین میں سے خوش قسمت ترین خاتون ہے جس کو اپنے سائیں کی ڈھیر ساری محبتیں ملی ہیں اور وہ اس کی چھتر چھاؤں میں اپنے ادب کے گلستان کو سجا رہی ہے ۔ورنہ ادبی حلقوں میں بے شمار ایسی اچھی اچھی شاعرات ہیں جو اس ادبی نخلستان میں تنہا آبلہ پا ہیں اور ان کے شریک حیات اپنی تنگ نظری اور بخل وحسد سے مجبور ہو کر ساتھ چھوڑ گئے ۔۔
اختر بھائی جہاں ایک خوبصورت جوان ہیں وہاں وہ نہایت خوش گفتار، خوش اخلاق، خوش لباس ،بڑے میٹھے مدھم لہجے والے بڑے ہی مہمان نواز ادب نواز اور دوست نواز انسان
ہیں جن سے ایک بار مل کر دوبارہ ملنے کو جی کرتا ہے ۔ عملی زندگی میں بھی بڑے کامیاب انسان ہیں اور شاید برطانیہ میں وہ واحد پاکستانی شخص ہیں جنہیں رائیل فوٹو گرافک سوسائٹی کی ممبر شپ حاصل ہے ۔ ان کے کیمرے سے اتاری ہوئی تصویروں کی کئی کامیاب نمائشیں ہوچکی ہیں۔ قدرت کی صناعی، شاہکار اور فطرت کی خوبصورتی کو اپنے کیمرے میں وہ اس طرح محفوظ کرلیتے ہیں جیسے صدف ایک بوند کو اپنے سیپ میں محفوظ کرکے نایاب موتی بنا دیتی ہے ۔اسی طرح اختر بھائی نے اپنی بے پناہ محبتوں کے حصار میں فرزانہ نیناں کو ایک سُچے موتی کا روپ دیا ہے

وہ اپنے خوبصورت شعری مجموعہ’’درد کی نیلی رگیں‘‘ کی ایک نظم میں کہتی ہیں جو ’’اختر‘‘ کے عنوان سے ہے۔۔۔۔ کہ۔۔۔

وہ جس کا نام ہے اختر مجھے وہ جان سے پیارا ہے
کٹھن راہوں میں میرے واسطے وہ اک ستارہ ہے
وہ میری مانگ کی افشاں ، مری قسمت کا تارہ ہے
مرے نیناں سجا کر اس نے مجھ کو بھی نکھارا ہے

فرزانہ نیناں جہاں ایک بہترین شاعرہ ہیں وہاں وہ بہت اعلی نثر نگار بھی ہیں ۔ میں نے ان کا کوئی افسانہ تو نہیں پڑھا ۔مگر ان کے اکثر ادبی مضامین اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں جو نہایت اعلی معیار کے ادبی رنگ میں خوبصورت الفاظ سے مزین ہوتے ہیں اور بڑی تحقیق اور مطالعہ کے بعد لکھے ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے شعری مجموعہ’’درد کی نیلی رگیں‘‘ کی ابتدا میں اپنے بارے میں جو مضمون لکھا ہے وہ پڑھ کر مجھے بے اختیار رشک آیا ۔۔ اے کاش میرے پاس بھی ایسے خوبصورت الفاظ کے موتی ہوتے ۔ وہ نثر کم اور نظم زیادہ ہے جس کے بارے میں ایک پورا مضمون لکھا جا سکتا ہے ۔اورانشاء اللہ اگلے مضمون میں ان کی نثر کے بارے میں تفصیل سے ذکر ہوگا ۔۔

امجد مرزا امجد۔۔۔ لندن

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...