Showing posts with label Articles. Show all posts
Showing posts with label Articles. Show all posts

Tuesday, November 6, 2012

Prof.Seher Ansari – دریاۓ نیل کا سفر

Prof.Seher Ansari – دریاۓ نیل کا سفر


Prof: Seher Ansari

” درد کی نیلی رگیں“ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ شاعرہ کے اپنے شعری رویئےاور زندگی کی فکر

میں ان کا جو سانچہ ہے وہ ذرا مختلف سا نظر آتا ہے، اس میں سب سے پہلی بات تو یہ کہ اس کتاب

کا سائز اوراور اس کی پروڈکشن بیحد منفرد ہے۔

فرزانہ نے ایک کتاب کی جو عام طریقوں سے تیاری ہوتی ہےاس کی ترکیب کو مختلف انداز سے پیش کیا ہے، پھر اس کے ساتھ یہ ہے کہ شاعری میں ایک ایسی شدت احساسات کی سمودی ہے کہ کلام پڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ معلوم ہوتا کہ واقعی یہ شاعری کو زندگی میں برتتی ہیں اور اپنے گردو پیش کی جو زندگی ہے اس میں فطرت اور مختلف انسانوں کو اپنی شاعری میں سموتی ہیں۔اسی کو آپ دیکھ لیجئے تو اندازہ ہوتا ہےکہ وہ انفرادیت اور پامال رستوں سے ہٹنے کا رویہ اپنی زندگی میں رکھتی ہیں،۔

فرزانہ نے جس طرح نثر میں بھی جو بات لکھی ہے کہ مولسری کی شاخوں میں چھپا دیتی ہوں جن پر میں تپتی دوپہروں میں مولسریاں کھا کر اس کی گٹھلیاں راہگیروں کو مار کر اپنے آپ کو ماورائی شخصیت سمجھتی تھی، ایک اور بات یہ کہ موہنجو ڈارو کےقبرستان میں شاعری کھڑا کر دیتی ہیں، جہاں ماں باپ کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے ہوئے میں کانچ گھڑی میں ریت کی مانند بکھرنے لگتی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔

یہ ایک ایکویژن ہے کہ موہنجو ڈارو کی پوری تہذیب اس وقت اور اس کے ساتھ پھر اپنےماں باپ کی قبر، فاتحہ اور اس کےساتھ پھر وقت ریت کی طرح گزارنے کی کیفیت، یہ وہ چیزیں ہیں کہ جن سےمعلوم ہوتا ہےکہ محسوسات کو ایک تجسیمی شکل میں دیکھنا اور انھیں پیش کرنا یہ شاعری کی ایک بہت بڑی خصوصیت ہے، فیض صاحب کی ایک نظم میں ہےکہ”درد کی کاسنی پازیب بجاتی نکلی“ تو اب دیکھئے درد کی کاسنی پازیب اور ”درد کی نیلی رگیں“ تو ایک غیر مرئی چیز ہی”درد“ اس کو آنکھوں سےدکھا دینا، محسوس کرادینا جو کہ نظر نہیں آتا ہےوہ نیلی رگوں کےذریعےہی ممکن تھا، تو یہ بات پوری شاعری میں نظر آتی ہے کہ محسوسات کو تمثیلوں کے ذریعے تصویروں کی طرح اجاگر کیا گیا ہے کہ شاعرہ کے تخیل کو اور ان کےمحسوسات کی دنیا کو، ہم ان کی شاعری میں پوری طرح پالیتےہیں،

میں نے جتنے اشعار منتخب کئے تھے وہ سنائے جا چکے ہیں، پھر بھی اس طرح ہے کہ

اک وراثت کی طرح گاؤں کی گڑ سی باتیں
گٹھڑیاں باندھ کےاس دل کےنگر آتی ہیں



تو اب اس طرح کی جو امیجری ہے آپ دیکھیں گے کہ پراندہ ہے، رہٹ، مور پنکھ ،اوک میں پانی بھرنا وغیرہ ۔ ۔ ۔

جن کو شاعری کی دنیا میں ہم غیر شاعرانہ الفاظ کہتے ہیں، شاعری وہیں اپنا جوہر دکھاتی ہےکہ جہاں لفظ جنھیں آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بے جان ہیں یا اس کا استعمال غیر شاعرانہ ہوجائےگا وہاں شاعر اپنی تخلیقی قوت سےاس کو ایک نئی زندگی دے تو وہ ہی دراصل شاعری کا اصلی جوہر ہوتا ہے، ایسی کئی مثالیں نیناں کی شاعری میں نظر آتی ہیں ۔ ۔ ۔

تمہیں گلاب کے کھلنے کی کیا صدا آتی
تمہارے گرد تو ہر وقت صرف پیسا ہے

تو زندگی کو انھوں نےجس طرح دیکھا ہے وہ بھی ایسےماحول میں رہتے ہوئے جہاں آپ دیکھیں گےکہ انسان کی کوئی قدر نہیں ہے، جذبِ زَر کا ایک رحجان پایا جاتا ہے اور اس کے بارے میں نظیر اکبر آبادی نے کہا ہے کہ

”کوڑی کےساتھ جہان میں نصب نہ دین ہے کوڑی کےپھر تین تین ہیں“

تو وہاں ان قدروں کو محسوس کرنا کہ پیسہ اور دولت کوئی قدر نہیں ہے اصل چیز تو یہ ہے کہ آپ کے کانوں تک گلاب کے چٹکنے کی صدا پہنچ سکی، شدید جذبات ہیں اور لطیف جذبات ہیں، نیناں نے مختلف حوالوں سے محسوس کیا ہے اب جیسے ہمارے معاشرے کی زندگی میں کارو کاری کا بہت ذکر ہوتا ہے ۔۔۔۔

کے مختلف مسائل بھی آتے رہتے ہیں اب ان کو شعروں میں اس طرح ڈھالنا کہ Honour

قبیلے کےخنجر بھی لٹکے ہوئے ہیں

کھڑی ہیں جہاں لڑکیاں دل کو ہارے

تو اب یہ جو ہے کہ ۔ ۔ ۔

لگا تار روتی ہے لہروں کی پائل

سدا جھیل میں ہیں شکاری شکارے


ان کی غزلوں اور نظموں میں جو نئے الفاظ کی تلاش ہے اس کو آپ رعایتِ لفظی نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ اپنی معنویت کے ساتھ ہیں جیسے” شکاری اور شکارے“ میں جو معنوی کیفیت ہے وہ پوری طرح واضح ہوجاتی ہے ۔ ۔ ۔


پیاسوں کے واسطے یہی نیناں بھرے بھرے
جلتے جھلستے تھر میں کبھی رکھ دیا کرو

ہے بلند آدمی ذہانت سے

ذہنیت پست ہے تو پستہ ہے


اب یہ جو بات لکھی ہے کہ میں سماجی مسائل کی بابت نہیں لکھتی، یہ سماجی زندگی تو خود بخود شاعر کے اندر آجاتی ہے اگر اس میں کوئی شعور
موجود ہے کیونکہ کسی انتہائی باطنی اور داخلی تجربے کو یہ محسوس کریں کہ اس کا کوئی خارجی حوالہ نہیں ہے تو تجزیئے سے معلوم ہوگا کہ وہ بھی کسی خارجی حوالے کے ذریعے آپ تک پہنچا ہے ۔ ۔ ۔


دھوپ گر نہ صحرا کےراز کہہ گئی ہوتی
میں تو بہتےدریا کےساتھ بہہ گئی ہوتی



ان کےاشعار میں بے ساختگی کے ساتھ مصرعوں کی جو پوری ساخت نظر آتی ہے اس میں پورا ایک سانس کا اتارچڑھاؤ جو کہ شاعری کے لئے بہت ضروری ہے وہ مصرعوں میں پوری طرح محسوس ہوتا ہے، اس پر کم گفتگو ہوئی ہے، نظموں پر بھی کم گفتگو ہوئی ہے، نظموں میں ایک اہم بات یہ ہےکہ خیال کی ہر لہر شروع سےآخر تک ایک رہے اور اس میں نامیاتی اکائی یا آنریری یونٹی ایک رہے اور وہ نامیاتی اکائی ان کی نظموں میں نظر آتی ہے ۔ ۔ ۔


کڑی دھوپ میں چلتےچلتے سایہ اگر مل جائے۔۔۔ تو

اک قطرے کو ترستے ترستے، پیاس اگر بجھ جائے۔ ۔ ۔ تو
برسوں سے خواہش کے جزیرے ویراں ویراں اجڑے ہوں
اور سپنوں کےڈھیر سجا کر کوئی اگر رکھ جائے۔۔۔ تو

بادل، شکل بنائیں جب نیل آکاش پہ رنگوں کی
ان رنگوں میں اس کا چہرہ آکےاگر رک جائے۔۔۔ تو

خاموشی ہی خاموشی ہو دل کی گہری پاتالوں میں
کچھ نہیں کہتے کہتے گر کوئی سب کہہ جائے ۔ ۔ ۔ تو
زندہ رہنا سیکھ لیا ہو سارے دکھوں سے ہار کے جب
بیتے سپنے پا کے خوشی سے کوئی اگر مر جائے۔۔۔ تو



یہ پوری اکائی ایک خیال کی موجود ہے اگر اس میں سے یہ نکال دی جائے تو یہ محسوس ہوجاتا ہے کہ اس میں ایک کمی واقع ہوگئی ہے، ان کے یہاں نظموں میں انفرادیت ہے، نیناں پہلے بھی یہاں آچکی ہیں جب بھی سنا اور اب بھی، یہ ثابت ہوا ہے کہ ان کے یہاں دوسروں سے مختلف ایک انفرادیت موجود ہے اور یہ دوسروں سے الگ لہجہ، اپنی شاعری کا راستہ، رخ اور انداز بنا رہی ہیں، لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے اور اس کا احساس ان کی اس نظم میں نمایاں ہے کہ:

اپنا راستہ ڈھونڈنا اکثر اتنا سہل نہیں ہوتا ہے
لوگوں کےاس جنگل میں، چلنا سہل نہیں ہوتا ہے
یہ تو کوئی جگنو ہےجو لے کر روشن سی قندیل
کبھی کبھی یوں راہ بنائی، جیسے ہو دریائےنیل

تو یہ حقیقت ہے کہ انفرادیت کا راستہ شاعری میں بنانا، جہاں اتنی آوازیں ہیں اتنے لہجے ہیں، تو یہ واقعی اک دریائے نیل کا سا سفر ہے جو اپنا راستہ خود بناتا چلا جاتا ہے۔۔۔

مجھے اس کی پوری امید ہے کہ یہ دریائے سخن اسی طرح بہتا رہے گا اور یہ دریائے نیل جو کہیں جاکر سفید بھی ہو جاتا ہےوہ اپنے رنگ اجاگر کرتا رہے گا ، میں ان کو بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نےایک بہت اچھا مجموعہ اردو شاعری کو عنایت کیا ہے۔ ۔ ۔ شکریہ

پروفیسر سحر انصاری ۔ ۔ ۔ کراچی


Nazir Faruqi – طلسمی مالا

Nazir Faruqi – طلسمی مالا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

پروردگار ہی نہیں ساری فضا ہےرنگیں
آپ مہماں ہیں تو ہر چیز پہ رعنائی ہے



Nazir Faruqi


درحقیقت یہ رعنائی خیال کی ہی تقریب ہے،

 

 

 

محترمہ فرزانہ نیناں منفرد لفظیات کو اپنی شاعری میں گوندھ کر ایک نیم طلسمی مالا تخلیق کرنےوالی شاعرہ ہیں،یہ بڑی خوشی کی بات ہےکہ آجکل ہماری بہت سی خواتین شاعری کی جانب مائل ہو رہی ہیں، ابھی تک ہمارے’مرد سالاری‘ رویوں نےہماری عورتوں کو بچوں اور باورچی خانےکےحصار میںقید رکھ کر جو گھٹن پیدا کر رکھی ہےاس کا اظہار برملا ہورہا ہے،آج بھی اپنےکرب کا اظہار کرنےوالی خواتین کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے،مگر کم سےکم ان کےدرد کو سن کر ہمارےمعاشرےکو اپنےگریبان میں جھانکنےکی دعوت ضرور ملتی ہے، لڑکیوں کو شعر کہنےمیں ایک اور مشکل کا سامنا بھی ہےجس کی طرف ہماری بےبدل شاعرہ پروین شاکر مرحومہ اشارہ کر گئی ہیں کہ:

اپنی رسوائی ترےنام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

جدید غزل گو زندگی کی تکلیف دہ حقیقتوں کے بیاں میں بھی شاعری کی لطافتوں کا دامن ہاتھ سےنہیں جانے دیتا ،حفیظ ہوشیار پوری کا شعر ہے

یہ تمیزِ عشق و ہوس نہیں، یہ حقیقتوں سےگریز ہے
جنھیں عشق سےسروکار ہےوہ ضرور اہلِ ہوس بھی ہیں

ہمارے بچپن کےدوست سرور بارہ بنکوی مرحوم نے بڑ ے سلیقے سے کہا کہ

میں کسی صورت ترا کربِ تغافل سہہ گیا
اب مجھےاس کا صلہ دےحرف شرمندہ نہ ہوں

جب ایک عورت اپنےاحساس کی عکاسی کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے اس کو اپنی شرمیلی طبیعت کا سامنا ہوتا ہے، حجاب کی دیواریں حائل ملتی ہیں، اپنےمخصوص لفظیات کی تلاش ہوتی ہےاور ان سب مراحل سےگزر جانا بڑے دل گردے کا کام ہے، شعر میں ظاہر کیا ہوا کرب قاری کےلیئے صرف اس وقت معنی رکھتا ہے جب وہ فن کےکسی بہترین سانچے میں ڈھل جائے، دیکھیئےمحترمہ فرزانہ نیناں نےاپنی سوچ کےاظہار کےلیئے ایک اچھوتا لہجہ اپنایا ہے

تم عجیب قاتل ہو روح قتل کرتے ہو
داغتے ہو پھر ماتھا چاند کی رکابی سا

محترمہ فرزانہ نیناں بہت چھوٹی عمر میں برطانیہ چلی گئی تھیں اور اپنے ساتھ روایتی ملبوسات و زیورات لے جانے کے بجائے اپنے رحجان کےمطابق مٹی کی خوشبو لیتی گئیں، اپنے بچپن کی یادوں، محرومیوں اور وعدہ خلافیوں کی کسک جو زندگی کا حصہ ہیں اس کو اپنے وجود میں رکھ لیا، اور تمام چیزوں کو اپنےذہن کے طاق پہ ہمیشہ سجائے رکھا، اپنی شاعری کے بارے میں خود فرماتی ہیں کہ

’جب والدین جنت الفردوس کو سدھارے، پردیس نےبہن بھائی چھین لئے، درد بھرےگیت روح چھیلنےلگےتو ڈائری کےصفحات کالےہونے لگے‘

آج انہیں صفحات پر بکھرےہوئےحروف ان کی شاعری کےجگنو بن گئے ہیں، آپ کو جب گاؤں میں گذاری ہوئی تعطیلات کی یاد آئی تو اس کا بیاں اس طرح کیا

کوئی بھی نہ دیوار پر سےپکارے
مگر ذہن یادوں کے اُپلے اُتارے

جب چنچل بچپن کی شرارتیں یاد آئیں تو یوں گویا ہوئیں

راہ میں اس کی بچھا دیتی ہوں ٹوٹی چوڑی
چبھ کےکانٹےکی طرح روز ستاتی ہوں اسے

جب وعدہ خلافیوں کا شکوہ کیا تو یہ منفرد انداز اپنایا

لئےمیں بھی کچا گھڑا منتظر تھی
تم اس پار دریا پہ آئےتو ہوتے

آپ نےمحسوس کیا ہوگا کہ ان تمام شعروں میں مہندی کا رنگ اور خوشبو بسی ہوئی ہے، یہی ان کی اپنی آواز اور آہنگ ہے، ان کی اسی منتشر خیالی اور منفرد لفظیات کےسبب ان کےکلام کو دوسرےشعراءو شاعرات سے بڑی آسانی سےالگ کیا جا سکتا ہے،محترمہ فرزانہ خان نیناں ریڈیو پر رنگا رنگ پروگرام نشر کرتی ہیں، فعال پریزینٹر ہیں، ایک ادبی تنظیم کی روحِ رواں ہیں ، ان تمام گوناگوں مشاغل کےساتھ یہ بیوٹی کنسلٹنٹ بھی ہیں اور شاید اسی لئے آپ دیکھیں کہ انہوں نےاپنی کتاب کو ایک دلہن کی طرح ایک نئےانداز سےسنوارا ہے، اس دلہن کا سراپا دلکش، اس کا لباس دھنک رنگ، اس کےگہنوں میں دل لبھانےوالا انوکھا پن ہے، میری دعا ہے کہ ان کے منتخب کیئے ہوئےحروف کے یہ گہنےاس دلہن کےماتھے پہ ہمیشہ جھومر کی طرح دمکتے رہیں۔آمین

Naqash Kazmi – نقاش کاظمی

Naqash Kazmi – نقاش کاظمی

i-dream-of.gifSmall DiamondSmall Diamond

معزز خواتین و حضرات، آپ نےہمیشہ ہی دیکھا ہے کہ جب باہر سے کوئی صاحبِ قلم تشریف لاتا ہےاور کتاب بھی اس کی بغل میں ہو تو ہم یہی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کتاب منظرِ عام تک پہنچے، آرٹس کونسل کے توسط سے اس کی رونمائی ہوسکے، ایسی ہی یہ تقریب ہےجس میں، میں آپ تمام حضرات کو خوش آمدید کہتا ہوں، شکر گزار ہوں آپ کا کہ آپ یہاں تشریف لائے.

محترمہ فرزانہ خان نیناں پہلے بھی کئی بار تشریف لائیں اور اس مرتبہ بھی قابلِ تحسین ہیں کہ ان کی تشریف آوری سےبڑی بڑی بزمیں سج رہی ہیں، رونقیں دوبالا ہورہی ہیں، اس کی وجہ یہ نہیں ہےکہ وہ فیشن کی شاعرہ ہیں بلکہ ان کا طرزِ بیاں،طرزِ سخن، ان کا نیا پن، اچھوتا پن بےشمار اشعار ایسے ہیں کہ جن کو پڑھ کے آپ کو احساس ہوگا کہ یہ نئی نسل کس انداز میں سوچتی ہے اور کیا طرزِ سخن اختیار کئے ہوئے ہے

وجہ اس کی یہ ہوسکتی ہے کہ انھوں نے ابتدائی تعلیم اور ثانوی تعلیم پاکستان میں حاصل کی اس کے بعد جب یہ بیرونِ ملک تشریف لے گئیں تو بہت ہی جدید علوم سے وابستگی انھوں نےحاصل کی، جن میں میڈیا کے بہت وسیع تر حوالے ملتے ہیں ٹیلی کمیونیکیشن میں اور اس میں بڑا نیا پن ملتا ہے، اس دنیا میں جب ادب داخل ہوتا ہے تو وہ نئی نئی جہتیں معلوم کرتا ہے اور جہتیں دکھاتا بھی ہے، جب ادب اور سائنس یکجا ہوں تو بڑے بڑے مضامین سامنے آتے ہیں، بہت سے لوگوں نے دیکھا ہے کہ بڑے بڑے مضامین لکھے گئے لیکن اس جدید دور میں جب مائیکروویو کمیونیکیشن آجائے، جب سیٹیلائٹ کی لہریں نیا نیا سماں پیدا کرتی ہیں، ایک ایک بٹن دباتے ہی ایک سے دوسرے ملک تک پہنچ جاتے ہیں، ایک سے دوسرا منظر بدلتا ہے، یہ منظر نامے اتنی تیزی سے بدلتے ہیں کہ اس میں فرزانہ جیسی شاعرہ ہی بہت کامیابی سے سفر کر تی ہیں اور کر رہی ہیں

میری دعا ہے کہ ان کو کامیابی حاصل ہوتی رہے، یہ خود جب اشعار پیش کریں گی تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان کا کلام کتنا جدید اور مختلف ہے، میں شکر گذار ہوں ان کا کہ انھوں نے اپنی کتاب کی رسمِ اجراءآرٹس کونسل میں منعقد کروائی ہے، ان تمام بڑے لوگوں کی طرح جنھوں نے ملک سے باہر جاکر غیر ممالک میں علم و ادب کی شمع روشن کی یہ ان کا بڑا پن ہے ایک بڑا کارنامہ ہے، اردو زبان وادب کی خدمت کرنے والوں میں ایک حصہ فرزانہ خان نیناں بھی ہیں کہ جو یہ مشعل روشن کئے ہوئے ہیں، میں انھیں اپنی نیک خواہشات اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

کراچی آرٹس کاؤنسل

نقاش کاظمی

Mohsin Bhopali – مانگا ہوا زیور

Mohsin Bhopali – مانگا ہوا زیور

i-dream-of.gif

’’مانگا ہوا زیور‘‘

’’زیست ہمسائے سے مانگا ہوا زیور تو نہیں‘‘
ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کھوجانے کا

اس قدر احتیاط سے زندگی کو سینے میں چھپانے والے شاعر کی تجوری کا تالا موت نے آخرکار توڑ ہی دیا اور زندگی کے ساتھ ساتھ انہیں بھی ہم سے چرا کر لے گئی۔
ہائیکو جاپانی شاعری کی صنف ہے جس کی کشش نے دنیا کے ادب کو اپنی جانب کھینچا اور اسی کشش کے تحت محسن بھوپالی نے ۱۹۶۳میں اپنے دوست اور سندھی ہائیکو نگاری کے بانی ڈاکٹر تنویر عباسی کی ہائیکو کے اردو تراجم سے اس صنف کے فروغ کی بنیاد رکھی، جہاں مشرقی چنبیلی کی خوشبوسے مسحور کیا وہیں جاپانی چیری کے پھولوں کی جھنکار بھی سنوائی ، اس حسن و خوشبو کے امتزاج کو ’’چیری سے چنبیلی تک‘‘ (ہائیکو) اپنے آخری مجموعے میں پیش کرنے والے محسن بھوپالی کا اصل نام عبدالرحمن ولد عبدالرزاق تھا، انھوں اپنے دوست ’’محسن‘‘ کی محبت میں عبدالرحمن کو محسن کا روپ دیا حالانکہ ان کا قلمی نام اپنے بڑے بیٹے کے فرزند کے نام پر ’’ابو راشد‘‘ بھی تھا۔
۱۹ نثری و شعری تصانیف وتالیفات (تین غیر مطبوعہ) کے تخلیق کار ۲۹ستمبر۲ ۱۹۳ کو قصبہ سہاگ پور ،ضلع ہوشنگ آباد (بھوپال) میں پیدا ہوئے،انھوں نے حبیبیہ مڈل اسکول اور الیگزینڈرا ہائی اسکول (بھوپال) سے تعلیم حاصل کی، پاکستان ہجرت کے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول لاڑکانہ سے ۱۹۵۱ میں میٹرک کیا، لاڑکانہ سے ہی ۱۹۵۴ میں انٹر پاس کیا،سندھی زبان کا محکمہ جاتی امتحان بی اے اور ایم اے اردو کیا،گورنمنٹ این ڈی کالج سے انجینئرنگ کا ڈپلومہ لیا اور ایم اے صحافت کے بھی طالبعلم رہے،استاد جگر مرادآبادی،بہزاد لکھنوی، شکیل بدایونی،اور قمر جلالوی جیسے ناموں کی فہرست میں بلاشبہ ان کے نام کی شمولیت تحریکِ پاکستان کے عظیم رہنما سردار عبدالرب نشترمرحوم کے ایک جلسے میں شعر پڑھنے کے باعث ہوئی کہ:
نیرنگیٔ سیاست ِ دوراں تو دیکھئے
منزل انھیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
محسن بھوپالی پیشے کے اعتبار سے بیشک انجینرنگ سے وابستہ رہے ہوں لیکن شعر و سخن کی دنیا میں انھوں نے اپنا مقام بنایا ،شعر وادب کی دنیا کے کئی بزرگو ں سے کہیں زیادہ فعال رہے۔
’’عظمت فن کے پرستار ہیں ہم
یہ خطا ہے تو خطاوار ہیں ہم‘‘
جہد کی دھوپ ہے ایمان اپنا
منکر سایۂ دیوار ہیں ہم
جانتے ہیں ترے غم کی قیمت
مانتے ہیں کہ گنہگار ہیں ہم
اس کو چاہا تھا کبھی خود کی طرح
آج خود اپنے طلبگار ہیں ہم
اہل دنیا سے شکایت نہ رہی
وہ بھی کہتے ہیں زیاں کار ہیں ہم
کوئی منزل ہے نہ جادہ محسن
صورتِ گردشِ پرکار ہیں ہم‘‘
محسن بھوپالی کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ انھوں نے خواجہ معین الدین کے ڈرامے ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ میں دو مختلف ادوار میں دو مختلف شہروں میں دو مرتبہ اداکاری کی جبکہ ۲۱ دسمبر ۱۹۵۹ میں حیدرآباد سندھ کے مشہور صداکار و اداکار سید ارشاد علی کے اسٹیج ڈرامے’’ اندھیرے اجالے‘‘ میں معروف فلمی اداکار محمد علی کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ بھی کیا تھا۔
’’جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
مئے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
ہم مصلحتِ وقت کے قائل نہیں یارو
الزام جو دینا ہو سرِ عام دیا جائے‘‘
کئی بڑے اور مشہور شعراء کے برعکس مرحوم راسخ العقیدہ مسلمان تھے ،نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی میں کبھی کنجوسی نہیں کرتے تھے،محسن بھوپالی کے کئی اشعار زبانِ زد عام ہوئے اور ایسی شاعری میں کہتے ہیں کہ بڑی شاعری کا امکان کم ہوتا ہے لیکن محسن بھوپالی نے اسے رَد کر دکھایا، حالانکہ ان کی شاعری نیرنگیٔ حالات کی زیرِ دام رہی جہاں طویل نظموں کے ذریعے کئی موضوعات سمیٹے جاتے ہیں، مگر وہ چھوٹی نظمیں لکھنا پسند کرتے تھے چنبیلی اور چیری کی ننھی کلیوں جیسی نظمیں جو اُن کے الفاظ کی مہک کو ہمیشہ بکھیرتی رہیں گی۔
’’فراقِ زیست کا دھڑکا لگا رہا محسن‘‘
تمام عمر جیئے مرگِ ناگہاں کے لئے
منفرد تخلیقی شاعر و نثر نگار اور اردو ہائیکو کے مربی کے داعی اجل کو لبیک کہنے پر ادب کی دنیا سوگوار ہے اور دعائے مغفرت کے ساتھ انھیں سلام پیش کرتی ہے۔
فرزانہ نیناں

Jazib Quereshi – روشنی کی تازہ لپک

Jazib Quereshi – روشنی کی تازہ لپک

روشنی کی تازہ لپک

عرب امارات ،برطانیہ، امریکا، کینیڈا کےدرمیان جو پاکستانی اپنےاپنےدائروں میں رہ کر تہذیبی و ثقافتی روایات کےساتھ ساتھ اردو زبان کی نئی تاریخ رقم کر رہےہیں ان میں نوٹنگھم میں آباد فرزانہ خان نیناں بھی شامل ہیں، نوٹنگھم میں فرزانہ نےایک ادبی اور ثقافتی تنظیم’بزمِ علم و فن‘ کےتحت اردو کا چراغ جلایا ہوا ہےجس کےزیرِ اہتمام مشاعری، جلسےاور مختلف ادبی و سماجی تقریبات ہوتی رہتی ہیں اور پاکستان سےجانےوالےاستفادہ کرتےرہتےہیں ۔
فرزانہ نےاپنی شاعری اور اپنی ذات کےحوالےسےجو کچھ خود لکھا ہےوہ اپنی نوعیت میں نیا بھی ہےاور ان کی شاعری کےپس منظر کو سمجھنےمیں مدد بھی دیتا ہے، وہ لکھتی ہیں کہ

’میری شاعری میرےبچپن اور جوانی کی کائنات کےرنگوں میں ڈھلی ہےاور نیلگوں وسیع و عریض آسمان میری شاعری کا کینوس ہے،میری شاعری ایک ایسی دنیا ہےجہاں میں کچھ پل کےلئےسب کی نظروں سےاوجھل ہوکر شہرِ سبا کی سیڑھیاں چڑھتی ہوں۔۔۔۔‘

فرزانہ نےشاعری کےلئےجس دنیا کا انتخاب کیا ہےوہ نئی توہےموسم اور ان موسموں کےرنگ تازہ اور خوبصورت ضرور ہیں لیکن اس دنیا کی اور شکل بھی ہی،فرزانہ محبتوں کی شاعرہ ہیں، ان میں جدید انفرادیت کی علامت بننےکا سارا ہنر موجود ہی، فرزانہ کا مشاہداتی تخیل ایسی روشنیوں کےساتھ سفر کرتا ہےجو زمانوں کی گردشوں میں ہےاور انہیں پہچاننےکا ہنر بھی جانتا ہے، فرزانہ پرانےاور نئےوقت کےچہروں میں تازہ مماثلتیں اور جدید شباہتیں تلاش کر لیتی ہیں، اس طرح ان کےلئےانسانی تاریخ اور اعلیٰ قدریں تسلسل کےساتھ ایک ہی زندگی کی داستان بن گئی ہیں، اپنےجسم و جاں کی محبتوں کو جس انداز میں فرزانہ نےلکھا ہےوہ انداز دیارِ غیر میں آباد پاکستانی شاعرات میں کم ہی نظر آئےگا، فرزانہ نےمحبوب سےاپنےوجود کو اور اپنےوجود سےمحبوب کی یادوں کوجس طرح وابستہ کر رکھا ہےاس کی چند مثالیں دیکھئے:

آسماں کےرنگوں میں رنگ ہےشہابی سا
دھیان میں ہےوہ چہرہ ایک ماہتابی سا

حرف پیار کےسارےآگئےتھےآنکھوں میں
جب لیا تھا ہاتھوں میں چہرہ وہ کتابی سا

پارس نےدفعتاََ مجھےسونا بنا دیا
قسمت سےآج ہوگئی سرمایہ دار میں

فرزانہ کےجسم و جاں پر محبتوں کےاثرات کو مختلف کیفیت میں دیکھا جا سکتا ہے
:
بدن نےاوڑھ لی ہےشال اس کی
ملائم، نرم، مخمل ہوگئی ہوں

کسی کےعکس میں کھوئی ہوں اتنی
خود آئینےسےاوجھل ہوگئی ہوں

اشکوں کےپانیوں میں اترا کسی کا چہرہ
بہتا ہوا اچانک دریا ٹہر گیا ہے

کیسا عجب سفر ہےدل کی مسافتوں کا
میں چل رہی ہوں لیکن رستہ ٹہر گیا ہے

بسی ہےیاد کوئی آکےمیرےکاجل میں
لپٹ گیا ہےادھورا خیال آنچل میں

اُسی چراغ کی لوَ سےیہ دل دھڑکتا ہے
جلائےرکھتی ہوں جس کو شبِ مسلسل میں

درختوں کےسبز پتوں کےدرمیان،محبتوں کی بچھڑی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور یادوں کا چراغ تنہائیوں میں جلتا رہتا ہے، پھر اس چراغ کےاجالےمیں محبوب سےملنےاور گفتگو کرنےکا موسم بھی اتر آتا ہے، ایسا مکالمہ شاعری میں ڈرامائی عناصر کی تخلیق کرتا ہےاور زندگی کےروز وشب میں پیش آنےوالےمعاملات و تجربات فنی و تخلیقی اظہار بن جاتےہیں، اس حوالےسےفرزانہ کی باتیں سنی جاسکتی ہیں:

پھرتی ہےمیرےگھر میں اماوس کی سرد رات
دالان میں کھڑی ہوں بہت بےقرار میں

جی چاہتا ہےرات کےبھرپور جسم سے
وحشت سمیٹ لوں تری دیوانہ وار میں

شام ڈھلنےسےمجھےدیکھ سحر ہونےتک
کیسےامید کو ارمان بناتی ہوں میں

روز دیکھا ہےشفق سےوہ پگھلتا سونا
روز سوچا ہےکہ تم میرےہو میرےہونا

یہ دیکھ کتنی منور ہےمیری تنہائی
چراغ بامِ مژہ پر ہزار رکھتی ہوں

مثالِ برق چمکتی ہوں بےقراری میں
میں روشنی کی لپک برقرار رکھتی ہوں

تتلیاں ہی تتلیاں ہیں تم جو میرےساتھ ہو
دلنشیں موسم ہےجیسےدھوپ میں برسات ہو

یادوں اور ملاقاتوں کےبعد محبتوں کےدرمیان آباد رہنےکا ایک تیسرا امکان بھی ہےجسےشاعری کی زبان میں خود کلامی بھی کہا جاتا ہے، خود کلامی ایک ایسی داخلی گفتگو ہےجس میں کوئی تخلیق کار یا کوئی عام شخص اپنےآپ سےباتیں کرتا ہےان باتوں میں بچھڑےہوئےلمحوں کی بازیافت کو لفظوں میں پکارا جاتا ہےیا امکانی زمین و آسمان کا تذکرہ ہوتا ہے:

میرےچہرےمیں چمکتا ہےکسی اور کا
عکس آئنہ دیکھ رہا ہےمجھےحیرانی سے

ممکن ہےاس کو بھی کبھی لےآئےچاندرات
کچھ پھول سونےگھر میں کبھی رکھ دیا کرو

مری خا مشی میں بھی اعجاز آئے
کسی سمت سےکوئی آواز آئی

چاند رکھا ہےکہیں دھوپ کہیں رکھی ہے
رہ گیا ہےمرےگھر میں ترا ساماں نیناں

تلاش بستی میں کرتا ہےجس کو شہزادہ
وہ مورنی کسی جنگل نےپال رکھی ہے

عورت کی اہمیت اور اس کی بےتوقیری کےدرمیان بہت سی پرچھائیاں، بہت سی دیواریں کھڑی ہیں، ترقی یافتہ قومیں عورت کےلئےوہ سب کچھ کر چکی ہیں جس نےوہاں کی نسائی دنیا کو انفرادی اور اجتماعی طور پر مادر پدر آزادی کا حق دار بنادیا ہے، ترقی پذیر قوموں میں یا تیسری دنیا کےدرمیان عورت کےپورے پن کو ماننےکی آوازیں تیز تر ہوتی جارہی ہیں، عورت کی آزادیوں اور اس کی بنیادی ضرورتوں کےلئےانسانی تاریخ نےجس چیز کو اور جس نا انصافی کو لکھا ہےاس کےسامنےعدل کی ترازو تو رکھنی پڑےگے، فرزانہ نےکوئی نعرہ تو نہیں لگایا اور عورت کی طرف سےفرزانہ کےہاتھوں میں انقلاب یا بغاوت کا کوئی جھنڈا بھی نہیں ہےمگر انہوں نےعورت کےاجتماعی اور انفرادی دکھوں تک اپنےقلم کےسفر کو بڑھایا ضرور ہے، اجتماعی عورت کےبارےمیںچند مثالیں دیکھئے:

عورت کا ذہن مرد کی اس کائنات میں
اب تک ہےالجھنوں کا نشانہ بنا ہوا

قبیلےکےخنجر بھی لٹکےہوئےہیں
کھڑی ہیں جہاں لڑکیاں دل کو ہاری

انگلیوں سےلہو ٹپکتا ہے
پھر بھی کلیاں پروئےجاتی ہیں

سب اختیار اس کا ہےکم اختیار میں
شاید اسی لئےہوئی بےاعتبار میں

تھل سےکسی کا اونٹ سلامت گزر گیا
راہَ وفا میں رہ گئی مثلِ غبار میں

بدن کی چٹانوں پہ کائی جمی ہے کہ
صدیوں سےساحل پہ تنہا کھڑی ہوں

خلا سےمجھےآرہی ہیں صدائیں مگر
میں تو پچھلی صدی میں جڑی ہوں

فرزانہ کا خیال ہےکہ عورت کی روح کیسےمضبوط ہو سکتی ہےجبکہ اس کا جسم ہی کمزور بنایا گیا ہے، مگر عورت کربِ ذات کو نئی زندگی کی ایک سچی خوشی سمجھتی ہے، فرزانہ جب اپنےذاتی تجربوں کو اظہار میں لاتی ہیں تو وہ بہت سی دوسری عورتوں کا بیانیہ بھی بن جاتی ہیں:

سزا بےگناہی کی بس کاٹتی ہوں
کہاں مجھ کو جینےکےانداز آئے
وہ جن کی آنکھ میں ہوتا ہےزندگی کا ملا ل
اسی قبیلےسےخود کو ملانا چاہتی ہوں
میری تقدیر سےوہ بابِ اثر بند ملا
جب دعاؤں کےپرندوں نےاترنا چاہا

دھوپ گر نہ صحرا کےراز کہہ گئی ہوتی
میں تو بہتےدریا کےساتھ بہہ گئی ہوتی

بام و در ہیں ترےاشکوں سےفروزاں نیناں
گھر میں اچھا نہیں اس درجہ چراغاں نیناں

لگتا ہےمجھ کو میں کسی مردہ بدن میں تھی
جینےکا حوصلہ جو ملا اجنبی لگا

فرزانہ کہتی ہیں کہ عورت نےگھر کےآنگن کو زندگی کی نرم اور گرم دھوپ سےبھر دیا ہےلیکن آنکھوں کےآبشار بارشوںکی تمثیل بنےہوئےہیں، عورت کی محبتوں کا آنچل فرزانہ نے آرزوؤں کےستاروں سےبھرا ہوا ہے، وہ ابھی اپنےآنچل پر کچھ تازہ ستارےٹانکنا چاہتی ہے، فرزانہ نےعورت کےانفرادی اور اجتماعی حوصلےکو بڑھانا چاہا ہے، انھوں نےلکھا ہےکہ:

خیال رکھنا ہےپیڑوں کا خشک سالی میں
نکالنی ہےمجھےجوئےشیر جنگل میں

قدم روکتا کب سیہ پوش جنگل
امیدوں کےجگنو اُڑائےتو ہوتے

سمندر کو صحراؤں میں لےکےآتے
کچھ انداز اپنےسکھائےتو ہوتے

پہنچتی اتر کر حسیں وادیوں میں
پہاڑوں پہ رستےبنائےتو ہوتے

درد کی نیلی رگیں پڑھتےہوئےایک ایسا تجربہ سامنےآیا ہےجو ہمارےعہد کی شاعری میں کم موجود ہے، ہر دور کی علامت سازی میں زیادہ یا کم روزمرہ زبان کو اور موجود زندگی کی اشیاءکو شامل کیا جاتا رہا ہے، فرزانہ کی شاعری میں بھی بہت سی ایسی چیزوں کا تذکرہ آیا ہےجو شہر اور گاؤں کی بھی نمائندگی کرتےہیں اور رہن سہن کی پہچان ہیں، شہر کےحوالےسےچند اشیاءکو شاعرانہ انداز میں دیکھئے:

تمہیں گلاب کےکھلنےکی کیا صدا آتی
تمہارےگرد تو ہر وقت صرف پیسا ہے

نجانےکیسےگزاروں گی ہجر کی ساعت
گھڑی کو توڑ کےسب بھول جانا چاہتی ہوں

اوڑھےپھرتی تھی جو نیناں ساری رات
اس ریشم کی شال پہ یاد کےبوٹےتھے

سیب اور چیری تو روز لےکےآتی ہوں
اپنےسندھڑی آموں کو بھول بھول جاتی ہوں

شوخ نظر کی چٹکی نےنقصان کیا
ہاتھوں سےجب چائےکےبرتن چھوٹےتھے

فرزانہ کی شاعری میں گاؤں کی زندگی، وہاں کےموسم اور وہاں کی ضروری اشیاءکا جو اظہار ملتا ہےایک طرف تو پرانی اقدار اور پرانی ثقافت کو سامنےلاتا ہےاور دوسری طرف وہ انسان بھی نظر آجاتےہیں جو صدیوں سےاپنےمحدود وسائل کےساتھ ایک ہی کروٹ جیئےجا رہےہیں۔

اُسےجو دھوپ لئےدل کےگاؤں میں اترا
رہٹ سےچاہ کا پانی پلانےوالی ہوں

میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
تمہارےلمس کی گرمی چرانےوالی ہوں

کان میں میں نےپہن لی ہےتمہاری آواز
اب مرےواسطےبیکار ہےچاندی سونا

روز آجاتی ہوں کمرےمیں ہوا کی صورت
کنڈی کھڑکائےبغیر اس سےچراتی ہوں اسے

کوئی بھی نہ دیوار پر سےپکاری
مگر ذہن یادوں کےاُپلےاتاری
ملےگی میری بھی کوئی نشانی
چیزوں میں پڑی ہوئی ہوں
کہیں میں پرانی چیزوں میں

مرےوجود سےقائم ہیں بام و درمیرے
سمٹ رہی ہےمری لا مکانی چیزوں میں

بہشت ہی سےمیں آئی زمین پر لیکن
شمار میرا نہیں آسمانی چیزوں میں

یہ جانتےہوئےکوئی وفا شناس نہیں
بسر ہوئی ہےمری زندگانی چیزوں میں

میں نےفرزانہ کی نظمیں بھی پڑھی ہیں، ان نظموں میں’دریائےنیل، پگلی، پتھر کی لڑکی، سوندھی خوشبو، آخری خواہش، پہلی خوشی، ناریل کا پیڑ، اور ماں جیسی نظمیں خوبصورتی کےساتھ لکھی گئی ہیں اور احساس و خیال کو زندگی کی سچائیوں سےجوڑ دیتی ہیں،
فرزانہ کی شاعری پڑھتےہوئےان کےکچھ ایسےاشعار بھی سامنےآئےجو بہت حد تک نئی امیجری کےساتھ لکھےگئےہیں، میں چاہتا ہوں کہ انھیں پڑھا یا سنا جائےتاکہ شاعری کےپڑھنےوالےیکسانیت سےنکل کر ذرا مختلف موسموں کےدرمیان بھی آسکیں

شوخ بوندوں کی طرح جاکےاٹک جاتےہیں
جسم کی کوری صراحی میں چمکتےموسم

رات کےخالی کٹورےکو لبالب بھر کے
کس قدر خوشبو چھڑکتےہیں مہکتےموسم

صبح کےروپ میں جب دیکھنےجاتی ہوں اسے
ایک شیشےکی کرن بن کےجگاتی ہوں اسے

بخش دیتی ہوں مناظر کو روپہلا ریشم
جسم کو چاندنی کا تھان بناتی ہوں میں

نیلگوں جھیل میں ہےچاند کا سایہ لرزاں
موجِ ساکت بھی کوئی آئےسنبھالےاس کو

کیسا نشہ ہےسرخ پھولوں میں
تتلیاں گل پہ سوئےجاتی ہیں

زلف کو صندلی جھونکا جو کبھی کھولےگا
جسم ٹوٹےہوئےپتےکی طرح ڈولےگا

فرزانہ کی شاعری میں تصویروں کےعکس دیکھ کر لگتا ہےکہ ہم شاعری نہیں پڑھ رہےبلکہ کسی نئےمصور کی آرٹ گیلری سےگزر رہےہیں، انھوں نےخود لکھا ہےکہ

’ شاعری کےرموز و اوقاف اور اوزان و بحور وغیرہ پر مہارت کا مجھےکوئی دعویٰ نہیں، میری تشبیہات و استعارات کسی سےنہیں لئےگئےکہ مجھےاپنی مرضی کےالفاظ کا تانا بانا بننا اچھا لگتا ہے‘

ایک شاعرہ کی حیثیت سےفرزانہ نےاپنی بنیادی سچائی کو ظاہر کر دیا ہے، انھوں نےدوسری بےشمار لکھنےوالیوں کی طرح بننا پسند نہیں کیا بلکہ آزاد پرندےکی طرح کھلےآسمانوں میں اپنی اُڑان کو اہم سمجھا ہے، فرزانہ کی شاعری پڑھتےہوئےکچھ نامانوسیت کا جو احساس ہوتا ہے وہ اس جیسی تمام شاعری کی تازگی کا جواز بھی ہے، ان کی شعری زبان تخلیقی ہےاور مادری زبان سندھی ہے، ان کےتصوراتی پس منظر میں سندھ کا گاؤں بولتا ہےاس حوالےسےکہا جا سکتا ہےکہ فرزانہ خان نےاردو مادری زبان والی کئی دوسری شاعرات سےزیادہ نئی اور زیادہ تازہ زبان لکھی ہے۔

فرزانہ کی شعری جمالیات، لفظیات اور امیجز خوبصورتی و اثر پذیری کےساتھ اظہار میں آئی ہیں ، پاکستان کی تہذیبی و ثقافتی اور ادبی و معاشرتی
رویوں کےساتھ فرزانہ خان جڑی ہوئی ہیں، وہ آباد تو دیارِ غیر میں ہیں مگر ان کی یادوں میں اپنےوطن کےموسموں کےرنگ اور اپنی مٹی کی خوشبوئیں بسی ہوئی ہیں، وہ سوتی تو نوٹنگھم میں ہیں مگر خواب پاکستان کےدیکھتی ہیں اس بات سےحد درجہ وطن کی محبت کا اظہار ہوتا ہےلیکن ایک اہم تخلیق کار ہونےکی حیثیت میں برطانیہ میں گزرنےوالی زندگی، وہاں درپیش سماجی رویوں اور انسانی قدروں کا اظہار بھی فرزانہ کی شاعری میں ہونا چاہیئےتاکہ ان کو پڑھنےوالےایک مختلف کلچر سےاور اس کےایسےمعاملات و واقعات سےبھی روشناس ہوسکیں۔

فرزانہ خان کی شاعری میں رقت آمیز، خود رحمی یا قنوطیت جیسےغیر متحرک اور غیر فعالی رویئےنہیں ہیں بلکہ شکستہ خواب و خواہش کی سچائیاں اور عورت کےاجتماعی و انفرادی دکھوں کا اجلا پن ان کےہر اظہار میں موجو د ہے، وہ جسم و جاں کےتجربوں کو سالمیت و سلامتی کےساتھ لکھ کر سامنےلائی ہیں انہوں نےاشیاءکےذریعےاپنی تازہ امیجری کےتعلق سےجو نسائی آئیڈیل بنایا ہےوہ اس میں کامیاب نظر آتی ہیں، فرزانہ نےلکھا ہےکہ

’میری شاعری بچپن سےجوانی تک کی شاعری ہے‘

میں فرزانہ کی اس شاعری پر انہیں مبارکباد دیتا ہوں اور یقین کر سکتا ہوں کہ فرزانہ کی شاعری کا اگلا قدم زندگی کےزیادہ سنجیدہ، زیادہ اہم اور زیادہ گہرےتجربوں کی سمت بڑھےگا جو ان کو جلترنگ سےہو ترنگ کی طرف لےجائےگا، فرزانہ میں جدید انفرادیت کی علامت بننےکا سارا سامان موجود ہے۔

جاذب قریشی
کراچی

i-dream-of.gif


 

Jazib Quereshi – روشنی کی تازہ لپک

Jazib Quereshi – روشنی کی تازہ لپک

روشنی کی تازہ لپک

عرب امارات ،برطانیہ، امریکا، کینیڈا کےدرمیان جو پاکستانی اپنےاپنےدائروں میں رہ کر تہذیبی و ثقافتی روایات کےساتھ ساتھ اردو زبان کی نئی تاریخ رقم کر رہےہیں ان میں نوٹنگھم میں آباد فرزانہ خان نیناں بھی شامل ہیں، نوٹنگھم میں فرزانہ نےایک ادبی اور ثقافتی تنظیم’بزمِ علم و فن‘ کےتحت اردو کا چراغ جلایا ہوا ہےجس کےزیرِ اہتمام مشاعری، جلسےاور مختلف ادبی و سماجی تقریبات ہوتی رہتی ہیں اور پاکستان سےجانےوالےاستفادہ کرتےرہتےہیں ۔
فرزانہ نےاپنی شاعری اور اپنی ذات کےحوالےسےجو کچھ خود لکھا ہےوہ اپنی نوعیت میں نیا بھی ہےاور ان کی شاعری کےپس منظر کو سمجھنےمیں مدد بھی دیتا ہے، وہ لکھتی ہیں کہ

’میری شاعری میرےبچپن اور جوانی کی کائنات کےرنگوں میں ڈھلی ہےاور نیلگوں وسیع و عریض آسمان میری شاعری کا کینوس ہے،میری شاعری ایک ایسی دنیا ہےجہاں میں کچھ پل کےلئےسب کی نظروں سےاوجھل ہوکر شہرِ سبا کی سیڑھیاں چڑھتی ہوں۔۔۔۔‘

فرزانہ نےشاعری کےلئےجس دنیا کا انتخاب کیا ہےوہ نئی توہےموسم اور ان موسموں کےرنگ تازہ اور خوبصورت ضرور ہیں لیکن اس دنیا کی اور شکل بھی ہی،فرزانہ محبتوں کی شاعرہ ہیں، ان میں جدید انفرادیت کی علامت بننےکا سارا ہنر موجود ہی، فرزانہ کا مشاہداتی تخیل ایسی روشنیوں کےساتھ سفر کرتا ہےجو زمانوں کی گردشوں میں ہےاور انہیں پہچاننےکا ہنر بھی جانتا ہے، فرزانہ پرانےاور نئےوقت کےچہروں میں تازہ مماثلتیں اور جدید شباہتیں تلاش کر لیتی ہیں، اس طرح ان کےلئےانسانی تاریخ اور اعلیٰ قدریں تسلسل کےساتھ ایک ہی زندگی کی داستان بن گئی ہیں، اپنےجسم و جاں کی محبتوں کو جس انداز میں فرزانہ نےلکھا ہےوہ انداز دیارِ غیر میں آباد پاکستانی شاعرات میں کم ہی نظر آئےگا، فرزانہ نےمحبوب سےاپنےوجود کو اور اپنےوجود سےمحبوب کی یادوں کوجس طرح وابستہ کر رکھا ہےاس کی چند مثالیں دیکھئے:

آسماں کےرنگوں میں رنگ ہےشہابی سا
دھیان میں ہےوہ چہرہ ایک ماہتابی سا

حرف پیار کےسارےآگئےتھےآنکھوں میں
جب لیا تھا ہاتھوں میں چہرہ وہ کتابی سا

پارس نےدفعتاََ مجھےسونا بنا دیا
قسمت سےآج ہوگئی سرمایہ دار میں

فرزانہ کےجسم و جاں پر محبتوں کےاثرات کو مختلف کیفیت میں دیکھا جا سکتا ہے
:
بدن نےاوڑھ لی ہےشال اس کی
ملائم، نرم، مخمل ہوگئی ہوں

کسی کےعکس میں کھوئی ہوں اتنی
خود آئینےسےاوجھل ہوگئی ہوں

اشکوں کےپانیوں میں اترا کسی کا چہرہ
بہتا ہوا اچانک دریا ٹہر گیا ہے

کیسا عجب سفر ہےدل کی مسافتوں کا
میں چل رہی ہوں لیکن رستہ ٹہر گیا ہے

بسی ہےیاد کوئی آکےمیرےکاجل میں
لپٹ گیا ہےادھورا خیال آنچل میں

اُسی چراغ کی لوَ سےیہ دل دھڑکتا ہے
جلائےرکھتی ہوں جس کو شبِ مسلسل میں

درختوں کےسبز پتوں کےدرمیان،محبتوں کی بچھڑی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور یادوں کا چراغ تنہائیوں میں جلتا رہتا ہے، پھر اس چراغ کےاجالےمیں محبوب سےملنےاور گفتگو کرنےکا موسم بھی اتر آتا ہے، ایسا مکالمہ شاعری میں ڈرامائی عناصر کی تخلیق کرتا ہےاور زندگی کےروز وشب میں پیش آنےوالےمعاملات و تجربات فنی و تخلیقی اظہار بن جاتےہیں، اس حوالےسےفرزانہ کی باتیں سنی جاسکتی ہیں:

پھرتی ہےمیرےگھر میں اماوس کی سرد رات
دالان میں کھڑی ہوں بہت بےقرار میں

جی چاہتا ہےرات کےبھرپور جسم سے
وحشت سمیٹ لوں تری دیوانہ وار میں

شام ڈھلنےسےمجھےدیکھ سحر ہونےتک
کیسےامید کو ارمان بناتی ہوں میں

روز دیکھا ہےشفق سےوہ پگھلتا سونا
روز سوچا ہےکہ تم میرےہو میرےہونا

یہ دیکھ کتنی منور ہےمیری تنہائی
چراغ بامِ مژہ پر ہزار رکھتی ہوں

مثالِ برق چمکتی ہوں بےقراری میں
میں روشنی کی لپک برقرار رکھتی ہوں

تتلیاں ہی تتلیاں ہیں تم جو میرےساتھ ہو
دلنشیں موسم ہےجیسےدھوپ میں برسات ہو

یادوں اور ملاقاتوں کےبعد محبتوں کےدرمیان آباد رہنےکا ایک تیسرا امکان بھی ہےجسےشاعری کی زبان میں خود کلامی بھی کہا جاتا ہے، خود کلامی ایک ایسی داخلی گفتگو ہےجس میں کوئی تخلیق کار یا کوئی عام شخص اپنےآپ سےباتیں کرتا ہےان باتوں میں بچھڑےہوئےلمحوں کی بازیافت کو لفظوں میں پکارا جاتا ہےیا امکانی زمین و آسمان کا تذکرہ ہوتا ہے:

میرےچہرےمیں چمکتا ہےکسی اور کا
عکس آئنہ دیکھ رہا ہےمجھےحیرانی سے

ممکن ہےاس کو بھی کبھی لےآئےچاندرات
کچھ پھول سونےگھر میں کبھی رکھ دیا کرو

مری خا مشی میں بھی اعجاز آئے
کسی سمت سےکوئی آواز آئی

چاند رکھا ہےکہیں دھوپ کہیں رکھی ہے
رہ گیا ہےمرےگھر میں ترا ساماں نیناں

تلاش بستی میں کرتا ہےجس کو شہزادہ
وہ مورنی کسی جنگل نےپال رکھی ہے

عورت کی اہمیت اور اس کی بےتوقیری کےدرمیان بہت سی پرچھائیاں، بہت سی دیواریں کھڑی ہیں، ترقی یافتہ قومیں عورت کےلئےوہ سب کچھ کر چکی ہیں جس نےوہاں کی نسائی دنیا کو انفرادی اور اجتماعی طور پر مادر پدر آزادی کا حق دار بنادیا ہے، ترقی پذیر قوموں میں یا تیسری دنیا کےدرمیان عورت کےپورے پن کو ماننےکی آوازیں تیز تر ہوتی جارہی ہیں، عورت کی آزادیوں اور اس کی بنیادی ضرورتوں کےلئےانسانی تاریخ نےجس چیز کو اور جس نا انصافی کو لکھا ہےاس کےسامنےعدل کی ترازو تو رکھنی پڑےگے، فرزانہ نےکوئی نعرہ تو نہیں لگایا اور عورت کی طرف سےفرزانہ کےہاتھوں میں انقلاب یا بغاوت کا کوئی جھنڈا بھی نہیں ہےمگر انہوں نےعورت کےاجتماعی اور انفرادی دکھوں تک اپنےقلم کےسفر کو بڑھایا ضرور ہے، اجتماعی عورت کےبارےمیںچند مثالیں دیکھئے:

عورت کا ذہن مرد کی اس کائنات میں
اب تک ہےالجھنوں کا نشانہ بنا ہوا

قبیلےکےخنجر بھی لٹکےہوئےہیں
کھڑی ہیں جہاں لڑکیاں دل کو ہاری

انگلیوں سےلہو ٹپکتا ہے
پھر بھی کلیاں پروئےجاتی ہیں

سب اختیار اس کا ہےکم اختیار میں
شاید اسی لئےہوئی بےاعتبار میں

تھل سےکسی کا اونٹ سلامت گزر گیا
راہَ وفا میں رہ گئی مثلِ غبار میں

بدن کی چٹانوں پہ کائی جمی ہے کہ
صدیوں سےساحل پہ تنہا کھڑی ہوں

خلا سےمجھےآرہی ہیں صدائیں مگر
میں تو پچھلی صدی میں جڑی ہوں

فرزانہ کا خیال ہےکہ عورت کی روح کیسےمضبوط ہو سکتی ہےجبکہ اس کا جسم ہی کمزور بنایا گیا ہے، مگر عورت کربِ ذات کو نئی زندگی کی ایک سچی خوشی سمجھتی ہے، فرزانہ جب اپنےذاتی تجربوں کو اظہار میں لاتی ہیں تو وہ بہت سی دوسری عورتوں کا بیانیہ بھی بن جاتی ہیں:

سزا بےگناہی کی بس کاٹتی ہوں
کہاں مجھ کو جینےکےانداز آئے
وہ جن کی آنکھ میں ہوتا ہےزندگی کا ملا ل
اسی قبیلےسےخود کو ملانا چاہتی ہوں
میری تقدیر سےوہ بابِ اثر بند ملا
جب دعاؤں کےپرندوں نےاترنا چاہا

دھوپ گر نہ صحرا کےراز کہہ گئی ہوتی
میں تو بہتےدریا کےساتھ بہہ گئی ہوتی

بام و در ہیں ترےاشکوں سےفروزاں نیناں
گھر میں اچھا نہیں اس درجہ چراغاں نیناں

لگتا ہےمجھ کو میں کسی مردہ بدن میں تھی
جینےکا حوصلہ جو ملا اجنبی لگا

فرزانہ کہتی ہیں کہ عورت نےگھر کےآنگن کو زندگی کی نرم اور گرم دھوپ سےبھر دیا ہےلیکن آنکھوں کےآبشار بارشوںکی تمثیل بنےہوئےہیں، عورت کی محبتوں کا آنچل فرزانہ نے آرزوؤں کےستاروں سےبھرا ہوا ہے، وہ ابھی اپنےآنچل پر کچھ تازہ ستارےٹانکنا چاہتی ہے، فرزانہ نےعورت کےانفرادی اور اجتماعی حوصلےکو بڑھانا چاہا ہے، انھوں نےلکھا ہےکہ:

خیال رکھنا ہےپیڑوں کا خشک سالی میں
نکالنی ہےمجھےجوئےشیر جنگل میں

قدم روکتا کب سیہ پوش جنگل
امیدوں کےجگنو اُڑائےتو ہوتے

سمندر کو صحراؤں میں لےکےآتے
کچھ انداز اپنےسکھائےتو ہوتے

پہنچتی اتر کر حسیں وادیوں میں
پہاڑوں پہ رستےبنائےتو ہوتے

درد کی نیلی رگیں پڑھتےہوئےایک ایسا تجربہ سامنےآیا ہےجو ہمارےعہد کی شاعری میں کم موجود ہے، ہر دور کی علامت سازی میں زیادہ یا کم روزمرہ زبان کو اور موجود زندگی کی اشیاءکو شامل کیا جاتا رہا ہے، فرزانہ کی شاعری میں بھی بہت سی ایسی چیزوں کا تذکرہ آیا ہےجو شہر اور گاؤں کی بھی نمائندگی کرتےہیں اور رہن سہن کی پہچان ہیں، شہر کےحوالےسےچند اشیاءکو شاعرانہ انداز میں دیکھئے:

تمہیں گلاب کےکھلنےکی کیا صدا آتی
تمہارےگرد تو ہر وقت صرف پیسا ہے

نجانےکیسےگزاروں گی ہجر کی ساعت
گھڑی کو توڑ کےسب بھول جانا چاہتی ہوں

اوڑھےپھرتی تھی جو نیناں ساری رات
اس ریشم کی شال پہ یاد کےبوٹےتھے

سیب اور چیری تو روز لےکےآتی ہوں
اپنےسندھڑی آموں کو بھول بھول جاتی ہوں

شوخ نظر کی چٹکی نےنقصان کیا
ہاتھوں سےجب چائےکےبرتن چھوٹےتھے

فرزانہ کی شاعری میں گاؤں کی زندگی، وہاں کےموسم اور وہاں کی ضروری اشیاءکا جو اظہار ملتا ہےایک طرف تو پرانی اقدار اور پرانی ثقافت کو سامنےلاتا ہےاور دوسری طرف وہ انسان بھی نظر آجاتےہیں جو صدیوں سےاپنےمحدود وسائل کےساتھ ایک ہی کروٹ جیئےجا رہےہیں۔

اُسےجو دھوپ لئےدل کےگاؤں میں اترا
رہٹ سےچاہ کا پانی پلانےوالی ہوں

میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
تمہارےلمس کی گرمی چرانےوالی ہوں

کان میں میں نےپہن لی ہےتمہاری آواز
اب مرےواسطےبیکار ہےچاندی سونا

روز آجاتی ہوں کمرےمیں ہوا کی صورت
کنڈی کھڑکائےبغیر اس سےچراتی ہوں اسے

کوئی بھی نہ دیوار پر سےپکاری
مگر ذہن یادوں کےاُپلےاتاری
ملےگی میری بھی کوئی نشانی
چیزوں میں پڑی ہوئی ہوں
کہیں میں پرانی چیزوں میں

مرےوجود سےقائم ہیں بام و درمیرے
سمٹ رہی ہےمری لا مکانی چیزوں میں

بہشت ہی سےمیں آئی زمین پر لیکن
شمار میرا نہیں آسمانی چیزوں میں

یہ جانتےہوئےکوئی وفا شناس نہیں
بسر ہوئی ہےمری زندگانی چیزوں میں

میں نےفرزانہ کی نظمیں بھی پڑھی ہیں، ان نظموں میں’دریائےنیل، پگلی، پتھر کی لڑکی، سوندھی خوشبو، آخری خواہش، پہلی خوشی، ناریل کا پیڑ، اور ماں جیسی نظمیں خوبصورتی کےساتھ لکھی گئی ہیں اور احساس و خیال کو زندگی کی سچائیوں سےجوڑ دیتی ہیں،
فرزانہ کی شاعری پڑھتےہوئےان کےکچھ ایسےاشعار بھی سامنےآئےجو بہت حد تک نئی امیجری کےساتھ لکھےگئےہیں، میں چاہتا ہوں کہ انھیں پڑھا یا سنا جائےتاکہ شاعری کےپڑھنےوالےیکسانیت سےنکل کر ذرا مختلف موسموں کےدرمیان بھی آسکیں

شوخ بوندوں کی طرح جاکےاٹک جاتےہیں
جسم کی کوری صراحی میں چمکتےموسم

رات کےخالی کٹورےکو لبالب بھر کے
کس قدر خوشبو چھڑکتےہیں مہکتےموسم

صبح کےروپ میں جب دیکھنےجاتی ہوں اسے
ایک شیشےکی کرن بن کےجگاتی ہوں اسے

بخش دیتی ہوں مناظر کو روپہلا ریشم
جسم کو چاندنی کا تھان بناتی ہوں میں

نیلگوں جھیل میں ہےچاند کا سایہ لرزاں
موجِ ساکت بھی کوئی آئےسنبھالےاس کو

کیسا نشہ ہےسرخ پھولوں میں
تتلیاں گل پہ سوئےجاتی ہیں

زلف کو صندلی جھونکا جو کبھی کھولےگا
جسم ٹوٹےہوئےپتےکی طرح ڈولےگا

فرزانہ کی شاعری میں تصویروں کےعکس دیکھ کر لگتا ہےکہ ہم شاعری نہیں پڑھ رہےبلکہ کسی نئےمصور کی آرٹ گیلری سےگزر رہےہیں، انھوں نےخود لکھا ہےکہ

’ شاعری کےرموز و اوقاف اور اوزان و بحور وغیرہ پر مہارت کا مجھےکوئی دعویٰ نہیں، میری تشبیہات و استعارات کسی سےنہیں لئےگئےکہ مجھےاپنی مرضی کےالفاظ کا تانا بانا بننا اچھا لگتا ہے‘

ایک شاعرہ کی حیثیت سےفرزانہ نےاپنی بنیادی سچائی کو ظاہر کر دیا ہے، انھوں نےدوسری بےشمار لکھنےوالیوں کی طرح بننا پسند نہیں کیا بلکہ آزاد پرندےکی طرح کھلےآسمانوں میں اپنی اُڑان کو اہم سمجھا ہے، فرزانہ کی شاعری پڑھتےہوئےکچھ نامانوسیت کا جو احساس ہوتا ہے وہ اس جیسی تمام شاعری کی تازگی کا جواز بھی ہے، ان کی شعری زبان تخلیقی ہےاور مادری زبان سندھی ہے، ان کےتصوراتی پس منظر میں سندھ کا گاؤں بولتا ہےاس حوالےسےکہا جا سکتا ہےکہ فرزانہ خان نےاردو مادری زبان والی کئی دوسری شاعرات سےزیادہ نئی اور زیادہ تازہ زبان لکھی ہے۔

فرزانہ کی شعری جمالیات، لفظیات اور امیجز خوبصورتی و اثر پذیری کےساتھ اظہار میں آئی ہیں ، پاکستان کی تہذیبی و ثقافتی اور ادبی و معاشرتی
رویوں کےساتھ فرزانہ خان جڑی ہوئی ہیں، وہ آباد تو دیارِ غیر میں ہیں مگر ان کی یادوں میں اپنےوطن کےموسموں کےرنگ اور اپنی مٹی کی خوشبوئیں بسی ہوئی ہیں، وہ سوتی تو نوٹنگھم میں ہیں مگر خواب پاکستان کےدیکھتی ہیں اس بات سےحد درجہ وطن کی محبت کا اظہار ہوتا ہےلیکن ایک اہم تخلیق کار ہونےکی حیثیت میں برطانیہ میں گزرنےوالی زندگی، وہاں درپیش سماجی رویوں اور انسانی قدروں کا اظہار بھی فرزانہ کی شاعری میں ہونا چاہیئےتاکہ ان کو پڑھنےوالےایک مختلف کلچر سےاور اس کےایسےمعاملات و واقعات سےبھی روشناس ہوسکیں۔

فرزانہ خان کی شاعری میں رقت آمیز، خود رحمی یا قنوطیت جیسےغیر متحرک اور غیر فعالی رویئےنہیں ہیں بلکہ شکستہ خواب و خواہش کی سچائیاں اور عورت کےاجتماعی و انفرادی دکھوں کا اجلا پن ان کےہر اظہار میں موجو د ہے، وہ جسم و جاں کےتجربوں کو سالمیت و سلامتی کےساتھ لکھ کر سامنےلائی ہیں انہوں نےاشیاءکےذریعےاپنی تازہ امیجری کےتعلق سےجو نسائی آئیڈیل بنایا ہےوہ اس میں کامیاب نظر آتی ہیں، فرزانہ نےلکھا ہےکہ

’میری شاعری بچپن سےجوانی تک کی شاعری ہے‘

میں فرزانہ کی اس شاعری پر انہیں مبارکباد دیتا ہوں اور یقین کر سکتا ہوں کہ فرزانہ کی شاعری کا اگلا قدم زندگی کےزیادہ سنجیدہ، زیادہ اہم اور زیادہ گہرےتجربوں کی سمت بڑھےگا جو ان کو جلترنگ سےہو ترنگ کی طرف لےجائےگا، فرزانہ میں جدید انفرادیت کی علامت بننےکا سارا سامان موجود ہے۔

جاذب قریشی
کراچی

i-dream-of.gif


Free Myspace Glitters @ GlitterUniverse.comFree Myspace Glitters @ GlitterUniverse.com

 

Haider Sherazi – تتلیوں کی فصل

Haider Sherazi – تتلیوں کی فصل

تتلیوں کی فصل” butterfly3.gif

مدعا لفظ ہو یا تصویر کیا جائے، کوششِ اظہار انسان کا حق نہیں بلکہ اس پر واجب ہے، لفظ سے تصویر تک سارا کھیل تو

نقطےکے پھیلاو کا ہے، جیسے بیج میں درخت کا ہونا امرِ واقعہ ہےا ُسی طرح نقطےمیں تصویر اور لفظ ہر دو موجود ہوتےہیں،

اِ س کے پھیلاو کا نتیجہ قلم اور مو قلم کے فرق کی بنا پر مختلف ہو سکتا ہے۔


Haider Sherazi and Farzana Khan

میرےخیا ل میں شاعری، قلم سےنقطے کو تصویر کرنا ہے بشرطیکہ نقطےسے کشید کا یہ عمل اپنے پیچ و خم میں رقص کی سی ترتیب رکھتا ہو، ایسی ترتیب جو کوشش کے نتیجے سے زیادہ خود رو محسوس ہوتی ہو کہ کوشش جہانِ ممکنات کا تمدن ہےاور شاعری خدشہ و امکان، ہر طرف نقطے کا پھیلاو کھوجنا ہے، مجھےعادت ہے منظروں سے نابود پس منظروں تک بےارادہ خیال آرائی کی، منظر کےحدود اربعےمیں واقع ہونےکے باوجود، نابودی کے خوف کو مجھ میں دھڑکتا چھوڑ دیا گیا ہے، مجھے میری پیدائش کےواقعے میں قید رکھ کر میری نمو کی حد بندی کردی گئی ہے۔


زمان و مکان کی ردیف میں پابند ہستی کےاس مصرع طرح پر طبع آزمائی کی گنجائش ہی کتنی ہے، قافیہ پیمائی میں مضمون دسترس سےنکل نکل جاتا
ہےاور مضمون سنبھالنے میں بحر کا سانس پھولنے لگتا ہے۔

نقطےکے پھیلاوسے ہستی کےجغرافیے تک کوئی راز ہے جسے ذوقِ نظارہ سےاوجھل رکھا گیا ہے، شاعری نقطےکا اس قدر پھیلاؤ ہے کہ وہ راز تصویر نہ ہونے پائے تو بھی شعور کی سطح پر ثابت قرار پائے، مجھ میں اور فرزانہ خان میں بہت فرق ہےلیکن فرق کی یہ ساری بہتات بھی شاعرانہ ہے، اُس کے ہاں لفظ اُترتا ہوا محسوس ہوتا ہے جبکہ مجھ پر تو لفظ چیختا برستا سنا جا سکتا ہے، اُس کےہاں لفظ سے اُنسیت کا تعلق صاف ظاہر ہے، میرےہاں لفظ کے ساتھ گھمسان کے ایک کارن کی سی کیفیت ہے، فرزانہ درد کو سسکیوں میں اور خوشی کو مسکراہٹوں میں لکھتی ہے، میری طرف لفظ صدائے ماتم سے گونجتا عزاخانہ ہے یا فلک شگاف قہقہ۔۔

کوئی تقابلی مقصد ہرگز نہیں کہ تقابل کےلئے متقابلین سے کما حقہُ آگاہی لازم ہے، یہاں تو المیہ ہے کہ رگِ جان کےقرب و جوار میں بسنے والے کی خبر ہی نہیں، خود سے آگاہی کی ہر کوشش بھی انجامِ کار کسی بند گلی میں لا کھڑا کرتی ہے، زندگی یوں بھی موجود سےمعدوم کی بند گلی تک سرکنا ، رینگنا یا سرپٹ دوڑے جانا ہے، سیدھے رستےکی دریافت میں ہی کہیں عزم سفر مسلسل ہوکر دو گز زمین کا لقمہ بن جاتا ہے۔ جوئے سخن جاری کرنے کو سنگِ وجد پہ امکان کی تیشہ زنی تو ضروری ہے، سختئی روزوشب پہ جب بھی ضرب لگے، لپکتے شعلوں کا حجم اور لپک سختی سے براہِ راست متناسب ہوتا ہے ۔

فرزانہ کےہاں یہ شعلےآتش بازی سےکھلِتے ستاروں اور پھولوں جیسے ہیں، یہ اُس کا ضرب لگانےکا ہنر ہے یا روز و شب کی مہربانی کہ اُس کے ہاں شعلوں میں الاو کی سی کیفیت نہیں، مجھےلگتا ہےکہ کسی نوک دار لمحےسےالجھ کر اُدھڑنےکےبجائے وہ کسی بچگانہ تجسس کےتحت تار تار کُھلی ہے، اُس کے مضامین میں نسوانیت سے مخصوص ترتیب و تنظیم ہے۔ مجھےاُس کےلفظ انگلیوں پہ بےارادہ دوپٹہ کھولتے دکھائی پڑتے ہیں، لگتا ہےکہ خواب دیکھنے کی عمر میں آنکھیں زندگی کی بے ہنگم برہنگی کا شکار ہوئیں تو ایک ایک پور میں حیا رنگ سچائیاں جیسے برف ہو کر جم سی گئیں، اِدھر ضرب شعلہ ہوئی اور اُدھر وہ برف شبنم سی قطرہ قطرہ پگھلنےلگی، ایک ذرہ کسی ایسےقطرے کو قلم سے گدگدایا تو کاغذ پر تتلیوں کی خود رَوفصل اُگ آئی۔

مجھے ہرگز علم نہیں کہ تتلیوں کی اِس فصل پر غالب رنگ نیلا کیوں ہے؟

مجھےتو یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ ان تتلیوں کو درد کی نیلی رگیں کہنے پر کیوں مُصر ہے؟ مجھے تو آسمان کو نیلا دیکھنےکی عادت ہے یا زہر پیالے سے فارغ ہوکر سقراط کا آسمان ہو جانا میرا رومان ہے، ہوسکتا ہے کہ فرزانہ کے ہاں آسمان ریزہ ریزہ زمین کی طرف بکھرتا ہو اور تحیر سے کھنچی کمان ہوا، وجود سے بےکراں خلا میں ڈولتے آسمانی ٹکڑوں میں سے ایک دکھائ پڑ تا ہو۔۔۔۔۔

نقطےکے پھیلاو میں جہاں آسمان آپڑے وہاں خود آزمائی انجام نہیں ہوتی لیکن کوشش کی نوعیت بدل جاتی ہے، آسمان تک رسائی اس کی نیلاہٹ کی تردید کےلئے کافی ہوتی ہے لیکن اس رسائی میں اگر نقطےکا پھیلاو ہی آسمان ہوجائے تو رگوں کی نیلاہٹ ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔

فرزانہ کے ہاں نقطےکے مزید پھیلاو کے سارےامکان ستاروں کی طرح نہیں سورج کی طرح روشن ہیں، سات آسمانوں کا یہ سارا پھیلاو اس کی خواہش میں دھڑکتا محسوس ہوتا ہے، درد کی نیلی رگوں کا یہ ہوشرُباجال اُس کا نہیں اپنی پیدائش کے واقعے میں اسیر ہر شخص کا المیہ ہے، اُس کا کمال یہ ہے کہ اُس نے یہ المیہ لفظوں سےحوصلہ بَنتے ہوئے جھیلا ہے،
ہم پر واجب ہے کہ ہم اُس کےحوصلے میں برکت عطا کئےجانےکی دعا کےساتھ اُسے دیانتداری سےداد دیں۔


Monday, November 5, 2012

Dr.Tahir Taunswi – نسأیت، نیناں اور نیلے چراغ

Dr.Tahir Taunswi – نسأیت، نیناں اور نیلے چراغ

نسائیت، نیناں اور نیلےچراغ

اردو شاعری کا مطالعہ کریں اور اخبارات و رسائل کا جائزہ لیں تو یوں لگتا ہےکہ ایک سیلِ شاعرات ہےکہ بہتا چلا آرہا ہےاور شعری مجموعوں کا یہ عالم ہے کہ چھپتے چلے جارہے ہیں، مشاعرے ہو ں یا تقریبات خواتین ہیں کہ چھائی چلی جارہی ہیں اور اس فعل حالِ جاریہ میں معیار کا تجزیہ کریں تو گراف اونچا دکھائی نہیں دیتا بلکہ صورتِ حال کچھ اور دکھائی دیتی ہے ۔ ۔ ۔

کہ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

تاہم عہدِ موجود میں ایسی شاعرات بھی ہیں جن کی بدولت اردو شاعرات کا بھرم قائم ہےاور آٹےمیں نمک کےبرابر سہی مگر ان کےاظہار کا اپنا ذائقہ ان کے وجود کی واضح نشاندہی کرتا ہے اس حوالےسے ادا جعفری، پروین فنا سید، شبنم شکیل، پروین شاکر، شاہدہ حسن، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، منصورہ احمد، شاہین مفتی، سارہ شگفتہ اس میں چند اور جینوئین شاعرات کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

خواتین قلم کاروں کےاس قبیلےمیں فرزانہ نیناں بھی انفرادی شان کےساتھ شامل ہوئی ہےاور اس کےکلام ِ غزل و نظم کو پڑھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بہت کم عرصےمیں اعتناد اور پوری تخلیقی توانائی سےاپنا شعری سفر طےکرنا شروع کیا ہےاور اس کےشعور و آگہی کی ندی مدھم سروں سےبہتی ہوئی دل و دماغ کو ٹھنڈک اور فکر و نظر کو تازگی عطا کرتی ہےاور اس کی غزل اور نظم کا مطالعہ اس بات کا اعلان نامہ بھی ہے کہ اس کے پس منظر میں نیناں ہی بول رہی ہے، یہ اس کی اپنی آواز ہے جس نےتخلیقی چشمے میں ارتعاش پیدا کیا ہے۔اس کا شعری ورثہ اپنا ہی ہے، اس کےلب و لہجہ میں جو گداز ، اپنائیت، درد اور شیرینی ہے وہ ایک عورت کےاسلوب کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس تناظر میں اس کےشعری مجموعے ‘نیلی رگیں‘ کا نام بھی پوری شعری معنویت کے ساتھ سامنے آتا ہے اور جس طرح درد کا رگوں سے گہرا تعلق ہے اور پھر رگوں پر چوٹ (خواہ وہ ہلکی سی کیوں نہ ہو) لگتی ہے اس کی وجہ سے جو نیلاہٹ آجاتی ہےاس دکھ اور درد کی توجیہہ اور اس کے پیدا ہونےکی وجوہات کا تذکرہ لفظوں کےحوالے سے جس طرح نیناں نے کیا ہے اور سماج کی ساری کیفیات کو جیسے بھرپور انداز میں وہ سامنے لائی ہے اس میں اس کا ذاتی تجربہ ،مشاہدہ اور مطالعہ ایک مثلث شکل اختیار کر لیتا ہے اور پھر اس کی سوچ اور فکر کےدھارے رنگا رنگ موضوعات کی صورت میں شعر کے قالب میں ڈھل جاتے ہیں، یہاں دیدہءبینا کی فرزانگی بھی ہے اور عشق و محبت کی دیوانگی بھی، تخلیقی اظہار کےاس تنوع میں نیناں کی نسائیت نے بڑا کردار ادا کیا ہے جو اس کی ذات پر اعتماد سے چھائی ہوئی ہے۔

جس طرح ہندی اور پاکستان کی علاقائی زبانوں میں عورت ہی عاشق کا روپ دھارتی ہے، نیناں کے ہاں بھی یہی رویہ ہے کہ وہ دیوانگیءعشق میں سسی کی طرح نہ صرف مارو تھل کی خاک چھانتی ہے بلکہ فراقِ پُنل میں رات بھر اپنی پلکوں کو جھپکنے بھی نہیں دیتی اور یہ اس کی سچی، حقیقی اور بےلوث محبت کا ثبوت ہے، وہ اپنےمحبوب کی یاد کو سینے سے لگائےاس کے خیال میں گم رہتی ہے اور اپنی ذات کو اس کی ذات میں اس طرح چھپا لیتی ہے جیسے کوئی کسی کی پناہ لےرہا ہو، اس کے یہاں وصلِ یار کی خواہش اورتمنا ضرور ہےمگر اس ہجر کی آگ میں جلنے کا جو عمل ہےاس کا لطف ہی کچھ اور ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ یادِ یارِ مہرباں کو اپنی زندگی کا سرمایہ سمجھتی ہے، اس کےاظہار کی یہ جھلکیاں دیکھیں ۔ ۔ ۔

تلاش بستی میں کرتا ہے جس کو شہزادہ
وہ مورنی کسی جنگل نے پال رکھی ہے

رہیں گےنام وہ پیڑوں پہ نقش صدیوں تک
چڑھا کےجن پہ بہاروں نےچھال رکھی ہے

نیلگوں جھیل میں ہے چاند کا سایہ لرزاں
موجِ ساکت بھی کوئی آئےسنبھالےاس کو

اپنے بےسمت بھٹکتے ہوئے نیناں کی قسم
کتنےخوش بخت ہیں سب دیکھنے والےاس کو

اب کےٹس سے مس نہیں ہونا ہوا کے زور پر

بے دھڑک لکھے وہ ان پتوں پہ رائے بےحساب
نیلمیں نیناں میں جلتے بجھتے ہیں نیلےچراغ

خالی کمرے میں چلےآتے ہیں سائے بےحساب

نیلے سمندروں کا نشہ بڑھ نہ جائے گا
موتی نکال لاؤں اگر بے شمار میں

کبھی ہم نیل کے پانی میں اس انداز سے ڈولیں

کہ اپنی داستاں لکھ دیں اسی دجلہ کےدھاروں میں

ان اشعار میں نیناں نے زندگی، محبت، عشق، چاہت، پیار اور اس سے پیدا شدہ کیفیات کی جو عکس ریزی کی ہےاس میں حیات و کائنات کے سارے رنگ موجود ہیں، تاہم اسے نیلے رنگ سے زیادہ انس ہے، میرے نزدیک نیلی، نیلگوں، نیلمیں اور نیل کے ساتھ نیناں نے جو ہم آہنگی پیدا کی ہے اور پھر درد کی نیلی رگوں نے جو مضمون آفرینی کی ہے اس کےتناظر میں یہ بات سامنےآتی ہے کہ اس نے نیلے رنگ سے اپنی شاعری میں ایک نیا انداز اور نیا طرزِ ہنر پیدا کیا ہے جو حرفی اور معنوی دونوں اعتبارات سے نہ صرف دیکھنے میں بھلا معلوم ہوتا ہے بلکہ اس کے حسن کو محسوس بھی کیا جا سکتا ہےاور اس کے ظاہر و باطن کے موسموں کا بھی ادراک ہو جاتا ہے، یوں دیکھیں تو نیناں کی غزل کا مزاج ہی بدل جاتا ہے اور نئی رُتوں کا ذائقہ محسوس ہوتا ہے، نیناں کے محسوسات کو اس زاویے سے دیکھیں ۔ ۔

ہے ذرا سا سفر گذارا کر

چند لمحے فقط گوارا کر


آسمانوں سے روشنی جیسا

مجھ پہ الہام اک ستارا کر


دھوپ میں نظم بادلوں پر لکھ

کوئی پرچھائیں استعارا کر


کھو نہ جائےغبار میں نیناں

مجھ کو اے زندگی پکارا کر

یہ خوبصورت اظہار نیناں کی اس طرح کی دوسری غزلوں میں بھی پھیلا ہوا ہے جن میں اس نے استعارہ، پکارا، ستارا کرنے کی باتیں کی ہیں جن میں کوئی دوسرا شریکِ گفتگو ہے اور وہ بھی اس طرح ۔ ۔ ۔

مرے خیال کے برعکس وہ بھی کیسا ہے

میں چھاؤں چھاؤں سی لڑکی وہ دھوپ جیسا ہے


یونہی نہیں تمہیں نیناں نے روشنی لکھا

تمہارے ساتھ ہمارا یہ رشتہ طے سا ہے

اس کیفیت کو نیناں نے ایک اور رنگ میں یوں بیان کیا ہے

رات دن سویروں سا خواب جلتا رہتا ہے
شام رنگ جنگل میں، میں ہوں اور مرا ساجن

محبت کرنے والوں کی کہانی بس یہی تو ہے
کبھی نیناں میں بھر جانا کبھی دل میں رچا کرنا

اس طرح دیکھیں تو نینوں میں بھر جانے والے دل میں رچنے کی بات محبت کرنے والوں کی کہانی کو جنم دیتی ہے اور اس کہانی کا تسلسل نیناں کی نظموں میں بھی موجود ہے مگر فرق یہ ہے کہ وصال سے زیادہ فراق کا رنگ نمایاں ہے چنانچہ اس کی نظمیں

کبھی تم بھی ہم کو ہی سوچنا؛
کب تم مجھ کو یاد کروگے ؟

فقط اک پھول؛

محبت کے ثمر آور گلابوں کی داستاں سناتی ہیں مگر اس کے پس منظر میں درد کی جو لےاور دکھ کی جو ر وَ ہے وہ درد کی نیلی رگوں کی صورت میں عکس ریز ہوتے ہیں، یہاں اس کا لب و لہجہ بھی بدلا ہوا اور اسلوب بھی مختلف ہے اور بین السطور جو کیفیت ہےاس کا اندازہ مشکل نہیں

شام کےسناٹےمیں بدن پر کوٹ تمہارا جھولےگا
یاد کا لمس ٹٹولے گا ،گھور اداسی چھولے گا

اونچی اونچی باتوں سے تم ،خاموشی میں شور کروگے
گیت پرانے سن کر ٹھنڈی سانسیں بھر کر بھور کروگے

اس پل شب کی تنہائی میں اپنےدل کو شاد کروگے ۔۔۔

بولو مجھ کو یاد کروگے ؟

(کب تم مجھ کو یاد کروگے)

کبھی تم بھی ہم کو ہی سوچنا
کبھی اڑتی چڑیاں دبوچنا
یہ کھرنڈ زخموں سےنوچنا
(کبھی تم بھی ہم کو ہی سوچنا)

ان نظموں میں موضوع اور اسلوب کا جو نیا پن ہے وہ نیناں کے بے پناہ تخلیقی شعور اور ندرت، فکر و خیال کی عکاسی کرتا ہے اور اس بات کےامکانات کی بشارت بھی دیتا ہے کہ لمحہءموجود میں اس نے جو کچھ لکھا ہے اور جو بھی اس نے کہا ہے وہ اسےاس قبیلے کی جس کا ذکر آغاز میں ہوا ہے معتبر ،توانا اور منفرد شاعرہ کے طور پر سامنے لاتا ہے، ابھی اسے بہت کچھ کہنا ہے، بہت کچھ دیکھنا ہے اور بہت کچھ سیکھنا ہے، جوں جوں وہ اس حال سے گزرتی جائے گی اس کا رنگ، ہنر، فکر و فن نکھرتا اور سنورتا چلا جائے گا۔

آنے والا وقت یقینی طور پر ‘نیلی رگیں‘ کے مطالعے سے سرشار ہوکر اسے اردو کی منفرد شاعرہ کے طور پر تسلیم کرے گا جبکہ میرے نزدیک اس وقت بھی وہ اردو کی منفرد شاعرہ ہے جس نے نسائیت کے حوالے سے نیناں کے نیلے چراغ روشن کیئے ہیں، اس لیئے کہ نیلے رنگ کی چمک کبھی مدھم نہیں ہوتی، آنکھوں میں سمندر کو تیراتی اور آسمان کو لہراتی رہتی ہے اور یہی حال نیناں کی شاعری کا ہے۔

تحریر:ڈاکٹر طاہر تونسوی

Chamakdaar Sitara – چمکدار ستارہ

Chamakdaar Sitara – چمکدار ستارہ

 

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...