Welcome to the Urdu Poetry Archive! Urdu poetry is like a vast ocean. Walking along its shores on the sands of time, I have gathered a few gems that I would like to share with you.
Tuesday, November 6, 2012
Shair-E-Lashker – شاعرِ لشکر
قبلہ میرے بڑے اچھے دوست ھیں، ان کو پیار سے میں شاعر لشکر کہتا ھوں۔
اب تک آپ کی حالت بڑی قابل رحم ہو چکی ہوتی ہے کہ مخالف کیمپ بھی تو آپ کو قبول نہیں کر رہا ہوتا۔۔۔آپ تو محض اپنے خوش ذوق اور ادب دوست ہونے کا مظاہرہ کر رہے تھے اور یہ کیا ہو گیا۔۔۔۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے۔۔۔ دیکھا قبلہ کا انتقام!
سنا ہے گھر میں صرف یہی ہیں جو پڑھے لکھے پیں،اور اِس کی تصدیق کچھ قبلہ کے لب و لہجے اور مزاج سے بھی ہوتی ہے۔ ایک دفعہ ان کے ابا کے ایک دُور کے دوست مری سے ملنے آئے تو اِن کے بڑے بھائی کے متعلق پوچھنے لگے کہ کیا کام وام کرتے پیں۔ اِن کے ابا فرمانے لگے۔۔۔۔۔,بس یار کیا بتاوں ابھی تک فارغ ہی ہے,۔۔۔۔ پھر قبلہ کا ذکر چھڑ گیا تو اِن کے ابا بولے۔۔۔۔, چھوڑو یار وہ بھی شاعر ہے,۔۔۔۔۔دوست بڑے حیران ہوئے اور لگے پوچھنے کہ یہ تم نے شاعر کے ساتھ ۔۔۔ بھی۔۔۔ کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے؟۔۔۔۔ تو اِن کے ابا بولے کہ۔۔۔ بھی۔۔۔ اس لیے لگایا ہے کہ شاعر ہے تو اُسے بھی فارغ ہی سمجھو!۔ ان کے ابا کے دوست کہنے لگے یار پڑھا لکھا ہے کہیں نہ کہیں تو جڑ دیتے۔۔۔۔۔
قبلہ دشمن سازی میں بڑے خود کفیل ہیں۔ آپ دشمنی ٹالنے کی چاہے لاکھ کوشش کریں اور اسی کوشش میں چاہے انکی جھوٹی اور بے تکی تعریف بھی کریں، بات کو اِدھر اُدھر گھمائیں، ہنس ہنس کر بات کریں لیکن بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی کے مصداق آپ سے کوئ نہ کوئ غلطی تو ہو گی ہی کہ انسان جو ٹھرے، بس ہو گئ دشمنی شروع۔ آپ سے دشمنی ہو جانے کے بعد خوش خوش پھرئیں گے، سیٹی پر محمد رفیع کے گیت۔۔۔۔میرے دشمن تو میری دوستی کو ترسے۔۔۔۔ کی بےسری دھن بجاتے پھریں گے، دوستوں کو دشمنی کی باریک سے باریک تفصیلات بڑے فخریہ انداز میں بتائیں گے اور ان سے نیا محاذ کھلنے کی مبارک باد وصول کرتے پھریں گے، الغرض خوش ہونے کے جتنے بھونڈے طریقے جانتے ہیں اپنائیں گے۔ دوست بھی ان کی اس نئ نویلی دشمنی پر انتہائ خوشی محسوس کرتے ہیں کہ چلو سب کو شاعری کے علاوہ بھی کچھ کرنے کو ملا۔
ہمارے ایک ڈکٹیٹر حکمران ایوب خان خود ساختہ (self appointed) فیلڈ مارشل رہے ہیں۔ چونکہ مزاجّ قبلہ بھی ڈکٹیٹر واقع ہوئے ہیں لہزا انہوں نے بھی اپنے آپ کو نقاد کے عہدے پر خود ہی فائض کر لیا ہے، اور تنقید کے ایک نئے سکول آف تھوٹ ۔بِستی ہی بِستی۔ (بے عزتی ہی بے عزتی) کی بنیاد ڈالی۔ بڑی ادق قسم کی تنقید کرتے ہیں۔ تنقید میں ایسی ایسی اصطلاحات استعمال کرتے جو پہلے صرف طّب کی کتابوں میں ہی ملتی تھیں،۔۔۔مثلا نظم یا غزل کی نامیاتی، لحمیاتی، نِشاستائ یا عضلاتی ترتیب وغیرہ،۔۔ نظم یا غزل کا سفراوی، بلغمی یا فشاری مزاج وغیرہ،۔۔نظم یا غزل کی آفاقی، افلاقی، ملکوتی سطح وغیرہ،۔۔۔ تجریدی، وریری، عروقی یا نسائ لہجہ وغیرہ وغیرہ۔
باتیں بہت گہری کرتے ہیں۔ اور کئ باتیں تو اتنی گہری ہوتی ہیں کہ کئ کئ دن کی کھدائ کے بعد جب آپ بات کی تہ تک پہنچتے تو پتا چلتا ہے کہ اس بات کا تو کوئ مطلب ہی نہیں ہے۔ ایسی ہی ایک گہری بات آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔۔۔ فیس بک پر موجود ایک دوست (اس دوست کو سب ہی جانتے ہیں) سے ایک دن فرمانے لگے۔۔۔۔یار تم اتنی اچھی شاعری کرتے ہو کہ میں شاعری چھوڑنے کا سوچ رہا ہُوں۔۔۔۔۔قبلہ کا یہ اعلان سن کر میں بڑا خوش ہوا کہ اب اِن کی شاعری سے جان چھٹ جائے گی۔ لیکن صاحب کہاں، جب کئ دنوں کی انتظار کے بعد میری امید دم توڑ گئ تو میں نے سوچا کہ یہ بھی میری کج عقلی ہی ہو سکتی ہے جو ۔۔چھوڑنے۔۔کو ترک کرنے کے معنے میں لے رہا ہوں۔ اس بات کا ذہن میں آنا تھا کہ ابّا کے زمانے کی اردو لغات لکال کر بیٹھ گیا۔ اب جو ۔۔چھوڑنے۔۔ کا مطلب دیکھا تو میرے اپنے پسینے چھٹ گئے۔ پتہ چلا کہ یہ ۔۔چھوڑنا۔۔ محاوراتی چھوڑنا تھا،۔۔۔۔جیسے، ہاتھ چھوڑنا، کتّے چھوڑنا، سانس چھوڑنا، کھلا چھوڑنا، لمبی لمبی چھوڑنا وغیرہ۔۔۔۔۔۔ جبھی جس دن سے قبلہ نے شاعری چھوڑنے کی بات کی ہے اُس دن کے بعد سے بہت زیادہ غزلیں چھوڑنے لگے ہیں۔
میری پوری زندگی میں اس طرح کے یہ دوسرے انسان ہیں، پہلے بھی یہی ہیں کہ ان کو دوج گوارا نہیں۔ فیس بک پر ان کا طوطی بولتا ہے یا بولتی ہے۔ کسی کی موت آئ ہے جو اِن سے آنکھ ملا کر بات کر سکے۔ سب اِن کے آگے جاہل گنوار اور گدھے ہانکنے والے ہیں۔ البتہ دوستوں کے لیے بریشم ہیں۔ ان کے اکثر دوست ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی شاعری اِنکے کندھے پر رکھ کر چلاتے ہیں۔
Sahir Shewy – طلائی کان کے مالک
Sahir Shewy – طلائی کان کے مالک
’’طلائی کان کے مالک *ساحر شیوی*تحریر:فرزانہ نیناں
خدمتِ اردو ہمارا شوق ہے
بانٹنا خوشبو ہمارا شوق ہے
عشقِ اردو کی راہ میں ساحر
کتنے ذرے مَہِ منیر ہوئے
کونے کونے میں عام کردیں گے
ملکِ اردو کے ہم سفیر ہوئے
جب بھی جاتا ہوں باغِ اردو میں
پھول کی طرح میں نکھرتا ہوں
مانو کہ نہ مانو اسے تم رفعتِ ہستی
انگلینڈ میں اردو کی ضیا بانٹ رہا ہوں
اردو کے آسمان پہ جب بھی اڑان کی
ہم بھی ستارے توڑ کے لائے ہیں صاحبو
وہ جہاں بھی گیا اردو کے ہی گن گاتا ہے
یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے وہ کتنا پاگل
سازش کرے کوئی اگر اردو کے خلاف
جان اس کی بنا سوچے میں لے سکتا ہوں
اردو ہے کائنات تو ہے شاعری حیات
شفاف آئینے کی طرح ہیں مرے صفات
اسی حوالے سے زندہ ہوں آج بھی ساحر
جہانِ اردو میں تھوڑی سی میری عزت ہے
شاعری کی گوناگوں اصناف پر طبع آزمائی کے بعد عبور کے ساتھ اپنا ہنر پیش کرنے والے استاد ساحر شیوی نے مجھ جیسی طفلِ مکتب کو اس قابل سمجھا کہ ان کی شاعری کے بارے اظہار خیال کروںتومیں نے اپنے دوپٹے کی وہ چھوٹی چھوٹی گانٹھیں کھولنا شروع کیں جن میں میرے خیال کی کوئی نہ کوئی چمکتی شعاع بندھی ہوئی تھی مگر روشنی کے اس مینار کے آگے یہ ننھی ننھی کرنیں ماند ہوکر مجھے اپنی کم مائیگی کا احسا س دلا رہی ہیں،الفاظ کے چہروں پہ ایک تحیر ہے اور میں ان سے خائف ہوں۔۔۔
خوشبو ہے مرے دم سے گلستانِ سخن میں
آؤ تو سہی دیکھ لو کیا بانٹ رہا ہوں
آگ کو گلزار بنانے والے، کلاسیکل انداز کے ساتھ زبان و فن پرگرفت رکھنے والے ساحر شیوی جو اس کوہ طور تک پہنچتے پہنچتے نجانے کتنے دیوں سے لڑے ہوں گے،کتنے ہی سایوں کا مقابلہ کیا ہوگا،جھپٹتی بجلیوں کو جُل دیا ہوگا،ان کے سفر کی صعوبتیں ، آہٹوں اور صداؤں کے منظر دکھاتی ہیں۔۔۔
کس قدر کرب سے جی سوکھ گیا ہے ساحر
کاٹ کر دیکھو بدن خون نکلتا ہی نہیں
اپنی اپنی فطرت کے مطابق ہر انسان ایک رائے ایک نظریئے کا حامل ہوتا ہے ماضی، حال و مسقبل انہیں نظریات کے تحت ترتیب پاتے ہیں،تمناؤں کے بدن تشکیل ہوتے ہیں،ہواؤں میں لکھی تحریروں کا وجود بنتا ہے،بدلتی رتوں کے تجربے سبق سکھاتے ہیں،قدموں کے نشاں پیکر خاکی میں ڈھلتے ہیں،جرأت و عزم کی صدائیں سنی جاتی ہیں،سرابوں میں الجھتی آنکھوں کو بینائیاں ملتی ہیں تو یہ موجِ آب کھلکھلا کے تنبیہہ کرتی ہے کہ۔۔۔
خودی نہ بیچ کہ پھر یہ کبھی ملے نہ ملے
بجھے چراغ تو پھر روشنی ملے نہ ملے
طوفان آتے جاتے ہیں بحرِ حیات میں
ہے ناؤ کو بھنور میں کناروں کی بھی غرض
کچھ دوستوں کی تلخیاں کچھ حسرتوں کے غم
ہے سوگوار دل کو نظاروں کی بھی غرض
جلتے سورج کی تمازت جہاں بادل جیسی تھی ،جن کھیتوں کا سبز ہ روح میں ٹھنڈک بھرتاتھا، جس گلاب مٹی پہ بسنے والے پیار کے پیکرموجود تھے وہاں سے دوراُس نگرمیں ہجرت کرنا ، جہاں جذبوںکی گرمجوشی برف وادی کی طرح منجمد ہوجاتی ہے تو یادوں میں ڈوبا دل، بول پڑتا ہے۔۔۔
ہوئی ہے جیسی بسر کینیا میں اے ساحر
اب انگلینڈ میں وہ زندگی ملے نہ ملے
آج بھی یاد مجھے آتی ہے نیروبی کی
چھوڑ آیا ہوں جہاں پیار کی دولت یارو
گو دیارِ غیر میں رہتا ہوں میں
روحِ ہندوستان ہے میری غزل
پچھلی یادوں نے تعاقب کیا اکثر میرا
چھوڑ کر پیار کا گھر بارِ ندامت ہے مجھے
اپنی تہذیب وثقافت، معاشرت، بود وباش، اردو زبان کی محبت میں عشق کے مقام پر پہنچے ہوئے ساحر شیوی شبنمی یادوں کی پھوار میں جاگتی آنکھوں کے خوابوں کی تعبیریں لکھتے رہتے ہیںتاکہ رکنے والی سانسوں کو تازہ ہوا میسر آجائے۔۔۔
غم کدے میں سانس جب رکنے لگے
روزنوں میں چھن کے آتی ہے ہوا
دکھ کا سورج سر پہ آجاتا ہے ج
اس کے شعلوں سے بچاتی ہے ہوا
ابنِ آدم نے جب اپنے تجربوں کو دوسروں تک پہنچانا چاہا تو کوزے میں دریا کو بند کرنے کے لئے محاوراتی زبان نے بھی جنم لیا ،تاریخ کے حوالے بھی قائم ہوئے،تشبیہات و استعاروں نے بول چال کو نیا رنگ بھی دیا ،تاکہ آپ کی بات بھی پہنچے اور منظر بھی جاگے، ملاحظہ کیجئے ساحر شیوی کے مناظر کہاوتوں کے روپ میں۔۔۔ مرے مہماں کو خبر تھی شاید اک نوالہ بھی مرے گھر میں نہ تھا
جن کو ہوتا ہے ڈوبنے کا ڈر
وہ سمندر میں کیوں اترتے ہیں
ملتی رہتی ہے پاپیوں کو سزا
جیسا کرتے ہیں ویسا بھرتے ہیں
عجیب شخص ہے دل میں غبار رکھتا ہے
کہ پھل ہاتھ میں پہلو میں خار رکھتا ہے
ساحر ہے یقیں مجھ کو کہ جیت اپنی ہی ہوگی
پانی کی طرح پیسا بہانے میں لگا ہوں
میں نے سنا ہے ہوتے ہیں دیوار کے بھی کان
مشکل میں اب زباں ہے ذرا جاگتے رہو
میں ساحر شیوی کی بابت کیا لکھوں جن کے پاس ایک سونے کا دل ہے ،جو اس دشت میں فرات جیسے ہیں، جن کے اصول اک نکتۂ ذات نہیں بلکہ آسمان کی وسعت جیسے ہیں،یہ اپنے مفاد کے لیئے چہرے نہیں بدل سکتے جو آج کے دور میں ایک چھوت کی بیماری کی طرح سب کو لاحق ہے، یہ تو وہ دور ہے جہاں دل کی آواز دبادی دی جاتی ہے، ضمیر کی کونپل سر اٹھاتے ہی کچل دی جاتی ہے، جہاں رکھ رکھاؤکو ملحوظِ خاطر رکھنا، مہذب ہونا اور شائستگی کو چھونا ممنوع نظر آتا ہے، معمولی باتوں کو نظر انداز کرنے کا ظرف کب کا ٹوٹ چکا،معصومیت اور بھولپن کو عیاری اور مکاری کا روپ دے دیا گیا ہے اور ہم سے نادان ارمانوںکے ریشم میں الجھے بدگمانیوں کی گتھیاں سلجھاتے رہ جاتے ہیں۔۔۔
زباں اک بار جب دے دی ہے ساحر
تو پھر اس سے مکرنا بزدلی ہے
ہمارے درمیاں گو اختلاف لاکھ رہے
تم گھر میں آئے ہو میرے میں مان دے دوں گا
ساحر شیوی جو مظلوموں اور محکوموں کی زباں ہیں تو حاکموں کی ترنگ اور حکمرانی کو بھی زیرِ غور لاتے ہیں ، جو اندھے سفر پہ جانے والوں کی پرواز وں کے انجام پر کڑھتے ہیں،نہ ان کو چالاکی آتی ہے نہ یہ کشکول لے کر کسی در پہ جا سکتے ہیں،کتابوں میں کالموں میں بہت بڑے بڑے بلند وبانگ دعوے کر کے منہ چھپانے والوں کی قطار میں شامل نہیں ہوسکتے، حق پرستوں کو کوئی خوف و ڈر نہیں ہوتا، ان کے آنگن میں چاندنی بھی پوری آب و تاب سے اترتی ہے تو سورج بھی شدت سے نکلتا ہے ،یہ تو نانصافی کو مٹانے کی فکروں میں مبتلا، تدبیریں سوچتے ہیں۔۔۔ کس کے نرغے میں ہے خدا جانے اس گلی کا ہر اک مکاں چپ ہے
اونچی پرواز کی خواہش میں سنبھلتا ہی نہیں
اپنے پیروں سے کوئی شہر میں چلتا ہی نہیں
جو سایہ دار اور ثمر دار بھی نہیں
گلشن میں ایسے پیڑ اگانے سے فائدہ
آنکھوں کی بھی زباں سے حقیقت بیان ہو
سچ کے لبوں کو قفل لگانے سے فائدہ
محنت کرلو تو سب کچھ اس مٹی ہی میں پاؤگے
چاند پہ جاکر آنے کا کیا حاصل ہے ذرا سوچو تو
ساحر شیوی کی مسافرت کا کوئی سنگِ میل ان کو رستے میں نہیں روک سکا،کسی گرد باد نے ان کوپیچھے نہیں دھکیلا، اگر پرچھائیوں کے تعاقب میں چلے تو کارواں سے جا ملے،کسی نے بتلایا کہ دنیا چوکور ہے تو اس بات پر یقین کرنے کے بجائے چھان بین کو نکل پڑے ، خود جاکر ثبوت لے آئے کہ دنیا گول ہے،اصل حقیقت جان لینے سے ہی مسرت حاصل ہوتی ہے، وہ مسرت جسے بانٹنا اس دولت میں مزید اضافہ کا باعث ہوتی ہے۔۔۔
اپنی منزل کے شوق میں ساحر
ہم تو کانٹوں سے بھی گزرتے ہیں
پیچھے مڑ کے کبھی نہیں دیکھا
جاکے منزل پہ ہی ٹہرتا ہوں
بڑھے ہیں آگے ہی پیچھے قدم نہیں آئے
بڑا حسین رہا میری شاعری کا سفر
حاسد کو پتہ کیوں نہ لگے میرے ہنر کا
ہر سمت مسرت کی فضا بانٹ رہا ہوں
فصل گل کی باتیں کرنے والے ساحر شیوی جو اپنے آنگن میں کھلے گلاب کی سادہ سی خوشبو کو ہی من پسند قرار دیتے ہیں ۔۔۔ کوئی رقیب نہ پیدا ہو دیکھ کر اس کو مجھے پسند ہے سادہ سا دلربا کا لباس
ساحر شیوی جو موسموں کو پیرہن پہناسکتے ہیں، انسانی رویوں کی تشخیص کرسکتے ہیں۔۔۔
تم اپنی ذات کو بدلو نہ موسموں کی طرح
کہ جیسے گرم کبھی سرد ہے ہوا کا لباس
ساحر شیوی جو علم کی اس معراج تک پہنچے ہوئے ہیں جہاں تجلیاں ہیں،جلوے ہیں۔۔۔
میں اس کو خواب میں دیکھوں ہے آرزو ساحر
سنا ہے نور کی کرنوں کا ہے خدا کا لباس
اندازِ تغزل ، اندازِ تغافل،شان ہی شان، غزل کی دیوی خود سرنگوں ہے، بے نیازی ایسی کہ سمندر کی لہریں پلٹ پلٹ کر ہنستی مسکراتی ساحل تک آتی ہیں،ان کی کشش مقناطیسی ہے یا شاید چقماق جیسی ہے کہ جو آگ بھی لگادیتا ہے، اس سورج کی کرنیں شیشے پر منعکس ہوکر مزید چکا چوند بڑھاتی ہیں، یہ دلکشی یہ خوبصورتی، شاعری کی دنیا کو سنوار رہی ہے۔۔۔ یہ دل کی بے نیازی اللہ اللہ
حسینوں پر بھی اب مائل نہیں ہے
محبت ایک دریا کی طرح ہے
مگر اس کا کوئی ساحل نہیں ہے
آئینہ چونکہ سچ ہی کہتا ہے
ہم اسے دیکھ کر سنورتے ہیں
ساحر شیوی جو کبھی خوش خرامی کرتےہوئے خوابوں کے تراشیدہ صنم خانے میں پہنچیں توپتلی کا تماشا بھی زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتے،خواب کا الجھا ہوا آنچل بھی ان کے نرم سبھاؤ کو گوارا نہیں،پھولوں کو لیئے کانٹوں کی رہگزر میں منتظر ساحر شیوی منظر کی دلکشی میں گم تو ہوتے ہیں لیکن درد کا درماں ہونا، ڈوبے کا سہارا بن جانا ہی ان کی منزل ہے
کبھی ساغر کبھی دریا میں اترنا اس کا
مجھ سے دیکھا نہ گیا پانی میں مرنا اس کا
پیش کش پھولوں کی کیوں کرتا نہ ساحر
اس کو کیا پسند آیا ہے کانٹوں سے گزرنا اس کا
حضرت علی سے کسی نے پوچھا کہ علم کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا:اگر کوئی تم پر ظلم کرے تو اسے معاف کردو، اگر کوئی تعلق جوڑے تو جوڑ لو، اگر کوئی تمہیں محروم کرے تو اسے نواز دو، اگر کسی سے انتقام لینا ہو تو عفو و درگزر سے کام لو ، اگر تمہیں غصہ آئے تو اسے پی جاؤ ایسی بات نہ کرو کہ بعد میں ندامت ہو، یہ علم ہے۔ ‘‘
لیم و ہنر تو زندگی کے انہی طور طریقوں اور اصولوں پر مبنی ہے جو عام فہم ہوں اور روز مرہ زندگی پر لاگو ہوں،نہ کہ بڑی بڑی کتابوں سے ثقیل الفاظ چن کر ،گنجلک اقتسابات کی نقل کر کے اس ڈھیر پر اپنی قابلیت کو سند دینا ہے،یہ تو زیادہ جہالت ہے ،بندر جب روٹی کے ٹکڑے کرنے لگیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے ہاتھ ایک بھی ٹکڑا نہیں آئے گا ،ہم تو اپنی ذات کے اندر بھی متعصب ہیں تو دوسروں کی فطرت کا بھلا کیسے تجزیہ کر سکتے ہیں، لیکن ادبی دنیا میں آجکل بے لاگ رائے دینا کسی کی شخصیت کو جانے بغیر اس کو کٹہرے میں کھڑا کر دینا رواج بن چکا ہے،
میں ان کے فن و ہنر کا قصیدہ تو پڑھ سکتی ہوں، لافانی ہونے کی مہر تو ثبت کر سکتی ہوں لیکن کوئی مضمون کو ئی تبصرہ کوئی جریدہ پیش کرنے کی بساط نہیں پاتی،مجھ سی ناچیز ہستی کے لیئے سلطانہ مہر صاحبہ نے برمنگھم میں ایک شام منائی اور جناب ِ شیوی اس محفل کی رونق بڑھانے نہ صرف تشریف لائے بلکہ میرے لیئے اپنے قیمتی الفاظ میں قصیدے کا تحفہ بھی پیش کیا،اس مہربان ہستی کو میں نے ہمیشہ اردو دانوں کی بستی میں ایسی سوغاتوں کو بانٹتے پایا ہے، ہر قلمکارکی شان بڑھانے کے لیئے بلا تخصیص اپنے فن کو عقیدتوں کا نذرانہ بنا دیتے ہیں، دنیائے ادب میں ان کی جانب سے یہ میرے لیئے اعزاز ہے کہ ’پرواز‘ کا ایک شمارہ میرے نام سے منسوب ہوا ،ساحر شیوی کے الفاظوں سے بنی جڑاؤ غزل میرے سخندان میں کھنکناتی رہتی ہے کہ۔۔۔
چرچے ہیں ہر سو فن شعری کے اس کے
اک ایسی ہے فنکار نینا فرزانہ
اپنے دین سے بھی اس کو ہے الفت
ہے اک اعلی کردار نینا فرزانہ
افلاک اردو کا تابندہ سورج
سب کی ہے دلدار نینا فرزانہ
قلبِ ساحر میں بھی اس کی عزت
سب کی ہے غمخوار نینا فرزانہ
شاعری ہے میری دولت بے حساب
اک طلائی کان ہے میری غزل
اس قدر ہنر مندی سے یہ شعر کہا گیا ہے کہ کہنے والے کے جوہری ہونے کا کوئی شبہ باقی نہیں رہتا، ایسا جوہری جس کے ہاتھ لگی ہوئی سونے کی کان سنہرے جڑاؤ زیورات کے لئے مواد اگلتی رہتی ہے، وہ حمد ہو یا نعت ،غزل ہو یا نظم،گیت ہو یا دوہا، قطعات ہوں یا رباعیات، کہہ مکرنیاں ہوں یا تکونیاں جدھر دیکھئے نوادرات کا ڈھیر جھلمل جھمل کر رہا ہے،اپنے تجربے اپنے مشاہدے بیش بہا الفاظ کی مالا میں پروکرخوبصورتی سے پیش کرنے والے ’ساحر شیوی‘ کی مادری زبان اردو نہیں لیکن اردو کی محبت میں سرشار اس زبان کے فروغ کے لیئے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں،ساحر شیوی کے نظریات پر اردو کی محبت کا رنگ خوب جما ہوا ہے۔۔۔
Subscribe to:
Posts (Atom)