Tuesday, November 6, 2012

Rafiuddin Raaz – نیلی فکر کی شاعرہ

Rafiuddin Raaz – نیلی فکر کی شاعرہ

i-dream-of.gif

نیلی فکر کی شاعرہ

 

پودے لگائے گئے ہوں یا قدرتی طور پر خود اگ آئے ہوں، انھیں دیکھ کر میں اکثر سوچتا ہوں کہ ان میں سے کتنےخوش قسمت پودے ہوں گے جو کبھی اپنے آپ کو تناور درخت کی صورت دیکھ سکیں گے، موسم کی سختی، زمین کا دکھ اور وقت کی نادیدہ رہ گذر، اتنے عذابوں کو سہنا کوئی آسان نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر پودا پورے قد کا درخت نہیں بن پاتا، اس حوالے سے جب میں ادب میں نئے لکھنے والوں کو دیکھتا ہوں تو یہاں بھی مجھے ایسا ہی خیال آتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ اپنی آنکھوں میں خواب سجائے تعبیر کی جستجو میں سرگرداں یہ نو واردِ ادب اس سفر کے دوران کیا آبلہ پائی کی اذیت کو جھیل لیں گے، آنکھوں سے بہتے ہوئےخون کو دامن میں جذب کرتے ہوئے ان کےحوصلے پست تو نہیں ہو جائیں گے، ان کے آئینہ صفت پیکر کیا پتھروں کی بارش کا تا دیر مقابلہ کر سکیں گے؟
میرے ایسے سوالوں کو کوئی سن رہا ہوتا ہے، فوراَ ہی سرگوشیوں میں مجھ سے کہتا ہے

’جس دیئےمیں جان ہوگی وہ دیا رہ جائےگا!

آج ایسا ہی اک دیا فرزانہ خان نیناں کی صورت محفلِ شعر و سخن میں فروزاں ہےاور اس کی لوَ اِس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ اس میں ہوا سے تا دیر لڑنے کی قوت موجود ہے، یہ محض ستائشی جملہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے وہ روشن امکانات واضح موجود ہیں جس کے تحت میں نے یہ جملہ لکھا ہے، فرزانہ نے اپنے پہلے مجموعے میں اپنے آپ کو شاعرہ تسلیم کروالیا ہے اور میری نظر میں یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے:

آدھی رات کے سپنے شاید جھوٹے تھے
یا پھر پہلی بار ستارے ٹوٹے تھے

تلاش کرتا ہے بستی میں جس کو شہزادہ
وہ مورنی کسی جنگل نے پال رکھی ہے

انگلیوں سے لہو ٹپکتا ہے
پھر بھی کلیاں پروئےجاتی ہیں

بدن کی چٹانوں پہ کائی جمی ہے
کہ صدیوں سے ساحل پہ تنہا کھڑی ہوں

خیمے اکھاڑتے ہوئے صدیاں گزر گئیں
کب تک رہیں گی ساتھ یہ خانہ بدوشیاں

یہ دیا بھی کہیں نہ بجھ جائے
جو ہوا سے چھپائے بیٹھی ہوں

بام و در ہیں ترے اشکوں سے فروزاں نیناں
گھر میں اچھا نہیں اس درجہ چراغاں نیناں

یہ اشعار اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ اس شاعرہ میں زندگی کا بھرپور ادراک موجود ہے، وہ زندگی جس کا تعلق یقین سے بھی ہے اور بد گمانی سے بھی، یہ زندگی کبھی انسان کو خود کلامی پر مجبور کرتی ہے تو کبھی اس کا وجود زمانے کی آواز سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہو جاتا ہے، کبھی انا کی لو اس کے احساس کو آنچ دکھاتی ہے تو کبھی انکسار کی نرمی اسے اوس کی بوند میں تبدیل کردیتی ہے، فرزانہ کے یہاں یہ تمام کیفیات ملتی ہیں، نسائی آواز کے مختلف رنگ ہمیں پروین شاکر، کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض وغیرہ کے یہاں ملتے ہیں، فرزانہ کے یہاں بھی نسائی آواز کا ایک الگ انداز ظہور کرتا دکھائی دےرہا ہے، اگر یہ شاعرہ ثابت قدمی سے اس راہ پر تادیر چلتی رہی تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی اس کے قدم نہ چومے۔

ہجر ایک ایسی حقیقت ہے جس کی آنچ کسی نہ کسی صورت عمر بھر انسان کے دامن سے لپٹی رہتی ہے، اس کا اظہار ہر شاعر اپنے طور پر کرتا ہے، فرزانہ نے ہجر کو یادیں اور انتظار کی صورت لکھا ہے اور خوب لکھا ہے، کچھ اشعار دیکھئے:

یاد میری بھی پڑی رہتی ہے تکیئے کے تلے
آخری خط کی طرح روز جلاتی ہوں اسے

میں سینت سینت کے رکھے ہوئے لحافوں سے
تمہارے لمس کی گرمی چرانے والی ہوں

ترے جنگل کی صندل ہوگئی ہوں
سلگنے سے مکمل ہوگئی ہوں

بدن نے اوڑھ لی ہے شال اس کی
ملائم، نرم، مخمل ہوگئی ہوں

مرے قریب ہی گو زرد شال رکھی ہے
بدن پہ میں نے مگر برف ڈال رکھی ہے

اوڑھ کے پھرتی تھی جو نیناں ساری رات
ریشم کی اس شال پہ یاد کے بوٹے تھے

چونکتی رہتی ہوں اکثر میں اکیلی گھر میں
کوئی تو ہے جو صدا دیتا ہے نیناں، نیناں

ہے لبریز دل انتظاروں سے میرا
میں کتبے کی صورت گلی میں گڑی ہوں

انھیں زینوں پہ چڑھتے کیسی کھنکھناتی تھی
نگوڑی پائل اب جو پاؤں میں کانٹے چبھوتی ہے

فرزانہ احساسات کی حدت کو کاغذ پر منتقل کرنے کا ہنر جانتی ہے اور یہ حدت صفحہء قرطاس تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ قاری کے رگِ احساس کو بھی اپنی پوری توانائی کے ساتھ چھوتی ہے، کسی جذبے کی حدت کو قاری کے دل تک پہنچانا آسان کام نہیں، بہت کم لوگ اتنی جلدی اس منزل تک پہنچ پاتے ہیں، فرزانہ کے اشعار کی جو زیریں رو ہے اُس میں ایک ایسا حجاب اور شرم ہے جو اپنے اظہار کے لئے کچھ آزادی چاہتی ہوئی دکھائی دیتی ہے لیکن فرزانہ نے دانستہ اسے ایسا کرنے سے روک رکھا ہے اور اس کی وجہ ہے۔۔۔

’درد کی نیلی رگیں‘ پڑھتےہوئےمجھ پر عجیب انکشاف ہوا، یہ فرزانہ خان نیناں جو انگلستان میں رہتی ہے وہ تو کلو ننگ شدہ نیناں ہے، اصل نیناں تو یہاں کی فضا میں قید ہے، اس کی سانسوں کی حدت تو اس فضا کی حرارت سے قائم ہے، اس زمین سے اس کا رشتہ زندگی اور موت کا ہے، انگلستان میں رہنے والی شاعرہ کی کچھ لفظیات دیکھئے :

جامن، الگنی، رہٹ، پیپل،اُپلی، گوٹھ، تھر، بھوبھل، آم کی گٹھلی ،بھاگ بھری، گڑیا، چھوئی موئی اور مورنی وغیرہ،

یہ کیسی ہجرت ہے جسم وہاں ، روح یہاں!

فرزانہ خان نیناں کی شاعری جن لفظیات کے گرد گھومتی ہے ان میں بیشتر لفظوں کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ شاعری کے لفظ نہیں ہیں، میرے نزدیک ہر لفظ شاعری کا لفظ ہے اگر کوئی شاعر اُس لفظ کو شعری آہنگ میں ڈھال دے تو!

انہیں لفظوں میں ایک لفظ لحاف ہے، دیکھئے فرزانہ نےلحاف کو کس طرح لکھا ہے:

میں سینت سینت کے رکھے ہوئے لحافوں سے
تمہارے لمس کی گرمی چرانے والی ہوں

فرزانہ کی شعری عمر ابھی بہت کم ہے اور فرزانہ نے لفظیات کے جس دشت میں پاؤں رکھا ہے وہ یقیناَ انتہائی محنت طلب کام ہے۔

اس سے پہلے کہ میں نظموں پر کچھ لکھوں فرزانہ کی غزلوں سے کچھ اور اشعار سنئے:

مجھے قوموں کی ہجرت کیوں تعجب خیز لگتی ہے
یہ کونجیں کس قدر لمبے سفر کرتی ہیں ڈاروں میں

میرے جگنو سے پر سلامت ہیں
میں تمہیں راستہ دکھاؤں گی

فون پر تم ملے ہو مشکل سے
گفتگو کو تمام مت کرنا

ابھی تک یاد ہے اس کی وجاہت
ملا تھا جو مجھے پچھلے جنم میں

طواف اس پر بھی تو واجب ہےنیناں کعبہء دل کا
ٹہر جا تو اسے بھی اس طرف دوگام آنے دے

چھوئی موئی کی ایک پتی ہوں
دور ہی سے مرا نظارہ کر

فرزانہ میں نظم کہنےکی بھرپور صلاحیت موجود ہے، بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ فرزانہ میں نظم کی ایک قابلِ ذکر شاعرہ ہونے کے روشن امکانات موجود ہیں، پہلی نظم ’جانے کہاں پہ دل ہے رکھا‘ ملاحظہ کیجئے:

آج کا دن بھی پھیکا پھیکا
کھڑکی سے چھپ کر تکتا ہے
میں ہاری یا وہ ہے جیتا
روز کا ہی معمول ہے یہ تو
کل بھی بیتا، آج بھی بیتا
درد بھی با لکل ہی ویسا ہے
تھوڑا تھوڑا میٹھا میٹھا
چولھا ،چوکا، جھاڑو، پونچھا
سب کچھ کر بیٹھی تب سوچا
ہر شئے جھاڑ کے پونچھ کے دیکھا
جانے کہاں پہ دل ہے رکھا!

چند لائنیں مختلف نظموں سے:

اگر میں پتھر کی لڑکی ہوتی
تو اپنے پیکر کی سبز رُت پر
بہت سی کائی اگایا کرتی
بہت سے تاریک خواب بُنتی

چاندنی کے ہالے میں کس کو کھوجتی ہو تم
چھپ کے یوں اداسی میں کس کو سوچتی ہو تم

بار بار چوڑی کے سُر کسے سناتی ہو
کھڑکیوں سے برکھا کو دیکھ کر بلکتی ہو

سارے سپنے آنکھوں سے ایک بار بہنے دو
رات کی ابھاگن کو تارہ تارہ گہنے دو
ماضی ،حال، مستقبل کچھ تو کورا رہنے دو!

:کل ملبوس نکالا اپنا
ہلکا کاسنی رنگت کا
دھڑ سے کھول کے دل کے پٹ کو
خوشبو سنَ سنَ کرتی آئی۔۔۔

اور ایک نظم آخری خواہش سے کچھ لائنیں دیکھئے:

ندی کنارےخواب پڑا تھا
ٹوٹا پھوٹا بے سدھ بےکل

لہریں مچل کر اس کو تکتیں
سانجھ سویرے آکر پل پل

سیپی چنتےچنتے میں بھی جانے کیوں چھو بیٹھی اس کو
یہ احساس ہو ا کہ اس میں روح ابھی تک جاگ رہی ہے
ہاتھ کو میرےاس کی حرارت دھیرے دھیرے تاپ رہی ہے
تب آغوش میں اس کو اٹھایا، اک اوندھی کشتی کےنیچے
تھوڑا سا رکھا تھا سایہ۔۔۔

چھوٹی نظموں پر فرزانہ کی گرفت بہتر دکھائی دیتی ہے جس کی مثال نظم ’پگلی‘ اور ’جانےکہاں پہ دل ہے رکھا‘ میں موجود ہے،
’درد کی نیلی رگیں‘ بلا شبہ ایک اچھی تخلیق ہےلیکن یہ فرزانہ کی منزل نہیں ہے، اس مجموعے نےحرف کے امکانات کے دَر وا کئے ہیں،
مجھے امید ہےکہ وہ جو کچھ حاصل کرنا چاہتی ہیں ،وہ حاصل کر لیں گی، اس لئے کہ ان کی شخصیت میں ایک اعتماد ہے،
وہ اعتماد جو کچھ کر لینے اور کچھ پالینے کے لئےضروری ہوتا ہے۔

رفیع الدین راز
کراچی

Quratul Ain Haider – قرۃ العین حیدر

Quratul Ain Haider – قرۃ العین حیدر

qurat-1_thumbnail.jpgqurat-4thumbnail1.jpgquratulain-3.jpgquratulain-41.jpg1-quratul-ain-haider.gif2-quratul-ain-haider.gif3-quratul-ain-haider.gif4-quratul-ain-haider.gif5-quratul-ain-haider.gif6-quratul-ain-haider.gif7-quratul-ain-haider.gif8-quratul-ain-haider.gif9-quratul-ain-haider.gif10-quratul-ain-haider.gif11-quratul-ain-haider.gif12-quratul-ain-haider.gif13-quratul-ain-haider.gif14-quratul-ain-haider.gif15-quratul-ain-haider.gif16-quratul-ain-haider.gif17-quratul-ain-haider.gif18-quratul-ain-haider.gif19-quratul-ain-haider.gif20-quratul-ain-haider.gif21-quratul-ain-haider.gif22-quratul-ain-haider.gif23-quratul-ain-haider.gif24-quratul-ain-haider.gif25-quratul-ain-haider.gif26-quratul-ain-haider.gif27-quratul-ain-haider.gif

Prof.Seher Ansari – دریاۓ نیل کا سفر

Prof.Seher Ansari – دریاۓ نیل کا سفر


Prof: Seher Ansari

” درد کی نیلی رگیں“ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ شاعرہ کے اپنے شعری رویئےاور زندگی کی فکر

میں ان کا جو سانچہ ہے وہ ذرا مختلف سا نظر آتا ہے، اس میں سب سے پہلی بات تو یہ کہ اس کتاب

کا سائز اوراور اس کی پروڈکشن بیحد منفرد ہے۔

فرزانہ نے ایک کتاب کی جو عام طریقوں سے تیاری ہوتی ہےاس کی ترکیب کو مختلف انداز سے پیش کیا ہے، پھر اس کے ساتھ یہ ہے کہ شاعری میں ایک ایسی شدت احساسات کی سمودی ہے کہ کلام پڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ معلوم ہوتا کہ واقعی یہ شاعری کو زندگی میں برتتی ہیں اور اپنے گردو پیش کی جو زندگی ہے اس میں فطرت اور مختلف انسانوں کو اپنی شاعری میں سموتی ہیں۔اسی کو آپ دیکھ لیجئے تو اندازہ ہوتا ہےکہ وہ انفرادیت اور پامال رستوں سے ہٹنے کا رویہ اپنی زندگی میں رکھتی ہیں،۔

فرزانہ نے جس طرح نثر میں بھی جو بات لکھی ہے کہ مولسری کی شاخوں میں چھپا دیتی ہوں جن پر میں تپتی دوپہروں میں مولسریاں کھا کر اس کی گٹھلیاں راہگیروں کو مار کر اپنے آپ کو ماورائی شخصیت سمجھتی تھی، ایک اور بات یہ کہ موہنجو ڈارو کےقبرستان میں شاعری کھڑا کر دیتی ہیں، جہاں ماں باپ کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے ہوئے میں کانچ گھڑی میں ریت کی مانند بکھرنے لگتی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔

یہ ایک ایکویژن ہے کہ موہنجو ڈارو کی پوری تہذیب اس وقت اور اس کے ساتھ پھر اپنےماں باپ کی قبر، فاتحہ اور اس کےساتھ پھر وقت ریت کی طرح گزارنے کی کیفیت، یہ وہ چیزیں ہیں کہ جن سےمعلوم ہوتا ہےکہ محسوسات کو ایک تجسیمی شکل میں دیکھنا اور انھیں پیش کرنا یہ شاعری کی ایک بہت بڑی خصوصیت ہے، فیض صاحب کی ایک نظم میں ہےکہ”درد کی کاسنی پازیب بجاتی نکلی“ تو اب دیکھئے درد کی کاسنی پازیب اور ”درد کی نیلی رگیں“ تو ایک غیر مرئی چیز ہی”درد“ اس کو آنکھوں سےدکھا دینا، محسوس کرادینا جو کہ نظر نہیں آتا ہےوہ نیلی رگوں کےذریعےہی ممکن تھا، تو یہ بات پوری شاعری میں نظر آتی ہے کہ محسوسات کو تمثیلوں کے ذریعے تصویروں کی طرح اجاگر کیا گیا ہے کہ شاعرہ کے تخیل کو اور ان کےمحسوسات کی دنیا کو، ہم ان کی شاعری میں پوری طرح پالیتےہیں،

میں نے جتنے اشعار منتخب کئے تھے وہ سنائے جا چکے ہیں، پھر بھی اس طرح ہے کہ

اک وراثت کی طرح گاؤں کی گڑ سی باتیں
گٹھڑیاں باندھ کےاس دل کےنگر آتی ہیں



تو اب اس طرح کی جو امیجری ہے آپ دیکھیں گے کہ پراندہ ہے، رہٹ، مور پنکھ ،اوک میں پانی بھرنا وغیرہ ۔ ۔ ۔

جن کو شاعری کی دنیا میں ہم غیر شاعرانہ الفاظ کہتے ہیں، شاعری وہیں اپنا جوہر دکھاتی ہےکہ جہاں لفظ جنھیں آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بے جان ہیں یا اس کا استعمال غیر شاعرانہ ہوجائےگا وہاں شاعر اپنی تخلیقی قوت سےاس کو ایک نئی زندگی دے تو وہ ہی دراصل شاعری کا اصلی جوہر ہوتا ہے، ایسی کئی مثالیں نیناں کی شاعری میں نظر آتی ہیں ۔ ۔ ۔

تمہیں گلاب کے کھلنے کی کیا صدا آتی
تمہارے گرد تو ہر وقت صرف پیسا ہے

تو زندگی کو انھوں نےجس طرح دیکھا ہے وہ بھی ایسےماحول میں رہتے ہوئے جہاں آپ دیکھیں گےکہ انسان کی کوئی قدر نہیں ہے، جذبِ زَر کا ایک رحجان پایا جاتا ہے اور اس کے بارے میں نظیر اکبر آبادی نے کہا ہے کہ

”کوڑی کےساتھ جہان میں نصب نہ دین ہے کوڑی کےپھر تین تین ہیں“

تو وہاں ان قدروں کو محسوس کرنا کہ پیسہ اور دولت کوئی قدر نہیں ہے اصل چیز تو یہ ہے کہ آپ کے کانوں تک گلاب کے چٹکنے کی صدا پہنچ سکی، شدید جذبات ہیں اور لطیف جذبات ہیں، نیناں نے مختلف حوالوں سے محسوس کیا ہے اب جیسے ہمارے معاشرے کی زندگی میں کارو کاری کا بہت ذکر ہوتا ہے ۔۔۔۔

کے مختلف مسائل بھی آتے رہتے ہیں اب ان کو شعروں میں اس طرح ڈھالنا کہ Honour

قبیلے کےخنجر بھی لٹکے ہوئے ہیں

کھڑی ہیں جہاں لڑکیاں دل کو ہارے

تو اب یہ جو ہے کہ ۔ ۔ ۔

لگا تار روتی ہے لہروں کی پائل

سدا جھیل میں ہیں شکاری شکارے


ان کی غزلوں اور نظموں میں جو نئے الفاظ کی تلاش ہے اس کو آپ رعایتِ لفظی نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ اپنی معنویت کے ساتھ ہیں جیسے” شکاری اور شکارے“ میں جو معنوی کیفیت ہے وہ پوری طرح واضح ہوجاتی ہے ۔ ۔ ۔


پیاسوں کے واسطے یہی نیناں بھرے بھرے
جلتے جھلستے تھر میں کبھی رکھ دیا کرو

ہے بلند آدمی ذہانت سے

ذہنیت پست ہے تو پستہ ہے


اب یہ جو بات لکھی ہے کہ میں سماجی مسائل کی بابت نہیں لکھتی، یہ سماجی زندگی تو خود بخود شاعر کے اندر آجاتی ہے اگر اس میں کوئی شعور
موجود ہے کیونکہ کسی انتہائی باطنی اور داخلی تجربے کو یہ محسوس کریں کہ اس کا کوئی خارجی حوالہ نہیں ہے تو تجزیئے سے معلوم ہوگا کہ وہ بھی کسی خارجی حوالے کے ذریعے آپ تک پہنچا ہے ۔ ۔ ۔


دھوپ گر نہ صحرا کےراز کہہ گئی ہوتی
میں تو بہتےدریا کےساتھ بہہ گئی ہوتی



ان کےاشعار میں بے ساختگی کے ساتھ مصرعوں کی جو پوری ساخت نظر آتی ہے اس میں پورا ایک سانس کا اتارچڑھاؤ جو کہ شاعری کے لئے بہت ضروری ہے وہ مصرعوں میں پوری طرح محسوس ہوتا ہے، اس پر کم گفتگو ہوئی ہے، نظموں پر بھی کم گفتگو ہوئی ہے، نظموں میں ایک اہم بات یہ ہےکہ خیال کی ہر لہر شروع سےآخر تک ایک رہے اور اس میں نامیاتی اکائی یا آنریری یونٹی ایک رہے اور وہ نامیاتی اکائی ان کی نظموں میں نظر آتی ہے ۔ ۔ ۔


کڑی دھوپ میں چلتےچلتے سایہ اگر مل جائے۔۔۔ تو

اک قطرے کو ترستے ترستے، پیاس اگر بجھ جائے۔ ۔ ۔ تو
برسوں سے خواہش کے جزیرے ویراں ویراں اجڑے ہوں
اور سپنوں کےڈھیر سجا کر کوئی اگر رکھ جائے۔۔۔ تو

بادل، شکل بنائیں جب نیل آکاش پہ رنگوں کی
ان رنگوں میں اس کا چہرہ آکےاگر رک جائے۔۔۔ تو

خاموشی ہی خاموشی ہو دل کی گہری پاتالوں میں
کچھ نہیں کہتے کہتے گر کوئی سب کہہ جائے ۔ ۔ ۔ تو
زندہ رہنا سیکھ لیا ہو سارے دکھوں سے ہار کے جب
بیتے سپنے پا کے خوشی سے کوئی اگر مر جائے۔۔۔ تو



یہ پوری اکائی ایک خیال کی موجود ہے اگر اس میں سے یہ نکال دی جائے تو یہ محسوس ہوجاتا ہے کہ اس میں ایک کمی واقع ہوگئی ہے، ان کے یہاں نظموں میں انفرادیت ہے، نیناں پہلے بھی یہاں آچکی ہیں جب بھی سنا اور اب بھی، یہ ثابت ہوا ہے کہ ان کے یہاں دوسروں سے مختلف ایک انفرادیت موجود ہے اور یہ دوسروں سے الگ لہجہ، اپنی شاعری کا راستہ، رخ اور انداز بنا رہی ہیں، لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے اور اس کا احساس ان کی اس نظم میں نمایاں ہے کہ:

اپنا راستہ ڈھونڈنا اکثر اتنا سہل نہیں ہوتا ہے
لوگوں کےاس جنگل میں، چلنا سہل نہیں ہوتا ہے
یہ تو کوئی جگنو ہےجو لے کر روشن سی قندیل
کبھی کبھی یوں راہ بنائی، جیسے ہو دریائےنیل

تو یہ حقیقت ہے کہ انفرادیت کا راستہ شاعری میں بنانا، جہاں اتنی آوازیں ہیں اتنے لہجے ہیں، تو یہ واقعی اک دریائے نیل کا سا سفر ہے جو اپنا راستہ خود بناتا چلا جاتا ہے۔۔۔

مجھے اس کی پوری امید ہے کہ یہ دریائے سخن اسی طرح بہتا رہے گا اور یہ دریائے نیل جو کہیں جاکر سفید بھی ہو جاتا ہےوہ اپنے رنگ اجاگر کرتا رہے گا ، میں ان کو بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نےایک بہت اچھا مجموعہ اردو شاعری کو عنایت کیا ہے۔ ۔ ۔ شکریہ

پروفیسر سحر انصاری ۔ ۔ ۔ کراچی


Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...