Prof.Seher Ansari – دریاۓ نیل کا سفر
” درد کی نیلی رگیں“ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ شاعرہ کے اپنے شعری رویئےاور زندگی کی فکر
میں ان کا جو سانچہ ہے وہ ذرا مختلف سا نظر آتا ہے، اس میں سب سے پہلی بات تو یہ کہ اس کتاب
کا سائز اوراور اس کی پروڈکشن بیحد منفرد ہے۔
فرزانہ نے ایک کتاب کی جو عام طریقوں سے تیاری ہوتی ہےاس کی ترکیب کو مختلف انداز سے پیش کیا ہے، پھر اس کے ساتھ یہ ہے کہ شاعری میں ایک ایسی شدت احساسات کی سمودی ہے کہ کلام پڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ معلوم ہوتا کہ واقعی یہ شاعری کو زندگی میں برتتی ہیں اور اپنے گردو پیش کی جو زندگی ہے اس میں فطرت اور مختلف انسانوں کو اپنی شاعری میں سموتی ہیں۔اسی کو آپ دیکھ لیجئے تو اندازہ ہوتا ہےکہ وہ انفرادیت اور پامال رستوں سے ہٹنے کا رویہ اپنی زندگی میں رکھتی ہیں،۔
فرزانہ نے جس طرح نثر میں بھی جو بات لکھی ہے کہ مولسری کی شاخوں میں چھپا دیتی ہوں جن پر میں تپتی دوپہروں میں مولسریاں کھا کر اس کی گٹھلیاں راہگیروں کو مار کر اپنے آپ کو ماورائی شخصیت سمجھتی تھی، ایک اور بات یہ کہ موہنجو ڈارو کےقبرستان میں شاعری کھڑا کر دیتی ہیں، جہاں ماں باپ کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے ہوئے میں کانچ گھڑی میں ریت کی مانند بکھرنے لگتی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔
یہ ایک ایکویژن ہے کہ موہنجو ڈارو کی پوری تہذیب اس وقت اور اس کے ساتھ پھر اپنےماں باپ کی قبر، فاتحہ اور اس کےساتھ پھر وقت ریت کی طرح گزارنے کی کیفیت، یہ وہ چیزیں ہیں کہ جن سےمعلوم ہوتا ہےکہ محسوسات کو ایک تجسیمی شکل میں دیکھنا اور انھیں پیش کرنا یہ شاعری کی ایک بہت بڑی خصوصیت ہے، فیض صاحب کی ایک نظم میں ہےکہ”درد کی کاسنی پازیب بجاتی نکلی“ تو اب دیکھئے درد کی کاسنی پازیب اور ”درد کی نیلی رگیں“ تو ایک غیر مرئی چیز ہی”درد“ اس کو آنکھوں سےدکھا دینا، محسوس کرادینا جو کہ نظر نہیں آتا ہےوہ نیلی رگوں کےذریعےہی ممکن تھا، تو یہ بات پوری شاعری میں نظر آتی ہے کہ محسوسات کو تمثیلوں کے ذریعے تصویروں کی طرح اجاگر کیا گیا ہے کہ شاعرہ کے تخیل کو اور ان کےمحسوسات کی دنیا کو، ہم ان کی شاعری میں پوری طرح پالیتےہیں،
میں نے جتنے اشعار منتخب کئے تھے وہ سنائے جا چکے ہیں، پھر بھی اس طرح ہے کہ
اک وراثت کی طرح گاؤں کی گڑ سی باتیں
گٹھڑیاں باندھ کےاس دل کےنگر آتی ہیں
تو اب اس طرح کی جو امیجری ہے آپ دیکھیں گے کہ پراندہ ہے، رہٹ، مور پنکھ ،اوک میں پانی بھرنا وغیرہ ۔ ۔ ۔
جن کو شاعری کی دنیا میں ہم غیر شاعرانہ الفاظ کہتے ہیں، شاعری وہیں اپنا جوہر دکھاتی ہےکہ جہاں لفظ جنھیں آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بے جان ہیں یا اس کا استعمال غیر شاعرانہ ہوجائےگا وہاں شاعر اپنی تخلیقی قوت سےاس کو ایک نئی زندگی دے تو وہ ہی دراصل شاعری کا اصلی جوہر ہوتا ہے، ایسی کئی مثالیں نیناں کی شاعری میں نظر آتی ہیں ۔ ۔ ۔
تمہیں گلاب کے کھلنے کی کیا صدا آتی
تمہارے گرد تو ہر وقت صرف پیسا ہے
تو زندگی کو انھوں نےجس طرح دیکھا ہے وہ بھی ایسےماحول میں رہتے ہوئے جہاں آپ دیکھیں گےکہ انسان کی کوئی قدر نہیں ہے، جذبِ زَر کا ایک رحجان پایا جاتا ہے اور اس کے بارے میں نظیر اکبر آبادی نے کہا ہے کہ
”کوڑی کےساتھ جہان میں نصب نہ دین ہے کوڑی کےپھر تین تین ہیں“
تو وہاں ان قدروں کو محسوس کرنا کہ پیسہ اور دولت کوئی قدر نہیں ہے اصل چیز تو یہ ہے کہ آپ کے کانوں تک گلاب کے چٹکنے کی صدا پہنچ سکی، شدید جذبات ہیں اور لطیف جذبات ہیں، نیناں نے مختلف حوالوں سے محسوس کیا ہے اب جیسے ہمارے معاشرے کی زندگی میں کارو کاری کا بہت ذکر ہوتا ہے ۔۔۔۔
کے مختلف مسائل بھی آتے رہتے ہیں اب ان کو شعروں میں اس طرح ڈھالنا کہ Honour
قبیلے کےخنجر بھی لٹکے ہوئے ہیں
کھڑی ہیں جہاں لڑکیاں دل کو ہارے
تو اب یہ جو ہے کہ ۔ ۔ ۔
لگا تار روتی ہے لہروں کی پائل
سدا جھیل میں ہیں شکاری شکارے