Welcome to the Urdu Poetry Archive! Urdu poetry is like a vast ocean. Walking along its shores on the sands of time, I have gathered a few gems that I would like to share with you.
Tuesday, November 6, 2012
Jazib Quereshi – روشنی کی تازہ لپک
عرب امارات ،برطانیہ، امریکا، کینیڈا کےدرمیان جو پاکستانی اپنےاپنےدائروں میں رہ کر تہذیبی و ثقافتی روایات کےساتھ ساتھ اردو زبان کی نئی تاریخ رقم کر رہےہیں ان میں نوٹنگھم میں آباد فرزانہ خان نیناں بھی شامل ہیں، نوٹنگھم میں فرزانہ نےایک ادبی اور ثقافتی تنظیم’بزمِ علم و فن‘ کےتحت اردو کا چراغ جلایا ہوا ہےجس کےزیرِ اہتمام مشاعری، جلسےاور مختلف ادبی و سماجی تقریبات ہوتی رہتی ہیں اور پاکستان سےجانےوالےاستفادہ کرتےرہتےہیں ۔
آسماں کےرنگوں میں رنگ ہےشہابی سا
حرف پیار کےسارےآگئےتھےآنکھوں میں
پارس نےدفعتاََ مجھےسونا بنا دیا
فرزانہ کےجسم و جاں پر محبتوں کےاثرات کو مختلف کیفیت میں دیکھا جا سکتا ہے
کسی کےعکس میں کھوئی ہوں اتنی
اشکوں کےپانیوں میں اترا کسی کا چہرہ
کیسا عجب سفر ہےدل کی مسافتوں کا
بسی ہےیاد کوئی آکےمیرےکاجل میں
اُسی چراغ کی لوَ سےیہ دل دھڑکتا ہے
پھرتی ہےمیرےگھر میں اماوس کی سرد رات
جی چاہتا ہےرات کےبھرپور جسم سے
شام ڈھلنےسےمجھےدیکھ سحر ہونےتک
روز دیکھا ہےشفق سےوہ پگھلتا سونا
یہ دیکھ کتنی منور ہےمیری تنہائی
مثالِ برق چمکتی ہوں بےقراری میں
تتلیاں ہی تتلیاں ہیں تم جو میرےساتھ ہو
میرےچہرےمیں چمکتا ہےکسی اور کا
ممکن ہےاس کو بھی کبھی لےآئےچاندرات
مری خا مشی میں بھی اعجاز آئے
چاند رکھا ہےکہیں دھوپ کہیں رکھی ہے
تلاش بستی میں کرتا ہےجس کو شہزادہ
عورت کا ذہن مرد کی اس کائنات میں
قبیلےکےخنجر بھی لٹکےہوئےہیں
انگلیوں سےلہو ٹپکتا ہے
سب اختیار اس کا ہےکم اختیار میں
تھل سےکسی کا اونٹ سلامت گزر گیا
بدن کی چٹانوں پہ کائی جمی ہے کہ
خلا سےمجھےآرہی ہیں صدائیں مگر
سزا بےگناہی کی بس کاٹتی ہوں
دھوپ گر نہ صحرا کےراز کہہ گئی ہوتی
بام و در ہیں ترےاشکوں سےفروزاں نیناں
لگتا ہےمجھ کو میں کسی مردہ بدن میں تھی
خیال رکھنا ہےپیڑوں کا خشک سالی میں
قدم روکتا کب سیہ پوش جنگل
سمندر کو صحراؤں میں لےکےآتے
پہنچتی اتر کر حسیں وادیوں میں
تمہیں گلاب کےکھلنےکی کیا صدا آتی
نجانےکیسےگزاروں گی ہجر کی ساعت
اوڑھےپھرتی تھی جو نیناں ساری رات
سیب اور چیری تو روز لےکےآتی ہوں
شوخ نظر کی چٹکی نےنقصان کیا
اُسےجو دھوپ لئےدل کےگاؤں میں اترا
میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
کان میں میں نےپہن لی ہےتمہاری آواز
روز آجاتی ہوں کمرےمیں ہوا کی صورت
کوئی بھی نہ دیوار پر سےپکاری
مرےوجود سےقائم ہیں بام و درمیرے
بہشت ہی سےمیں آئی زمین پر لیکن
یہ جانتےہوئےکوئی وفا شناس نہیں
میں نےفرزانہ کی نظمیں بھی پڑھی ہیں، ان نظموں میں’دریائےنیل، پگلی، پتھر کی لڑکی، سوندھی خوشبو، آخری خواہش، پہلی خوشی، ناریل کا پیڑ، اور ماں جیسی نظمیں خوبصورتی کےساتھ لکھی گئی ہیں اور احساس و خیال کو زندگی کی سچائیوں سےجوڑ دیتی ہیں،
شوخ بوندوں کی طرح جاکےاٹک جاتےہیں
رات کےخالی کٹورےکو لبالب بھر کے
صبح کےروپ میں جب دیکھنےجاتی ہوں اسے
بخش دیتی ہوں مناظر کو روپہلا ریشم
نیلگوں جھیل میں ہےچاند کا سایہ لرزاں
کیسا نشہ ہےسرخ پھولوں میں
زلف کو صندلی جھونکا جو کبھی کھولےگا
فرزانہ کی شعری جمالیات، لفظیات اور امیجز خوبصورتی و اثر پذیری کےساتھ اظہار میں آئی ہیں ، پاکستان کی تہذیبی و ثقافتی اور ادبی و معاشرتی
جاذب قریشی
Jazib Quereshi – روشنی کی تازہ لپک
Jazib Quereshi – روشنی کی تازہ لپک
روشنی کی تازہ لپک
عرب امارات ،برطانیہ، امریکا، کینیڈا کےدرمیان جو پاکستانی اپنےاپنےدائروں میں رہ کر تہذیبی و ثقافتی روایات کےساتھ ساتھ اردو زبان کی نئی تاریخ رقم کر رہےہیں ان میں نوٹنگھم میں آباد فرزانہ خان نیناں بھی شامل ہیں، نوٹنگھم میں فرزانہ نےایک ادبی اور ثقافتی تنظیم’بزمِ علم و فن‘ کےتحت اردو کا چراغ جلایا ہوا ہےجس کےزیرِ اہتمام مشاعری، جلسےاور مختلف ادبی و سماجی تقریبات ہوتی رہتی ہیں اور پاکستان سےجانےوالےاستفادہ کرتےرہتےہیں ۔
فرزانہ نےاپنی شاعری اور اپنی ذات کےحوالےسےجو کچھ خود لکھا ہےوہ اپنی نوعیت میں نیا بھی ہےاور ان کی شاعری کےپس منظر کو سمجھنےمیں مدد بھی دیتا ہے، وہ لکھتی ہیں کہ
’میری شاعری میرےبچپن اور جوانی کی کائنات کےرنگوں میں ڈھلی ہےاور نیلگوں وسیع و عریض آسمان میری شاعری کا کینوس ہے،میری شاعری ایک ایسی دنیا ہےجہاں میں کچھ پل کےلئےسب کی نظروں سےاوجھل ہوکر شہرِ سبا کی سیڑھیاں چڑھتی ہوں۔۔۔۔‘
فرزانہ نےشاعری کےلئےجس دنیا کا انتخاب کیا ہےوہ نئی توہےموسم اور ان موسموں کےرنگ تازہ اور خوبصورت ضرور ہیں لیکن اس دنیا کی اور شکل بھی ہی،فرزانہ محبتوں کی شاعرہ ہیں، ان میں جدید انفرادیت کی علامت بننےکا سارا ہنر موجود ہی، فرزانہ کا مشاہداتی تخیل ایسی روشنیوں کےساتھ سفر کرتا ہےجو زمانوں کی گردشوں میں ہےاور انہیں پہچاننےکا ہنر بھی جانتا ہے، فرزانہ پرانےاور نئےوقت کےچہروں میں تازہ مماثلتیں اور جدید شباہتیں تلاش کر لیتی ہیں، اس طرح ان کےلئےانسانی تاریخ اور اعلیٰ قدریں تسلسل کےساتھ ایک ہی زندگی کی داستان بن گئی ہیں، اپنےجسم و جاں کی محبتوں کو جس انداز میں فرزانہ نےلکھا ہےوہ انداز دیارِ غیر میں آباد پاکستانی شاعرات میں کم ہی نظر آئےگا، فرزانہ نےمحبوب سےاپنےوجود کو اور اپنےوجود سےمحبوب کی یادوں کوجس طرح وابستہ کر رکھا ہےاس کی چند مثالیں دیکھئے:
آسماں کےرنگوں میں رنگ ہےشہابی سا
دھیان میں ہےوہ چہرہ ایک ماہتابی سا
حرف پیار کےسارےآگئےتھےآنکھوں میں
جب لیا تھا ہاتھوں میں چہرہ وہ کتابی سا
پارس نےدفعتاََ مجھےسونا بنا دیا
قسمت سےآج ہوگئی سرمایہ دار میں
فرزانہ کےجسم و جاں پر محبتوں کےاثرات کو مختلف کیفیت میں دیکھا جا سکتا ہے
:
بدن نےاوڑھ لی ہےشال اس کی
ملائم، نرم، مخمل ہوگئی ہوں
کسی کےعکس میں کھوئی ہوں اتنی
خود آئینےسےاوجھل ہوگئی ہوں
اشکوں کےپانیوں میں اترا کسی کا چہرہ
بہتا ہوا اچانک دریا ٹہر گیا ہے
کیسا عجب سفر ہےدل کی مسافتوں کا
میں چل رہی ہوں لیکن رستہ ٹہر گیا ہے
بسی ہےیاد کوئی آکےمیرےکاجل میں
لپٹ گیا ہےادھورا خیال آنچل میں
اُسی چراغ کی لوَ سےیہ دل دھڑکتا ہے
جلائےرکھتی ہوں جس کو شبِ مسلسل میں
درختوں کےسبز پتوں کےدرمیان،محبتوں کی بچھڑی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور یادوں کا چراغ تنہائیوں میں جلتا رہتا ہے، پھر اس چراغ کےاجالےمیں محبوب سےملنےاور گفتگو کرنےکا موسم بھی اتر آتا ہے، ایسا مکالمہ شاعری میں ڈرامائی عناصر کی تخلیق کرتا ہےاور زندگی کےروز وشب میں پیش آنےوالےمعاملات و تجربات فنی و تخلیقی اظہار بن جاتےہیں، اس حوالےسےفرزانہ کی باتیں سنی جاسکتی ہیں:
پھرتی ہےمیرےگھر میں اماوس کی سرد رات
دالان میں کھڑی ہوں بہت بےقرار میں
جی چاہتا ہےرات کےبھرپور جسم سے
وحشت سمیٹ لوں تری دیوانہ وار میں
شام ڈھلنےسےمجھےدیکھ سحر ہونےتک
کیسےامید کو ارمان بناتی ہوں میں
روز دیکھا ہےشفق سےوہ پگھلتا سونا
روز سوچا ہےکہ تم میرےہو میرےہونا
یہ دیکھ کتنی منور ہےمیری تنہائی
چراغ بامِ مژہ پر ہزار رکھتی ہوں
مثالِ برق چمکتی ہوں بےقراری میں
میں روشنی کی لپک برقرار رکھتی ہوں
تتلیاں ہی تتلیاں ہیں تم جو میرےساتھ ہو
دلنشیں موسم ہےجیسےدھوپ میں برسات ہو
یادوں اور ملاقاتوں کےبعد محبتوں کےدرمیان آباد رہنےکا ایک تیسرا امکان بھی ہےجسےشاعری کی زبان میں خود کلامی بھی کہا جاتا ہے، خود کلامی ایک ایسی داخلی گفتگو ہےجس میں کوئی تخلیق کار یا کوئی عام شخص اپنےآپ سےباتیں کرتا ہےان باتوں میں بچھڑےہوئےلمحوں کی بازیافت کو لفظوں میں پکارا جاتا ہےیا امکانی زمین و آسمان کا تذکرہ ہوتا ہے:
میرےچہرےمیں چمکتا ہےکسی اور کا
عکس آئنہ دیکھ رہا ہےمجھےحیرانی سے
ممکن ہےاس کو بھی کبھی لےآئےچاندرات
کچھ پھول سونےگھر میں کبھی رکھ دیا کرو
مری خا مشی میں بھی اعجاز آئے
کسی سمت سےکوئی آواز آئی
چاند رکھا ہےکہیں دھوپ کہیں رکھی ہے
رہ گیا ہےمرےگھر میں ترا ساماں نیناں
تلاش بستی میں کرتا ہےجس کو شہزادہ
وہ مورنی کسی جنگل نےپال رکھی ہے
عورت کی اہمیت اور اس کی بےتوقیری کےدرمیان بہت سی پرچھائیاں، بہت سی دیواریں کھڑی ہیں، ترقی یافتہ قومیں عورت کےلئےوہ سب کچھ کر چکی ہیں جس نےوہاں کی نسائی دنیا کو انفرادی اور اجتماعی طور پر مادر پدر آزادی کا حق دار بنادیا ہے، ترقی پذیر قوموں میں یا تیسری دنیا کےدرمیان عورت کےپورے پن کو ماننےکی آوازیں تیز تر ہوتی جارہی ہیں، عورت کی آزادیوں اور اس کی بنیادی ضرورتوں کےلئےانسانی تاریخ نےجس چیز کو اور جس نا انصافی کو لکھا ہےاس کےسامنےعدل کی ترازو تو رکھنی پڑےگے، فرزانہ نےکوئی نعرہ تو نہیں لگایا اور عورت کی طرف سےفرزانہ کےہاتھوں میں انقلاب یا بغاوت کا کوئی جھنڈا بھی نہیں ہےمگر انہوں نےعورت کےاجتماعی اور انفرادی دکھوں تک اپنےقلم کےسفر کو بڑھایا ضرور ہے، اجتماعی عورت کےبارےمیںچند مثالیں دیکھئے:
عورت کا ذہن مرد کی اس کائنات میں
اب تک ہےالجھنوں کا نشانہ بنا ہوا
قبیلےکےخنجر بھی لٹکےہوئےہیں
کھڑی ہیں جہاں لڑکیاں دل کو ہاری
انگلیوں سےلہو ٹپکتا ہے
پھر بھی کلیاں پروئےجاتی ہیں
سب اختیار اس کا ہےکم اختیار میں
شاید اسی لئےہوئی بےاعتبار میں
تھل سےکسی کا اونٹ سلامت گزر گیا
راہَ وفا میں رہ گئی مثلِ غبار میں
بدن کی چٹانوں پہ کائی جمی ہے کہ
صدیوں سےساحل پہ تنہا کھڑی ہوں
خلا سےمجھےآرہی ہیں صدائیں مگر
میں تو پچھلی صدی میں جڑی ہوں
فرزانہ کا خیال ہےکہ عورت کی روح کیسےمضبوط ہو سکتی ہےجبکہ اس کا جسم ہی کمزور بنایا گیا ہے، مگر عورت کربِ ذات کو نئی زندگی کی ایک سچی خوشی سمجھتی ہے، فرزانہ جب اپنےذاتی تجربوں کو اظہار میں لاتی ہیں تو وہ بہت سی دوسری عورتوں کا بیانیہ بھی بن جاتی ہیں:
سزا بےگناہی کی بس کاٹتی ہوں
کہاں مجھ کو جینےکےانداز آئے
وہ جن کی آنکھ میں ہوتا ہےزندگی کا ملا ل
اسی قبیلےسےخود کو ملانا چاہتی ہوں
میری تقدیر سےوہ بابِ اثر بند ملا
جب دعاؤں کےپرندوں نےاترنا چاہا
دھوپ گر نہ صحرا کےراز کہہ گئی ہوتی
میں تو بہتےدریا کےساتھ بہہ گئی ہوتی
بام و در ہیں ترےاشکوں سےفروزاں نیناں
گھر میں اچھا نہیں اس درجہ چراغاں نیناں
لگتا ہےمجھ کو میں کسی مردہ بدن میں تھی
جینےکا حوصلہ جو ملا اجنبی لگا
فرزانہ کہتی ہیں کہ عورت نےگھر کےآنگن کو زندگی کی نرم اور گرم دھوپ سےبھر دیا ہےلیکن آنکھوں کےآبشار بارشوںکی تمثیل بنےہوئےہیں، عورت کی محبتوں کا آنچل فرزانہ نے آرزوؤں کےستاروں سےبھرا ہوا ہے، وہ ابھی اپنےآنچل پر کچھ تازہ ستارےٹانکنا چاہتی ہے، فرزانہ نےعورت کےانفرادی اور اجتماعی حوصلےکو بڑھانا چاہا ہے، انھوں نےلکھا ہےکہ:
خیال رکھنا ہےپیڑوں کا خشک سالی میں
نکالنی ہےمجھےجوئےشیر جنگل میں
قدم روکتا کب سیہ پوش جنگل
امیدوں کےجگنو اُڑائےتو ہوتے
سمندر کو صحراؤں میں لےکےآتے
کچھ انداز اپنےسکھائےتو ہوتے
پہنچتی اتر کر حسیں وادیوں میں
پہاڑوں پہ رستےبنائےتو ہوتے
درد کی نیلی رگیں پڑھتےہوئےایک ایسا تجربہ سامنےآیا ہےجو ہمارےعہد کی شاعری میں کم موجود ہے، ہر دور کی علامت سازی میں زیادہ یا کم روزمرہ زبان کو اور موجود زندگی کی اشیاءکو شامل کیا جاتا رہا ہے، فرزانہ کی شاعری میں بھی بہت سی ایسی چیزوں کا تذکرہ آیا ہےجو شہر اور گاؤں کی بھی نمائندگی کرتےہیں اور رہن سہن کی پہچان ہیں، شہر کےحوالےسےچند اشیاءکو شاعرانہ انداز میں دیکھئے:
تمہیں گلاب کےکھلنےکی کیا صدا آتی
تمہارےگرد تو ہر وقت صرف پیسا ہے
نجانےکیسےگزاروں گی ہجر کی ساعت
گھڑی کو توڑ کےسب بھول جانا چاہتی ہوں
اوڑھےپھرتی تھی جو نیناں ساری رات
اس ریشم کی شال پہ یاد کےبوٹےتھے
سیب اور چیری تو روز لےکےآتی ہوں
اپنےسندھڑی آموں کو بھول بھول جاتی ہوں
شوخ نظر کی چٹکی نےنقصان کیا
ہاتھوں سےجب چائےکےبرتن چھوٹےتھے
فرزانہ کی شاعری میں گاؤں کی زندگی، وہاں کےموسم اور وہاں کی ضروری اشیاءکا جو اظہار ملتا ہےایک طرف تو پرانی اقدار اور پرانی ثقافت کو سامنےلاتا ہےاور دوسری طرف وہ انسان بھی نظر آجاتےہیں جو صدیوں سےاپنےمحدود وسائل کےساتھ ایک ہی کروٹ جیئےجا رہےہیں۔
اُسےجو دھوپ لئےدل کےگاؤں میں اترا
رہٹ سےچاہ کا پانی پلانےوالی ہوں
میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
تمہارےلمس کی گرمی چرانےوالی ہوں
کان میں میں نےپہن لی ہےتمہاری آواز
اب مرےواسطےبیکار ہےچاندی سونا
روز آجاتی ہوں کمرےمیں ہوا کی صورت
کنڈی کھڑکائےبغیر اس سےچراتی ہوں اسے
کوئی بھی نہ دیوار پر سےپکاری
مگر ذہن یادوں کےاُپلےاتاری
ملےگی میری بھی کوئی نشانی
چیزوں میں پڑی ہوئی ہوں
کہیں میں پرانی چیزوں میں
مرےوجود سےقائم ہیں بام و درمیرے
سمٹ رہی ہےمری لا مکانی چیزوں میں
بہشت ہی سےمیں آئی زمین پر لیکن
شمار میرا نہیں آسمانی چیزوں میں
یہ جانتےہوئےکوئی وفا شناس نہیں
بسر ہوئی ہےمری زندگانی چیزوں میں
میں نےفرزانہ کی نظمیں بھی پڑھی ہیں، ان نظموں میں’دریائےنیل، پگلی، پتھر کی لڑکی، سوندھی خوشبو، آخری خواہش، پہلی خوشی، ناریل کا پیڑ، اور ماں جیسی نظمیں خوبصورتی کےساتھ لکھی گئی ہیں اور احساس و خیال کو زندگی کی سچائیوں سےجوڑ دیتی ہیں،
فرزانہ کی شاعری پڑھتےہوئےان کےکچھ ایسےاشعار بھی سامنےآئےجو بہت حد تک نئی امیجری کےساتھ لکھےگئےہیں، میں چاہتا ہوں کہ انھیں پڑھا یا سنا جائےتاکہ شاعری کےپڑھنےوالےیکسانیت سےنکل کر ذرا مختلف موسموں کےدرمیان بھی آسکیں
شوخ بوندوں کی طرح جاکےاٹک جاتےہیں
جسم کی کوری صراحی میں چمکتےموسم
رات کےخالی کٹورےکو لبالب بھر کے
کس قدر خوشبو چھڑکتےہیں مہکتےموسم
صبح کےروپ میں جب دیکھنےجاتی ہوں اسے
ایک شیشےکی کرن بن کےجگاتی ہوں اسے
بخش دیتی ہوں مناظر کو روپہلا ریشم
جسم کو چاندنی کا تھان بناتی ہوں میں
نیلگوں جھیل میں ہےچاند کا سایہ لرزاں
موجِ ساکت بھی کوئی آئےسنبھالےاس کو
کیسا نشہ ہےسرخ پھولوں میں
تتلیاں گل پہ سوئےجاتی ہیں
زلف کو صندلی جھونکا جو کبھی کھولےگا
جسم ٹوٹےہوئےپتےکی طرح ڈولےگا
فرزانہ کی شاعری میں تصویروں کےعکس دیکھ کر لگتا ہےکہ ہم شاعری نہیں پڑھ رہےبلکہ کسی نئےمصور کی آرٹ گیلری سےگزر رہےہیں، انھوں نےخود لکھا ہےکہ
’ شاعری کےرموز و اوقاف اور اوزان و بحور وغیرہ پر مہارت کا مجھےکوئی دعویٰ نہیں، میری تشبیہات و استعارات کسی سےنہیں لئےگئےکہ مجھےاپنی مرضی کےالفاظ کا تانا بانا بننا اچھا لگتا ہے‘
ایک شاعرہ کی حیثیت سےفرزانہ نےاپنی بنیادی سچائی کو ظاہر کر دیا ہے، انھوں نےدوسری بےشمار لکھنےوالیوں کی طرح بننا پسند نہیں کیا بلکہ آزاد پرندےکی طرح کھلےآسمانوں میں اپنی اُڑان کو اہم سمجھا ہے، فرزانہ کی شاعری پڑھتےہوئےکچھ نامانوسیت کا جو احساس ہوتا ہے وہ اس جیسی تمام شاعری کی تازگی کا جواز بھی ہے، ان کی شعری زبان تخلیقی ہےاور مادری زبان سندھی ہے، ان کےتصوراتی پس منظر میں سندھ کا گاؤں بولتا ہےاس حوالےسےکہا جا سکتا ہےکہ فرزانہ خان نےاردو مادری زبان والی کئی دوسری شاعرات سےزیادہ نئی اور زیادہ تازہ زبان لکھی ہے۔
فرزانہ کی شعری جمالیات، لفظیات اور امیجز خوبصورتی و اثر پذیری کےساتھ اظہار میں آئی ہیں ، پاکستان کی تہذیبی و ثقافتی اور ادبی و معاشرتی
رویوں کےساتھ فرزانہ خان جڑی ہوئی ہیں، وہ آباد تو دیارِ غیر میں ہیں مگر ان کی یادوں میں اپنےوطن کےموسموں کےرنگ اور اپنی مٹی کی خوشبوئیں بسی ہوئی ہیں، وہ سوتی تو نوٹنگھم میں ہیں مگر خواب پاکستان کےدیکھتی ہیں اس بات سےحد درجہ وطن کی محبت کا اظہار ہوتا ہےلیکن ایک اہم تخلیق کار ہونےکی حیثیت میں برطانیہ میں گزرنےوالی زندگی، وہاں درپیش سماجی رویوں اور انسانی قدروں کا اظہار بھی فرزانہ کی شاعری میں ہونا چاہیئےتاکہ ان کو پڑھنےوالےایک مختلف کلچر سےاور اس کےایسےمعاملات و واقعات سےبھی روشناس ہوسکیں۔
فرزانہ خان کی شاعری میں رقت آمیز، خود رحمی یا قنوطیت جیسےغیر متحرک اور غیر فعالی رویئےنہیں ہیں بلکہ شکستہ خواب و خواہش کی سچائیاں اور عورت کےاجتماعی و انفرادی دکھوں کا اجلا پن ان کےہر اظہار میں موجو د ہے، وہ جسم و جاں کےتجربوں کو سالمیت و سلامتی کےساتھ لکھ کر سامنےلائی ہیں انہوں نےاشیاءکےذریعےاپنی تازہ امیجری کےتعلق سےجو نسائی آئیڈیل بنایا ہےوہ اس میں کامیاب نظر آتی ہیں، فرزانہ نےلکھا ہےکہ
’میری شاعری بچپن سےجوانی تک کی شاعری ہے‘
میں فرزانہ کی اس شاعری پر انہیں مبارکباد دیتا ہوں اور یقین کر سکتا ہوں کہ فرزانہ کی شاعری کا اگلا قدم زندگی کےزیادہ سنجیدہ، زیادہ اہم اور زیادہ گہرےتجربوں کی سمت بڑھےگا جو ان کو جلترنگ سےہو ترنگ کی طرف لےجائےگا، فرزانہ میں جدید انفرادیت کی علامت بننےکا سارا سامان موجود ہے۔
جاذب قریشی
کراچی
Haider Sherazi – تتلیوں کی فصل
Haider Sherazi – تتلیوں کی فصل
“تتلیوں کی فصل”
مدعا لفظ ہو یا تصویر کیا جائے، کوششِ اظہار انسان کا حق نہیں بلکہ اس پر واجب ہے، لفظ سے تصویر تک سارا کھیل تو
نقطےکے پھیلاو کا ہے، جیسے بیج میں درخت کا ہونا امرِ واقعہ ہےا ُسی طرح نقطےمیں تصویر اور لفظ ہر دو موجود ہوتےہیں،
اِ س کے پھیلاو کا نتیجہ قلم اور مو قلم کے فرق کی بنا پر مختلف ہو سکتا ہے۔
میرےخیا ل میں شاعری، قلم سےنقطے کو تصویر کرنا ہے بشرطیکہ نقطےسے کشید کا یہ عمل اپنے پیچ و خم میں رقص کی سی ترتیب رکھتا ہو، ایسی ترتیب جو کوشش کے نتیجے سے زیادہ خود رو محسوس ہوتی ہو کہ کوشش جہانِ ممکنات کا تمدن ہےاور شاعری خدشہ و امکان، ہر طرف نقطے کا پھیلاو کھوجنا ہے، مجھےعادت ہے منظروں سے نابود پس منظروں تک بےارادہ خیال آرائی کی، منظر کےحدود اربعےمیں واقع ہونےکے باوجود، نابودی کے خوف کو مجھ میں دھڑکتا چھوڑ دیا گیا ہے، مجھے میری پیدائش کےواقعے میں قید رکھ کر میری نمو کی حد بندی کردی گئی ہے۔
زمان و مکان کی ردیف میں پابند ہستی کےاس مصرع طرح پر طبع آزمائی کی گنجائش ہی کتنی ہے، قافیہ پیمائی میں مضمون دسترس سےنکل نکل جاتا ہےاور مضمون سنبھالنے میں بحر کا سانس پھولنے لگتا ہے۔
نقطےکے پھیلاوسے ہستی کےجغرافیے تک کوئی راز ہے جسے ذوقِ نظارہ سےاوجھل رکھا گیا ہے، شاعری نقطےکا اس قدر پھیلاؤ ہے کہ وہ راز تصویر نہ ہونے پائے تو بھی شعور کی سطح پر ثابت قرار پائے، مجھ میں اور فرزانہ خان میں بہت فرق ہےلیکن فرق کی یہ ساری بہتات بھی شاعرانہ ہے، اُس کے ہاں لفظ اُترتا ہوا محسوس ہوتا ہے جبکہ مجھ پر تو لفظ چیختا برستا سنا جا سکتا ہے، اُس کےہاں لفظ سے اُنسیت کا تعلق صاف ظاہر ہے، میرےہاں لفظ کے ساتھ گھمسان کے ایک کارن کی سی کیفیت ہے، فرزانہ درد کو سسکیوں میں اور خوشی کو مسکراہٹوں میں لکھتی ہے، میری طرف لفظ صدائے ماتم سے گونجتا عزاخانہ ہے یا فلک شگاف قہقہ۔۔
کوئی تقابلی مقصد ہرگز نہیں کہ تقابل کےلئے متقابلین سے کما حقہُ آگاہی لازم ہے، یہاں تو المیہ ہے کہ رگِ جان کےقرب و جوار میں بسنے والے کی خبر ہی نہیں، خود سے آگاہی کی ہر کوشش بھی انجامِ کار کسی بند گلی میں لا کھڑا کرتی ہے، زندگی یوں بھی موجود سےمعدوم کی بند گلی تک سرکنا ، رینگنا یا سرپٹ دوڑے جانا ہے، سیدھے رستےکی دریافت میں ہی کہیں عزم سفر مسلسل ہوکر دو گز زمین کا لقمہ بن جاتا ہے۔ جوئے سخن جاری کرنے کو سنگِ وجد پہ امکان کی تیشہ زنی تو ضروری ہے، سختئی روزوشب پہ جب بھی ضرب لگے، لپکتے شعلوں کا حجم اور لپک سختی سے براہِ راست متناسب ہوتا ہے ۔
فرزانہ کےہاں یہ شعلےآتش بازی سےکھلِتے ستاروں اور پھولوں جیسے ہیں، یہ اُس کا ضرب لگانےکا ہنر ہے یا روز و شب کی مہربانی کہ اُس کے ہاں شعلوں میں الاو کی سی کیفیت نہیں، مجھےلگتا ہےکہ کسی نوک دار لمحےسےالجھ کر اُدھڑنےکےبجائے وہ کسی بچگانہ تجسس کےتحت تار تار کُھلی ہے، اُس کے مضامین میں نسوانیت سے مخصوص ترتیب و تنظیم ہے۔ مجھےاُس کےلفظ انگلیوں پہ بےارادہ دوپٹہ کھولتے دکھائی پڑتے ہیں، لگتا ہےکہ خواب دیکھنے کی عمر میں آنکھیں زندگی کی بے ہنگم برہنگی کا شکار ہوئیں تو ایک ایک پور میں حیا رنگ سچائیاں جیسے برف ہو کر جم سی گئیں، اِدھر ضرب شعلہ ہوئی اور اُدھر وہ برف شبنم سی قطرہ قطرہ پگھلنےلگی، ایک ذرہ کسی ایسےقطرے کو قلم سے گدگدایا تو کاغذ پر تتلیوں کی خود رَوفصل اُگ آئی۔
مجھے ہرگز علم نہیں کہ تتلیوں کی اِس فصل پر غالب رنگ نیلا کیوں ہے؟
مجھےتو یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ ان تتلیوں کو درد کی نیلی رگیں کہنے پر کیوں مُصر ہے؟ مجھے تو آسمان کو نیلا دیکھنےکی عادت ہے یا زہر پیالے سے فارغ ہوکر سقراط کا آسمان ہو جانا میرا رومان ہے، ہوسکتا ہے کہ فرزانہ کے ہاں آسمان ریزہ ریزہ زمین کی طرف بکھرتا ہو اور تحیر سے کھنچی کمان ہوا، وجود سے بےکراں خلا میں ڈولتے آسمانی ٹکڑوں میں سے ایک دکھائ پڑ تا ہو۔۔۔۔۔
نقطےکے پھیلاو میں جہاں آسمان آپڑے وہاں خود آزمائی انجام نہیں ہوتی لیکن کوشش کی نوعیت بدل جاتی ہے، آسمان تک رسائی اس کی نیلاہٹ کی تردید کےلئے کافی ہوتی ہے لیکن اس رسائی میں اگر نقطےکا پھیلاو ہی آسمان ہوجائے تو رگوں کی نیلاہٹ ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔
فرزانہ کے ہاں نقطےکے مزید پھیلاو کے سارےامکان ستاروں کی طرح نہیں سورج کی طرح روشن ہیں، سات آسمانوں کا یہ سارا پھیلاو اس کی خواہش میں دھڑکتا محسوس ہوتا ہے، درد کی نیلی رگوں کا یہ ہوشرُباجال اُس کا نہیں اپنی پیدائش کے واقعے میں اسیر ہر شخص کا المیہ ہے، اُس کا کمال یہ ہے کہ اُس نے یہ المیہ لفظوں سےحوصلہ بَنتے ہوئے جھیلا ہے،
ہم پر واجب ہے کہ ہم اُس کےحوصلے میں برکت عطا کئےجانےکی دعا کےساتھ اُسے دیانتداری سےداد دیں۔
Subscribe to:
Posts (Atom)