Welcome to the Urdu Poetry Archive! Urdu poetry is like a vast ocean. Walking along its shores on the sands of time, I have gathered a few gems that I would like to share with you.
Wednesday, November 7, 2012
Book By Benazir Bhutto (Quotes)
بینظیر بھٹو کی کتاب سے اقتباسات
’ائرپورٹ سے نکل کر میرا بکتر بند ٹرک چیونٹی کی رفتار سے چل رہا تھا کیونکہ آس پاس مجمع بڑھتا جا رہا تھا۔شام ڈھلی تو سٹریٹ لائٹس مدھم ہوتے ہوتے بجھنے لگیں۔موبائل فون کے سگنل جیم کرنے والے آلات بھی کام نہیں کر رہے تھے، جن کا کام کسی متوقع خود کش بمبار یا بارود سے بھرے ریموٹ کنٹرولڈ کھلونا ہوائی جہاز کو میرے ٹرک کے قریب پھٹنے سے روکنا تھا۔
میرے شوہر آصف نے دبئی میں ٹی وی پر میرے قافلے کی لائیو کوریج دیکھتے ہوئے مجھ سے بات کی اور یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ٹرک کی چھت پر کھڑے ہو کر عوام کے سامنے آنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ لیکن میں نے کہا کہ میں اپنے عوام کے سامنے آ کر ہی ان کا استقبال کروں گی۔
رات گیارہ بجے سے کچھ بعد میں نے ایک شخص کو دیکھا جس نے ایک شیر خوار بچے کو پیپلز پارٹی کے جھنڈے سے ملتے جلتے کپڑے پہنا رکھے تھے اور اسے ہاتھوں میں اٹھائے وہ بار بار مجھے اشارے کر رہا تھا کہ میں بچے کو تھام لوں۔میں نے ہجوم کو اشارہ کیا کہ وہ اس شخص کے لیے راستہ بنائیں۔ لیکن جب اس کے لیے راستہ بن گیا تو وہ آگے آنے سے کترانے لگا اور اس نے بچہ ہجوم میں کسی کے حوالے کرنے کی کوشش بھی کی۔ مجھے تشویش ہوئی کہ بچہ زمین پر گر کر ہجوم کے پیروں میں کچلا نہ جائے، یا کھو نہ جائے۔
میں نے اشارہ کیا کہ نہیں، بچے کو میرے پاس لے کر آؤ۔ میں نے سکیورٹی گارڈ کو بھی اشارہ کیا کہ اس شخص کو ٹرک کے اوپر آنے دیا جائے۔ تاہم جب تک وہ شخص ٹرک تک پہنچا میں ٹرک کے اندر بنے کمرے میں آ چکی تھی کیونکہ میرے پاؤں درد کرنے لگے تھے۔ ہمیں شبہ ہے کہ اسی بچے کے کپڑوں کے نیچے پلاسٹک دھماکہ خیز مواد رکھا گیا تھا۔
ایک ہی جگہ پر دس گھنٹے کھڑے رہنے سے میرے پیر سوج گئے تھے اور جوتا پہننے سے مزید تکلیف ہو رہی تھی۔ میں نے سینڈل کے سٹریپ کھولے اور اپنی سیکرٹری ناہید خان کے ساتھ اس تقریر کے مسودے پر کام کرنے لگی جو مجھے مزار قائد پر کرنی تھی اور جو میری زندگی کی سب سے اہم تقریر تھی۔
ایک نکتے پر بحث کے دوران میں نے کہا کہ ہمیں اس تقریر میں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اس پیٹیشن کا ذکر بھی کرنا چاہیے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ قبائلی علاقوں میں تمام سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کا موقعہ دیا جائے تاکہ انتہا پسندوں کا سیاسی سطح پر مقابلہ کیا جا سکے۔
ابھی میری بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایک زوردار دھماکے سے ٹرک لرز گیا۔ پہلے دھماکے کی آواز، پھر روشنی کا فلیش، پھر شیشے ٹوٹنے کی آواز اور اس کے بعد موت کی خاموشی۔ ذرا دیر کے بعد چیخ و پکار شروع ہوئی، اور میں نے دل میں کہا’ اوہ میرے خدا یہ نہیں ہو سکتا۔
ابھی میرے کان اس دھماکے کی شدت سے بج رہے تھے کہ دوسرا اور زیادہ زور دار دھماکہ ہوا۔عین اسی وقت کوئی چیز ٹرک سے ٹکرائی اور یوں محسوس ہوتا تھا وہ چیز ٹرک کی باڈی کے ساتھ گھوم رہی ہے۔ بعد میں میں نے ٹرک کے بائیں جانب، جہاں میرا کمرہ تھا، باڈی پر ٹکراؤ کے دو نشان دیکھے۔
میں نے باہر دیکھا تو اندھیری رات نارنجی روشنی میں نہائی ہوئی تھی اور سڑک پر لاشیں بکھری پڑی تھیں۔
اب میں جان گئی ہوں کہ پیپلز پارٹی کے رنگوں والے کپڑے پہنے بچے کے ساتھ کیا ہوا۔ پارٹی کے ایک پارلیمانی رکن آغا سراج درانی میرے ٹرک کے آگے راستہ بنا رہے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب مشکوک آدمی نے بچہ ٹرک کے اوپر پہنچانا چاہا تو انہوں نے اسے منع کر کے وہاں سے چلتا کیا۔ اس پر وہ شخص بچے کو لیے ٹرک کے بائیں جانب چلنے والی ایک پولیس گاڑی کی طرف گیا جس میں موجود افراد نے بھی بچے کو لینے سے انکار کر دیا۔ اس سے آگے والی پولیس وین میں پارٹی کی ایک کونسلر رخسانہ فیصل بلوچ اور ایک کیمرہ مین بھی سوار تھے۔
جب وہ آدمی اس وین کے قریب آیا تو پچھلی پولیس گاڑی والوں نےخبردار کیا کہ ’بچے کو مت لینا، بچے کو مت لینا، بچے کو ٹرک کے اندر مت جانے دینا۔
یہ دونوں پولیس گاڑیاں ٹرک کے متوازی اسی جانب چل رہی تھیں جس طرف ٹرک کے اندر میں بیٹھی ہوئی تھی۔ جب پولیس والے اس مشکوک آدمی کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے، اسی وقت پہلا دھماکہ ہوا۔ دوسری پولیس وین میں سوار تمام افراد مارے گئے۔
ایک منٹ سے بھی کم وقفے سے 15 کلوگرام کے ایک کار بم کا دھماکہ کیا گیا اور عینی شاہدین کے مطابق اس کے ساتھ ہی سنائپرز یا ماہر نشانچیوں کو فائرنگ کرتے بھی دیکھا گیا۔
بشکریہ بی بی سی
گڑھی خدا بخش میں پاکستان پیپلز پارٹی کی مقتول سربراہ بینظیر بھٹو کے چہلم میں ملک بھر سے ہزاروں پارٹی کارکنوں نے شرکت کی ہے۔
اگرچہ پیپلز پارٹی نے اپنے رہنماؤں اور کارکنان سے اپنے اپنے علاقوں میں چہلم کی رسومات ادا کرنے کو کہا تھا تاہم ملک بھر اور آزاد کشمیر سے ہزاروں کی تعداد میں کارکنان گڑھی خدا بخش پہنچے اور قبر پر پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی۔
اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئرمین آصف علی زرداری نے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو ان کو کرسی سے باندھ کر گئی ہیں جبکہ وہ ان کو قبر سے باندھ کر گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں نظام بدلنے کی ضرورت ہے اور بینظیر نظام بدل رہی تھیں اور اسی وجہ سے ان کو قتل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بینظیر کا مشن جاری رکھیں گے۔ آصف زرداری نے کارکنان سے وعدہ کیا کہ وہ گڑھی خدا بخش سے یہ عزم کر کے نکل رہے ہیں کہ یا تو وہ ٹولا ختم ہو گا اور اگر وہ اس عزم میں ناکام رہے تو وہ شہید ہو کر گڑھی خدا بخش بھٹو میں دفن ہوں گے۔ آصف علی زرداری نے مختصر خطاب سندھی میں بھی کیا اور کارکنان سے کہا ’یہ وقت سیاست کا نہیں بلکہ عبادت کا ہے۔ سیاست کے دن اور ہیں اور کارکنان سے کہا کہ اپنے غم کو طاقت میں تبدیل کریں۔
بینظیر کے چہلم کے موقع پر رضا ربانی، قائم علی شاہ، صفدر عباسی، بابر اعوان، ناہید خان اور دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما مخدوم امین فہیم وہاں موجود نہ تھے کیونکہ وہ ہالہ میں ایک بڑا تعزیتی مجلس کر وا رہے ہیں۔
بینظیر کے چہلم کی موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کیےگئے تھے جو کہ پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے۔ سکیورٹی کی وجہ سے جلسے کے پروگرام کا بھی پہلے سے اعلان نہیں کیا گیا تھا۔
چہلم کے موقع پر بڑی تعداد میں پولیس اور رینجرز کے اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ بینطیر کی قبر کے گرد چار سکیورٹی حصار قائم کیے گئے تھے تاہم کارکنان حفاظتی حصار توڑتے ہوئے مزار میں داخل ہوگئے جس وجہ سے آصف علی زرداری مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے نہ آ سکے۔
ساہیوال سے آئے ہوئے ایک کارکن نے کہا ’میں ساری رات سفر کر کے آیا ہوں اور یہاں مجھے پھول رکھنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ حفاظتی انتظامات اچھی بات ہے لیکن مجھے پھول رکھنے دیں جس کے بعد میں واپس چلا جاؤں گا‘۔
پشاور
ملک کے دیگر حصوں کی طرح پشاور میں بھی پیپلز پارٹی کی مقتول سربراہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا چہلم انتہائی عقیدت و احترام سے منایا گیا۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی ضلع پشاور کے زیراہتمام جناح پارک پشاور میں ایک بڑی تقریب منعقد ہوئی جس میں پارٹی کے صوبائی رہنماؤں کے علاوہ شہر بھر سے کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مقررین نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ملک کے لیے خدمات پر روشنی ڈالی اور انہیں زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔
مقررین نے کہا کہ پیپلز پارٹی بینظیر بھٹو کی قتل کا بدلہ ملک میں اٹھارہ فروری کو ہونے والے انتخابات میں بیلٹ کے ذریعے سے لے گی اور مقتول رہنما کا مشن جاری رکھا جائے گا۔ تقریب کے اختتام پر فاتحہ خوانی اور اجتماعی دعا بھی کرائی گئی۔
Subscribe to:
Posts (Atom)