Welcome to the Urdu Poetry Archive! Urdu poetry is like a vast ocean. Walking along its shores on the sands of time, I have gathered a few gems that I would like to share with you.
Wednesday, November 7, 2012
Noorjahan-Melody Queen Of Pakistan
ملکہ ترنم مادام نورجہاں انیس سو انتالیس کی پنجابی فلم ہیر سیال میں
ملکہ ترنم مادام نور جہاں فلم جگنو کا ایک گیت ‘امنگیں دل کی مچلیں’جبکہ
اسی فلم کا دوسرا گیت دلیپ کمار کے ساتھ مقبول ہوا تھا ‘یہاں بدلہ وفا
کا بیوفائی کے سوا کیا ہے
اسی فلم کا دوسرا گیت دلیپ کمار کے ساتھ مقبول ہوا تھا ‘یہاں بدلہ وفا
کا بیوفائی کے سوا کیا ہے
نورجہاں فلم کوئل میں
نورجہاں فلم انتظار میں
نورجہاں اپنے شوہر شوکت رضوی کے ہمراہ
Add caption |
نورجہاں اپنی عمر کی پچاسویں دہائی میں
نورجہاں اور طفیل نیازی فلمی تقریب میں
نورجہاں نگار ایوارڈ کی فلمی تقریب میں
نورجہاں اور پران فلم خاندان میں انیس سو بیالیس
نورجہاں انیس سو چھپن کی فلم لخت جگر میں
نورجہاں کی فلم گل بکاؤلی کا پوسٹر
نورجہاں کی فلم ہیر سیال کا پوسٹر
نورجہاں، فلم موسیقار کی فلمی تقریب میں
نورجہاں کا ایک فلمی سین
ثریا اور نورجہاں فلم .مرزا
صاحباں. میں انیس سو پینتیس کی تصویر
نورجہاں کی فلم دوپٹہ کا پوسٹر
نورجہاں .فلم انمول گھڑی میں ۔ انیس سو انچاس
ساڑھے دس بجے، مقام کوٹ مراد خان، قصور ۔اکیس ۔سنہ انیس سو چھبیس
فتح بی بی کے ہاں ایک بیٹی جنم لیتی ہے اور اس کا نام دائی عائشہ کی فرمائش پر اللہ وسائی رکھا جاتا ہے۔ عائشہ فتح بی بی کو نومولود بچی کے بھاگوان ہونے کا عندیہ سناتی ہے۔
اللہ وسائی کی پھو پھی الٰہی جان اسے آکر گھٹی میں شہد دیتی ہے۔ الٰہی جان قصور کی چند سریلی خواتین میں سے ایک ہے۔ وہ باہر اپنے بھائی اور اللہ وسائی کے والد مدد علی سے مذاق میں کہتی ہے: ‘بچی کے رونے کا انداز بتا رہا ہے کہ یہ بڑی سریلی ہو گی ، اگلے ہی روز قصور کے سارنگی نواز استاد غلام محمد بچی کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ بچی کے سر پر ہاتھ پھیر کر اسے دُعا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اللہ نے چاہا تو بچی اپنے ماں باپ کا نام روشن کرے گی، وہ بچی بھاگوان بھی ہوتی ہے اور سریلی بھی۔ اتنی سریلی کہ پورے برِ صغیر میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ اس نے نہ صرف اپنے ماں باپ کا نام روشن کیا بلکہ وہ پاکستانی موسیقی کی آن شان اور مان ہے۔ جیسے اس نے گایا اس کی مثال ملنا بہت ہی مشکل ہے۔ ہم اسے ملکہ ترنم نورجہاں کے نام سے جانتے ہیں جو تئیس دسمبر سن دو ہزار کو ہم سے جدا ہو گئیں۔
نورجہاں کو پانچ سال کی عمر میں استاد غلام محمد کے سپرد کر دیا گیا تاکہ وہ موسیقی کی تعلیم حاصل کر سکیں۔ استاد غلام محمد نے جب ‘سا رے گا ما پا دھا نی سا‘ کے الاپ کے ساتھ نورجہاں کو موسیقی کا سبق دینا شروع کیا تو وہ حیران رہ گئے کہ اس بچی کی آواز میں اس قدر لوچ ہے جو اس سے پہلے کسی اور آواز میں نہ سنا گیا تھا۔ دو سال کی ہی سخت محنت اور لگن کے بعد نورجہاں اس قابل ہو گئی کہ اپنی بہن عیدن اور کزن حیدر باندی کے ساتھ قصور کے سٹیج پر مختصر طور پر پرفارمنس دے سکے۔
نورجہاں نے سٹیج پر پرفارم کرنے کے لیے اس وقت کے چند مشہور گانے یاد کر رکھے تھے۔ ان میں لوک گیت ‘لنگھ آ جا پتن چناں دا‘، اختر بائی فیض آبادی کی گائی ہو غزل ‘دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے‘، پنجابی نعت ‘میرے مولا مدینے بلا لے مجھے‘ وغیرہ جیسے آئٹم شامل تھے۔ قصور سے نکل کر نورجہاں اپنی بہن عیدن اور استاد غلام محمد کے ساتھ لاہور آ گئیں۔ اُسی دور میں ان کی ملاقات موسیقار جی اے چشتی سے ہو گئی جو ان دنوں گلوکاری کے ساتھ ساتھ شاعری میں بھی طبع آزمائی کرتے تھے۔ انہوں نے ایک نعت ‘ہنستے ہیں ستارے یا شاہِ مدینہ‘ کی دھن بنائی۔ یہ نعت نورجہان نے پہلی بار مہابیر تھیٹر میں پیش کی اور اسے فوری پذیرائی حاصل ہوئی۔ بعد میں نورجہاں نے لاہور کے کئی دیگر سینماؤں میں بھی فلم کے پہلے نصف کے اختتام پر ہونے والے لائیو شو میں پرفارم کیا اور بے پناہ داد وصول کی۔ لاہور میں چند ماہ قیام کے بعد ہی نورجہاں اپنی بہن عیدن، کزن حیدر باندی اورگروپ کے دیگر افراد کے ساتھ فلمی دنیا میں قسمت آزمانے کے لیے کلکتہ چلی گئیں۔ ان دنوں کلکتہ میں مختار بیگم کا شہرہ تھا اور شہر کے مشہور ہال میں ان کا تھیٹر چل رہا تھا۔ نور جہاں کے بھائی محمد شفیع نے مختار بیگم سے رابطہ کیا اور ان سے مدد کی درخواست کی۔ مختار بیگم نے جب نورجہاں کو سنا تو وہ ان کی سریلی آواز اور لے سے بہت متاثر ہوئیں اور وعدہ کیا کہ وہ اپنی کمپنی کے سیٹھ سے قصور سے آئے اس گروپ کی سفارش کریں گی۔ کمپنی میں ملازمت کے بعد اس گروپ کو ‘پنجاب میل‘ کا خطاب دیا گیا اور اللہ وسائی کا فلمی نام ‘بے بی نورجہاں‘ قرار پایا۔ نورجہاں سب سے پہلے پنجابی فلم ‘شیلا عرف پنڈ دی کڑی‘ میں ایک چائلڈ سٹار کے طور پر سامنے آئیں۔ اس فلم میں ان پر ایک گانا ‘لنگھ آجا پتن چناں دا‘ فلم بند کیا گیا۔ یہ پنجابی زبان میں بننے والی پہلی فلم تھی اور لاہور سرکٹ میں انتہائی کامیاب ثابت ہوئی۔ اُسی سال یعنی سن انیس سو پینتیس کو ہی انہیں نے فلم ‘مصر کا ستارہ‘ میں ایک چائلڈ سٹار کے طور پر کاسٹ کیا گیا۔ بعد میں انہوں نے بطور چائلڈ سٹار ‘مسٹر اینڈ مسز ممبئی‘، ‘ناری راج‘، ‘ہیر سیال‘، ‘فخر اسلام‘، ‘مسٹر 420‘، ‘تارن ہار‘، ‘ناممکن‘، ‘امپیریئل میل‘ اور ‘سسی پنوں‘ جیسی فلموں میں کام کیا۔ سن انیس سو اڑتیس میں نورجہاں کلکتہ سے واپس لاہور پہنچ گئیں۔ لاہور واپسی کے فوراً بعد انہیں فلمساز دلسکھ ایم پنچولی کی فلم ‘گُل بکاؤلی‘ میں گانے اور کام کرنے کا موقع مل گیا۔ فلم ‘گُل بکاؤلی‘ کے لیے گائے گئے ان کے گانے ‘شالا جوانیاں مانیں‘ نے پنجاب بھر میں دھوم مچا دی۔ سن انیس سو انتالیس میں ‘گُل بکاؤلی‘ کی نمائش کے ساتھ ہی پنجاب کا بچہ بچہ ان کے نام سے واقف ہو چکا تھا اور ماسٹر غلام حیدر کی موسیقی میں ان کاگایا ہوا گانا ‘شالاجوانیاں مانیں‘ بچے بچے کی زبان پر تھا۔ ‘گُل بکاؤلی‘ کی کامیابی نے نورجہاں کے لیے کامیابیوں کے راستے کھول دیئے اور انہیں فوری طور پر سیٹھ دلسکھ پنچولی کی فلم ‘خزانچی‘ اور ‘یملا جٹ‘ میں کام مل گیا۔ ماسٹر غلام حیدر کی موسیقی اور نورجہاں کی خوبصورت آواز کی بدولت ‘یملا جٹ‘ بھی ایک کامیاب فلم ثابت ہوئی۔ اِسی طرح ان کی اگلی فلم ‘چودھری‘ بھی ہٹ ہوئی۔ نورجہاں کی اِن پہ در پہ کامیابیوں نے پنچولی آرٹ پکچرز کو مالی طور پر مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہونے میں بہت مدد دی۔دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے ہونے والے مختصر وقفے کے بعد نورجہاں فلمی دنیا میں واپس آئیں تو وہ بے بی نورجہاں نہیں تھیں بلکہ ہدایت کار شوکت حسین رضوی کی فلم ‘خاندان‘ کی ہیروئن تھیں۔ نورجہاں کی اداکاری اور گانوں کی وجہ سے فلم ‘خاندان‘ نے کامیابی کے نئے معیار قائم کئے اور پنجاب کو کلکتہ اور ممبئی کے پہلو بہ پہلو لا کھڑا کیا۔ خاندان کی کامیابی کے ساتھ ہی شوکت حسین رضوی اور نورجہاں کے مابین محبت کے ایک ایسے تعلق کا آغاز ہوا جو نورجہاں کے بھائیوں کی مخالفت اور فریقین میں مقدمہ بازی کے باوجود ان دونوں کی شادی پر منتج ہوا۔ فلم ‘خاندان‘ کی کامیابی کے کچھ عرصہ بعد ہی نورجہاں سن رائز پکچرز کے مالک وی ایم ویاس کی دعوت پر ممبئی چلی گئیں۔ نورجہاں نے سن رائز پکچرز کے ساتھ دو فلموں میں کام کرنے کا معاہدہ ممبئی روانگی سے پہلے لاہور میں ہی کر لیا تھا۔ وی ایم ویاس اپنی دونوں فلموں کی ڈائریکشن کے لیے پہلے ہی شوکت حسین رضوی کو سائن کر چکے تھے۔وی ایم ویاس کے سرمایے کے باوجود سن رائز پکچرز کی دونوں فلمیں ‘دہائی‘ اور ‘نوکر‘ ناکام رہیں۔ نورجہان کے ممبئی میں اپنے قیام کے دوران ‘نادان‘، ‘دوست‘، ‘لال حویلی‘، ‘بڑی ماں‘ جیسی فلموں میں بھی کام کیا لیکن اِن میں سے کوئی بھی معرکۃ الآرا فلم کا مقام حاصل نہ کر سکی۔ممبئی میں نورجہاں کی کامیابیوں کا دور سن انیس سو پینتالس میں فلم ‘گاؤں کی گوری‘ سے شروع ہوتا ہے جس میں ان کی اداکاری کے ساتھ ساتھ گانے بھی سپرہٹ ہوئے۔’ کس طرح بھولے گا دل ان کا خیال آیا ہوا جا نہیں سکتا کبھی شیشے میں بال آیا ہوا‘ اور ‘بیٹھی ہوں تیری یاد کا لے کر کے سہارا آجاؤ کہ چمکے میری قسمت کا ستارہ‘ جیسے گانے ابھی تک موسیقی کے شائقین کو یاد ہیں۔ کچھ یہی حال نورجہاں کی فلم ‘زینت‘ کا رہا جس کی قوالی ‘آہیں نہ بھریں شکوے نہ کئے کچھ بھی نہ زبان سے کام کیا اس پر بھی محبت چھپ نہ سکی جب تیری کسی نے نام لیا‘ ہندوستان کے گلی کوچوں میں زبان زد عام ہوئی۔ فلم ‘زینت‘ کی کامیابی کے بعد ہدایت کار محبوب نے نورجہاں کو اپنی فلم ‘انمول گھڑی‘ میں کاسٹ کیا جو سن انیس سو چھیالیس میں ریلیز ہوئی۔ فلم ‘انمول گھڑی‘ کی کامیابی نے نورجہاں کو شہرت کی ان لازوال بلندیوں پر پہنچا دیا جس کی فلمی دنیا میں ہمیشہ خواہش کی جاتی ہے۔ موسیقار نوشاد کی دھنوں میں نورجہاں کے گائے ہوئے گانے ‘جوان ہے محبت حسیں ہے زمانہ لٹایا ہے دل نے خوشی کا خزانہ‘، ‘میرے بچپن کے ساتھی مجھے بھول نہ جانا/ دیکھو دیکھو ہنسے نہ زمانہ‘ اور سب سے بڑھ کر ‘آواز دے کہاں ہے دنیا میری جواں ہے‘ سننے والوں کے دلوں کو آج بھی اسی طرح گرماتے ہیں جس طرح تقریباً ساٹھ دہائیاں پہلے گرماتے ہیں۔
سن انیس سو چھیالیس میں ہی سید شوکت حسین رضوی اپنے ذاتی ادارے شوکت آرٹ پروڈکشن کے زیر اہتمام فلم ‘جگنو‘ بنانے کا اعلان کیا اور نورجہاں کے مقابل دلیپ کمار کو مرکزی رول میں کاسٹ کیا۔ فیروز نظامی کی موسیقی میں ریکارڈ کیے جانے والے نورجہاں کے گانوں نے فلم کے ریلیز ہونے سے پہلے ہی ہندوستان بھر میں دھوم مچا دی۔ ‘آج کی رات سازِ دل پرسوز نہ چھیڑ‘، ‘تم بھی بھلا دو میں بھی بھلا دوں پیار پرانے گزرے زمانے‘، ‘ہمیں تو شامِ غم میں کاٹنی ہے زندگی اپنی‘ اور محمد رفیع کے ساتھ گایا ہوا نورجہاں کا گانا ‘یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے/ محبت کر کے دیکھا محبت میں بھی دھوکہ ہے‘ اپنی مثال آپ ہیں۔ نورجہاں اپنے شوہر شوکت حسین رضوی اور بیٹے اکبر حسین رضوی کے ہمراہ قیام پاکستان کے بعد بحری جہاز کے ذریعے کراچی آ گئیں۔ بعد میں وہ لاہور شفٹ ہو گئیں اور دونوں میاں بیوی نے پاکستان نوزائیدہ مملکت میں سٹوڈیو قائم کر کے فلمسازی کی بنیاد رکھنے کا بیڑہ اٹھایا۔ انہیں سن انیس سو انچاس میں لاہور میں شوری سٹوڈیو الاٹ کر دیا گیا جسے انہوں نے اپنی تمام جمع پونچی خرچ کر کے شاہ نور کے نام سے بحال کیا اور اس قابل بنایا کہ ممبئی اور کلکتہ سے پاکستان آنے والے فلمساز اپنی فلموں کا آغاز کر سکیں۔
پاکستان آنے کے بعد اپنی ہدایت میں پنجابی فلم ‘چن وے‘ بنانے کا بھی اعلان کر دیا۔ فلم کے موسیقار کے طور فیروز نظامی کو چنا گیا۔ جب سن انیس سو اکیاون میں فلم ریلیز ہوئی تو نورجہاں کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے فلم ‘چن وے‘ کے گانے ‘تیرے مکھڑے دا کالا کالا تِل وے‘، ‘چن دیا ٹوٹیا وے دلاں دیا کھوٹیا‘ اور ‘چنگا بنایا ای سانو کھڈونا آپے بناؤنا تک آپے مٹاؤنا‘ بے حد مقبول ہوئے اور فلم کی کامیابی کی وجہ بنے۔
اگلے ہی سال نورجہاں کی فلم ‘دوپٹہ‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ فلم کے موسیقار فیروز نظامی ہی تھے لیکن ہدایت سبطین فضلی صاحب نے دی تھیں۔ فلم ‘دوپٹہ‘ کے گانے ‘چاندنی راتیں سب جگ سوئے ہم جاگیں‘، ‘میں بن پتنگ اڑ جاؤں‘، ‘بات ہی بات میں جی چاندنی رات میں جی جیا میرا کھو گیا‘ وغیرہ آج تک موسیقی کے شائقین کو اپنے سحر میں لیے ہوئے ہیں۔
نورجہاں کی اگلی کامیاب فلم ‘پاٹے خان‘ تھی جو سن انیس سو پچپن میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے ساتھ نورجہاں نے پلے بیک سنگر کے طور پر اپنے کیریئر کا بھی آغاز کیا۔ اس سے پہلے وہ صرف اپنی فلموں میں ہی آواز کا جادو جگاتی تھیں۔ اس فلم میں ان کے گائے ہوئے دو گانے مسرت نذیر پر پکچرائز کیے گئے۔ اس فلم میں نورجہاں نے اسلم پرویز کے مقابل مرکزی کردار ادا کیا۔ فلم کی موسیقی اختر حیسن اکھیاں نے ترتیب دی تھی۔ فلم ‘پاٹے خان‘ کا گانا ‘کلی کلی جان دکھ لکھ تے کروڑ وے‘ آج بھی تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوتا ہے۔
نورجہاں کی فلم ‘انتظار‘ اس وجہ سے نورجہاں کے فنی کیریئر میں اہم مقام رکھتی ہے کیونکہ اس میں انہوں نے خواجہ خورشید انور کے ترتیب دیے ہوئے گانے گائے جو انتہائی مقبول ہوئے۔ ‘چاند ہنسے دنیا بسے روئے میرا پیار/ درد بھرے دل کے میرے ٹوٹ گئے تار‘، ‘جس دن سے پیا دل لے گئے دکھ دے گئے/ اس دن سے گھڑی پل ہائے چین نہیں آئے‘، ‘آ گئے گھر آ گئے بلم پردیسی سجن پردیسی‘، اور ‘جانے والے ٹھہرو ذرا رُک جاؤ‘، ‘چھن چھن ناچوں گی گن گن گاؤں گی‘ کس کس گانے کا ذکر کیا جائے۔ سب ہی پاکستانی فلمی موسیقی کے نگینے ہیں جن کے بغیر اس کا حسن نامکمل رہے گا۔
موسیقی کے لحاظ سے نورجہاں کی اگلی بڑی فلم ‘انارکلی‘ تھی جس میں انہوں نے رشید عطرے کی موسیقی میں چند لازوال گانے گائے۔ ‘صدا ہوں اپنے پیار کی جہاں سے بے نیاز ہوں‘، ‘ہم تیرے گلی میں آ نکلے‘، ‘بانوری چکوری کرے دنیا سے چوری چوری چندا سے پیار‘ آج بھی سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ بطور اداکارہ نورجہاں کی آخری فلم ‘مرزا غالب‘ تھی جو بہت اچھے میوزک کے باوجود فلاپ ثابت ہوئی۔ فلم ‘مرزا غالب‘ کے ساتھ نورجہاں کے فنی سفر کا وہ دور اختتام کو پہنچا جو سن انیس سو پینتیس میں فلم ‘شیلا عرف پنڈ دی کڑی‘ میں بے بی نورجہاں نے بطور چائلڈ سٹار کلکتہ سے شروع کیا تھا۔سن انیس سو اکسٹھ میں نورجہاں نے اعلان کیا کہ وہ اب صرف بطور پلے بیک سنگر فلمی دنیا میں موجود رہیں گی۔ پہلے سال نورجہاں نے فلم ‘سلمیٰ‘ اور ‘شام ڈھلے‘ کےگانے ریکارڈ کرائے۔ مگر اگلے ہی سال ان کے گانوں سے مزین چار فلمیں ‘چراغ جلتا رہا‘، ‘قیدی‘، ‘موسیقار‘ اور ‘گھونگھٹ‘ زبردست کامیاب ہوئیں۔ سن انیس سو تریسٹھ میں نورجہاں کے گانوں کی وجہ سے فلم ‘دامن‘، ‘شکوہ‘ اور ‘ایک تیرا سہارا‘ بھی بہت پسند کی گئیں۔
پلے بیک میں ان ابتدائی کامیابیوں کے ساتھ ہی نورجہاں فلمسازوں کی ضرورت بلکہ مجبوری کی شکل اختیار کرتی گئیں باوجود اس کے کہ وہ دیگر پلے بیک سنگرز کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ معاوضہ لیتی تھیں۔ اس وقت کی ہر ہیروئن کی خواہش ہوتی کہ نورجہاں کے گانے ہی ان پر فلمائے جائیں۔ اس وقت زبیدہ خانم، منورسلطانہ، نسیم بیگم اور کوثر پروین بھی مصروف پلے بیک سنگرز تھیں لیکن ان میں سے کوئی بھی نورجہاں کا مقابلہ نہ کر سکی اور ایک ایک کر کے پس منظر سے غائب ہوتی گئیں۔نورجہاں اگلے پندرہ سال پلے بیک سنگر کی حیثیت سے فلم انڈسٹری پر چھائی رہیں۔ اردو ہو یا پنجابی نورجہاں کی آواز کے بغیر کوئی فلم مکمل نہیں سمجھی جاتی تھی۔ اس دور میں انہوں نے خواجہ خورشید انور، ماسٹر عبداللہ، رشید عطرے، ماسٹر عنایت حسین، حسن لطیف للک، وزیر افضل، طافو، وجاہت عطرے اور دیگر موسیقاروں کی ترتیب دی ہوئی دھنوں میں فلمی گیت گائے۔ اس دور کی بڑی فلموں میں آگ کا دریا، لاکھوں میں ایک، مرزا جٹ، سالگرہ، عندلیب، ہیر رانجھا، امراؤ جان ادا اور ناگ منی خاص اہمیت رکھتی ہیں۔
سن انیس سو پچھہتر کے بعد نورجہاں نے پلے بیک دینے سے متعلق اپنی طرف سے لگائی گئی کئی شرائط بھی ختم کر دیں اور ہیروئن کے ساتھ ساتھ ویمپ اور رقاصہ کے لیے بھی گانے دینے شروع کر دیئے جس سے ان کے امیج کو بہت نقصان پہنچا۔ تاہم انہیں اپنی زندگی کے آخری ایام تک پاکستان کی فلم انڈسٹری کی اہم ترین شخصیت کی حیثیت حاصل رہی۔
ملکہِ ترنم نورجہاں پاکستان کے ان فنکاروں میں ہے جن کے بارے میں ان کی زندگی میں بہت کم لکھا گیا اور اگراس عظیم فنکارہ پر کسی نے قلم اٹھایا بھی تو اس کا موضوع ان کی شخصیت بنی نہ کہ ان کا فن۔
میڈم نورجہاں پر لکھی جانے والے پہلی کتاب ‘نورجہاں سرور جان‘ تھی جس کا موضوع تقسیم سے پہلے ممبئی کی فلم نگری میں ان کے شب و روز تھے۔بعد میں شوکت حسین رضوی کے طویل انٹرویو پر مبنی منیر احمد منیر کی کتاب ‘نورجہاں کی کہانی میری زبانی‘ آئی جس کا بظاہر مقصد نورجہاں پر کیچڑ اچھالنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔
اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر عام گفتگو میں بھی نورجہاں پر بات کی جاتی ہے تو ان کی فنکارانہ عظمت کو ثابت کرنے کے لیے دلیل آدھی صدی پہلے تقسیم سے قبل بننے والی ان کی فلموں ‘خاندان‘، ‘انمول گھڑی‘، ‘زینت‘ یا ‘جگنو‘ سے لائی جاتی ہے۔ بتانا یہ مقصود ہوتا ہے کہ نورجہاں بڑی فنکارہ اس لیے ہے کہ اس نےہدایت کار محبوب کی فلم ‘انمول گھڑی‘ میں موسیقار نوشاد کی کمپوز کیے ہوئے گیت گائے یا شوکت حسین رضوی کی فلم ‘جگنو‘ میں دلیپ کمار کے مقابل ہیروئن آئیں۔ دوسرے لفظوں میں موسیقار نوشاد یا دلیپ کمار کی مسلمہ عظمت کو دلیل بنا کر نورجہاں کی عظمت کا سکہ بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس دور کی بھی بات کرتے ہوئے کوئی ماسٹر غلام حیدر یا فیروز نظامی کا نام نہیں لیتا کیونکہ گھر کی مرغی تو دال برابر ہی ہوتی ہے۔
اور اگر بات تقسیم سے بعد کی بھی ہو تو گفتگو نورجہان کی فلموں ‘دوپٹہ‘، ‘گلنار‘، ‘انتظار‘، ‘انار کلی‘ اور ‘کوئل‘ سے آگے نہیں بڑھتی۔ اس ساری صورتِ حال میں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ نورجہان کی فنکارانہ زندگی تو ساٹھ یا ستر کی دہائی میں اختتام پذیر ہو جاتی ہے باقی جو کچھ ہے وہ تو سب عامیانہ ہے۔
Film: AnarKali
Released on: June 6, 1958
Actors: Noor Jehan (as Anarkali), Sudhir (as Prince Saleem), Ragni (as Dil Aram), Shamim Ara, Zarif, Fazal Haq and Hamalia Wala (as Akbar The Great)
Producer: Mukhtar Ahmad
Director: Anwar Kemal Pasha
Story: Imtiaz Ali Taj
Music: Rasheed Attre, Inayat Hussain
Lyrics: Tanvir Naqvi
Singers: Madam Noorjahan
لیکن بات ایسی نہیں ہے۔ نورجہاں کی فنی شخصیت کوئی ایسی نہیں ہے جس کے ساتھ ایک زبان میں کیے گئے ان کے کام کو بنیاد بنا کر انصاف کیا جا سکے۔ ان کی فنی شخصیت ہمہ جہت خوبیوں سے مالا مال ہے اور اس کی جس پہلو سے بھی جائزہ لیا جائے نورجہاں کی فنکارانہ عظمت اور ان کے ہم عصروں میں ان! کا قد اور بڑھ جاتا ہے۔
نورجہاں کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے خود کو پاکستانی فلم انڈسٹری کے بدلتے ہوئے مزاج کے مطابق ڈھالا اور شاید اِسی لیے وہ اپنے آخری ایام تک فلم انڈسری میں آؤٹ ڈیٹڈ یا غیر متعلق نظر نہیں آئیں بلکہ اس کی ہر پہلو سے ایک ضرورت بنی رہیں۔
آپ ذرا نور جہاں کے گائے ہوئے گانوں ان کی اس فہرست پر نظر ڈالیں: وے سونے دیا کنگنا (چن وریام)، وے ایک تیرا پیار (سالا صاحب)، سونے دی تویتڑی (شعلے)، دوروں دوروں اکھیاں مارے منڈا پٹواری دا (دبئی چلو)، مینو رکھ لےکلینڈر نال (اِک پتر دا ویر)، سونے دی نتھلی (مسٹر افلا طون) اور توں جے میرے ہمیشہ کول (شیرخان)۔
نورجہاں کے کچھ چاہنے والوں کو اوپر درج کیے گئے پنجابی گیت عامیانہ لگیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موسیقی کے دیوانوں کی ایک بڑی تعداد نورجہاں کو انہیں گانوں کی وجہ سے چاہتی ہے۔
اب ذرا اس فہرست کو ملاحظہ فرمائیں: حسینی لعل قلندر (آسُو بِلا)، بری بری امام بری (سجن بے پرواہ)، ہو لعل میری پت رکھیو (دلاں دے سودے)، شہباز کرے پرواز (ماں تے ماما)، سہون دے سرکار (خانزادہ)، آئی آں دوارے (دنیا پیار دی) اور رکھ لاج میرے لجپال (تہاڈی عزت دا سوال اے)۔
یہ قلندری دھمالیں بھی پنجاب، سندھ اور صوبہ سرحد میں آبادی کا ایک بڑا طبقہ بڑے ذوق و شوق سے سنتا ہے۔ وہ صرف اسی نورجہاں کو جانتی ہے جو اس دھمالوں کے ذریعے ان تک پہنچتی ہے۔
میڈم نورجہاں کے فن موسیقی کا ایک اور پہلو ان نے گائے ہوئے گیت اور غزلیں ہیں۔ ان میں مرزا غالب کی غزل ‘میں ہوں مشتاقِ جفا مجھ سے جف اور سہی‘ ہو یا داغ دہلوی کی ‘لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے‘ یا پھر احمد راہی کی ‘دل کے افسانے نگاہوں کی زباں تک پہنچے‘نورجہاں نے جس غزل کو بھی چھیڑیا اس کی گائیکی میں اپنا ہی رنگ چھوڑا۔
نورجہاں کو اس بات کی بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے پنجاب کے داستانوی لوک ادب میں ایک نئی زندگی دی ہے اور نئی نسل کو اس سرمایے سے روشناس کیا ہے۔
پاکستان میں ہو سکتا ہے بہت سوں نے وارث شاہ کی ‘ہیر‘ یا حافظ برخوردار کی ‘مرزا صاحباں‘ نہ پڑھی ہو لیکن وہ نورجہاں کے گائے ہوئے لازوال گیتوں ‘سنجے دل والے بوہے اجے میں نہیوں ڈھوے‘، ‘سن ونجلی دی مٹھڑی تان وے‘ اور ‘او ونجھلی والڑیا تو تاں موہ لئی آ مٹار‘ کے ذریعے پنجاب کی ثقافتی رنگوں
Maulana Jalalud-din Rumi-مولانا جلال الدین محمد بلخی رومی
800th anniversary of the birth of Maulana Jalal-ud-Din Belhi-Rumi
(Maulana Jalal-ud-Din Balkhi Rumi), poet and philosopher (1207-1273)
“Eminent philosopher and mystical poet of Islam, Rumi advocated tolerance, reason and access to knowledge through love. His mystical relationship with Islam produced masterpieces that have marked Islamic culture and religious beliefs, well beyond the borders of Turkey. His work and thought remain universally relevant today.”
Above text is taken from UNESCO’s official website announcing that 2007 is declared as Rumi Year. 2007 is the 800th anniversary of Rumis birth and until today his thoughts and poems, written in the “Mesnevi” and “Divan-i Kebir” in Persian language, are for many humans, not only for muslim people very important.
Central topic of Maulanas teachings is the love, which he understood as main power of the universe. Because of God´s love the universe exists at all, humans must learn to love God, so they will learn to love everything what is God´s creation, thus as humans, nature and all things.
“For the lovers of God is God alone the source of sorrow and joy. It is the wages of their work and to be really rich.” (From the Mesnevi of Maulana Jalaluddin Rumi)
In the last year 1,5 million visitors and pilgrims flowed to the mausoleum of Maulana Jalaluddin Rumi, which is today one of Turkeys most visited museums. 200000 visitors came from foreign countries, especiallay from Iran, where Maulana is very famous. From every part of the world humans visited the mystical poet, many of them speaking “Dua” (asking prayers) at his tomb.
After Maulanas death on December 17 in the year 1273 the mausoleum was established over which today rises up the “Kubbe-i-Hadra” (the Green dome), it became the symbol of Konya.
Rumi was buried near his father in the rose garden of the Seljuk palace. Later altogether 55 family members and companion or highranking Mevlevi-Derwishs like Selaheddin Zerkub and Husamedin Çelebi found their last peace at the mausoleum, beside Maulana his son Sultan Veled. The “Tekke” was built, a building for meetings and studies, the Sema hall for mystical dance and small cells for meditation practice like “Zikr” (thinking of God).
Maulana Jalaluddin Rumi was born in the year 1207 in Balkh in the Persian region Horasan (today Afghanistan). His father was the respected scholar Bahaeddin Veled, who left the city with his familiy because of the forthcoming Mongol invasion.
After travelling through different areas and a longer stay in Karaman, finally they came 1228 to Konya, which was the capital of the Rum Seljuk under the powerful Sultan Alaaddin Keykubat. After the death of the father Rumi became also a respected theological scholar. But the meeting and special friendship with Shemseddin Tabrisi, a dervish of the calendar order he met 1244 in Konya, brought him on the mystic way.
The Sufi Derwishorder of the Maulevis, which was founded after Maulanas death, got large influence during the time of the Turkish Seljuk and later in the Ottoman empire. The order was closed, when the new Turkish Republic was established at the beginning of the 20. century. Today exists in many countries, even in Europe and America small private groups, which are following the thoughts of Maulana and partly continuing mystic practices.
The ritual of “Sema”, the mystic dance of turning Maulevi dervishs found its origin in an inspiration of Maulana Celaleddin Rumi, but received its form after his death. Accompanied by the sounds of the flute “Ney” and other instruments, the whirling dervish is turning like in trance around his own axis, the right hand upward to be ready to receice God´s beneficence and the left hand downward to the earth. It symbols the mankind with their connection between heaven and earth.
The day of death Maulana Jalaluddin Rumis on December 17 in the year 1273 is named as “Seb-i-Arus”, what means literally translated “wedding night”. For the inhabitants of Konya at that time Mevlanas death was a drastic event. Sheikh Sadreddin Konevi, another mystic master from Konya, who should speak the last prayer for Maulana, fell in faint because of sadness. To Rumis funeral came numerous representatives of all groups and religions, also Christians and Jews. Despite of the muslim funeral they were reading from the old and new testament and described the character of Maulana as equal with Moses and Jesus. Maulana Jalaluddin Rumi had designated the death as typical for the sufis as “wedding”, a kind of still more intensive mental combination with God. In the Divan the following statement is contained: “When you see my funeral don´t say: What for a separation. It is time for me to meet the lover…”
There is every year a festival week in Konya in December with exhibitans, concerts and performance of the whirling dervish dance “Sema” at the Maulana cultural center (Mevlana Kültür Merkezi).
In 2006 more than 70000 visitors from many different countries came to see the performances. Like every year December 17 was a special day, where hundreds of people came together in the afternoon at the tomb of Maulana to speak “Dua”.
In the Maulana year 2007, which was declared by UNESCO after an initiative of the countries Turkey, Egypt and Afghanistan, will be world-wide cultural and informative events about Maulans philosophy.
Maulana Jalaluddin Rumi will be for every time a good example, because of his tolerance, love and good relation to his fellows.
مولانا جلال الدین محمد بلخی رومی
پیدائش اور نام و نسب
محمد جلال الدین رومی (پیدائش:1207ء، انتقال: 1273ء) مشہور فارسی شاعر تھے۔ اصل نام جلال الدین تھا لیکن مولانا رومی کے نام سے مشہور ہوئے۔ جواہر مضئیہ میں سلسلہ نسب اس طرح بیان کیا ہے : محمد بن محمد بن محمد بن حسین بن احمد بن قاسم بن مسیب بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکرن الصدیق۔ اس روایت سے حسین بلخی مولانا کے پردادا ہوتے ہیں لیکن سپہ سالار نے انہیں دادا لکھا ہے اور یہی روایت صحیح ہے۔ کیونکہ وہ سلجوقی سلطان کے کہنے پر اناطولیہ چلے گئے تھے جو اس زمانے میں روم کہلاتا تھا۔ ان کے والد بہاؤ الدین بڑے صاحب علم و فضل بزرگ تھے۔ ان کا وطن بلخ تھا اور یہیں مولانا رومی 1207ء بمطابق 604ھ میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم
ابتدائی تعلیم کے مراحل شیخ بہاؤ الدین نے طے کرادیے اور پھر اپنے مرید سید برہان الدین کو جو اپنے زمانے کے فاضل علماء میں شمار کیے جاتے تھے مولاناکا معلم اور اتالیق بنادیا۔ اکثر علوم مولانا کو انہی سے حاصل ہوئے۔ اپنے والد کی حیات تک ان ہی کی خدمت میں رہے۔ والد کے انتقال کے بعد 639ھ میں شام کا قصد کیا ۔ ابتدا میں حلب کے مدرسہ حلاویہ میں رہ کر مولاناکمال الدین سے شرف تلمذ حاصل کیا۔
علم و فضل
مولانا رومی اپنے دور کے اکابر علماء میں سے تھے۔ فقہ اور مذاہب کے بہت بڑے عالم تھے۔ لیکن آپ کی شہرت بطور ایک صوفی شاعر کے ہوئی۔ دیگرعلوم میں بھی آپ کو پوری دستگاہ حاصل تھی۔ دوران طالب علمی میں ہی پیچیدہ مسائل میں علمائے وقت مولانا کی طرف رجوع کرتے تھے۔ شمس تبریز مولانا کے پیر و مرشد تھے۔ مولانا کی شہرت سن کر سلجوقی سلطان نے انھیں اپنے پاس بلوایا۔ مولانا نے درخواست قبول کی اور قونیہ چلے گئے اور
اولاد
مولانا کے دو فرزند تھے ، علاؤ الدین محمد ، سلطان ولد ۔ علاؤ الدین محمد کا نام صرف اس کارنامے سے زندہ ہے کہ انہوں نے شمس تبریز کو شہید کیا تھا۔ سلطان ولد جو فرزند اکبر تھے ، خلف الرشید تھے ، گو مولانا کی شہرت کے آگے ان کا نام روشن نہ ہوسکا لیکن علوم ظاہری و باطنی میں وہ یگانہ روزگار تھے۔ ان کی تصنیفات میں سے خاص قابل ذکر ایک مثنوی ہے ، جس میں مولانا کے حالات اور واردات لکھے ہیں اور اس لحاظ سے وہ گویا مولانا کی مختصر سوانح عمری ہے۔
سلسلہ باطنی
مولانا کا سلسلہ اب تک قائم ہے۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ ان کے فرقے کے لوگ جلالیہ کہلاتے ہیں۔ چونکہ مولانا کا لقب جلال الدین تھا اس لیے ان کے انتساب کی وجہ سے یہ نام مشہور ہوا ہوگا ۔ لیکن آج کل ایشیائے کوچک ، شام ، مصر اور قسطنطنیہ میں اس فرقے کو لوگ مولویہ کہتے ہیں۔ یہ لوگ نمد کی ٹوپی پہنتے ہیں جس میں جوڑ یا درز نہیں ہوتی ، مشائخ اس ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں۔ خرقہ یا کرتہ کی بجائے ایک چنٹ دار پاجامہ ہوتاہے۔ ذکر و شغل کا یہ طریقہ ہے کہ حلقہ باندھ کر بیٹھتے ہیں۔ ایک شخص کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سینے پر اور ایک ہاتھ پھیلائے ہوئے رقص شروع کرتا ہے۔ رقص میں آگے پیچھے بڑھنا یا ہٹنا نہیں ہوتا بلکہ ایک جگہ جم کر متصل چکر لگاتے ہیں۔ سماع کے وقت دف اور نے بھی بجاتے ہیں۔
وفات
بقیہ زندگی وہیں گذار کر 1273ء بمطابق 672ھ میں انتقال کرگئے۔ قونیہ میں ان کا مزار آج بھی عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔
قونیہ میں مولانا کا مزار
مثنوی رومی
ان کی سب سے مشہور تصنیف ’’مثنوی مولانا روم‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ ان کی ایک مشہور کتاب ’’فیہ مافیہ‘‘ بھی ہے۔
باقی ایں گفتہ آیدبے زباں
درددل ہر کس کہ دارد نورجان
ترجمہ:”جس شخص کی جان میں نورہوگا اس مثنوی کا بقیہ حصہ اس کے دل میں خودبخود اتر جائیگا”
اقبال اور رومی
علامہ محمد اقبال مولانا رومی کو اپنا روحانی پیر مانتے تھے۔ کشف اور وجدان کے ذریعے ادراک حقیقت کے بعد صوفی صحیح معنوں میں عاشق ہو جاتا ہے کہ بہ رغبت تمام محبوب حقیقی کے تمام احکام کی پیروی کرتا ہے۔ رومی نے جوہر عشق کی تعریف اور اس کی ماہیت کی طرف معنی خیز اشارے کیے ہیں ۔ صوفی کی ذہنی تکمیل کا مقام کیا ہے اس کے متعلق دو شعر نہایت دل نشیں ہیں۔
آدمی دید است باقی پوست است
دید آں باشد کہ دید دوست است
جملہ تن را در گداز اندر بصر
در نظر رو در نظر رو در نظر
علامہ اقبال نے اس کی یوں تشریح کی ہے
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
ان کے 800 ویں جشن پیدائش پر ترکی کی درخواست پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، ثقافت و سائنس یونیسکو نے 2007ء کو بین الاقوامی سالِ رومی قرار دیا۔ اس موقع پر یونیسکو تمغہ بھی جاری کرے گا۔
یہ معلومات وکیپیڈیا سے لی گئی ہے
Subscribe to:
Posts (Atom)