Welcome to the Urdu Poetry Archive! Urdu poetry is like a vast ocean. Walking along its shores on the sands of time, I have gathered a few gems that I would like to share with you.
Showing posts with label Poetry. Show all posts
Showing posts with label Poetry. Show all posts
Wednesday, November 7, 2012
Rabindranath Tagore
Santiniketan – The Place where Rabindranath Tagore opened his School, University and this is the place where the Nobel Laurette wrote all his award winning poems and stories.
*The Gardener*
A wandering madman was seeking
the touchstone, with matted locks,
tawny and dust-laden, and body worn
to a shadow, his lips tight-pressed,
like the shut-up doors of his heart,
his burning eyes like the lamp of a
glow-worm seeking its mate.
Before him the endless ocean
roared. The garrulous waves ceaselessly
talked of hidden treasures, mocking
the ignorance that knew not their
meaning. Maybe he now had no hope remaining,
yet he would not rest, for
the search had become his life,–
Just as the ocean for ever lifts its
arms to the sky for the unattainable-
Just as the stars go in circles, yet
seeking a goal that can never be
reached-Even so on the lonely shore the
madman with dusty tawny locks still
roamed in search of the touchstone.
One day a village boy came up and
asked, “Tell me, where did you come
at this golden chain about your
waist?”The madman started–the chain
that once was iron was verily gold;
it was not a dream, but he did not
know when it had changed.
He struck his forehead wildly–
where, O where had he without know-in it achieved success? It had grown into a habit, to pick
up pebbles and touch the chain, and
to throw them away without looking
to see if a change had come; thus the
madman found and lost the touchstone.
The sun was sinking low in the west,
the sky was of gold. The madman returned on his foot-
steps to seek anew the lost treasure,
with his strength gone, his body bent,
and his heart in the dust, like a tree
uprooted.
By: Rabindranath Tagore
*Glory Falls*
Glory falls around us
as we sob
a dirge of
desolation on the Cross
and hatred is the ballast of
the rock
which his upon our necks
and underfoot.
We have woven
robes of silk
and clothed our nakedness
with tapestry.
From crawling on this
murky planet’s floor
we soar beyond the
birds and
through the clouds
and edge our waays from hate
and blind despair and
bring horror
to our brothers, and to our sisters cheer.
We grow despite the
horror that we feed
upon our own
tomorrow.
We grow.
By: Maya Angelou
The First Jasmines
Ah, these jasmines, these white jasmines!
I seem to remember the first day when I filled my hands
with these jasmines, these white jasmines.
I have loved the sunlight, the sky and the green earth;
I have heard the liquid murmur of the river
through the darkness of midnight;
Autumn sunsets have come to me at the bend of the road
in the lonely waste, like a bride raising her veil
to accept her lover.
Yet my memory is still sweet with the first white jasmines
that I held in my hands when I was a child.
Many a glad day has come in my life,
and I have laughed with merrymakers on festival nights.
On grey mornings of rain
I have crooned many an idle song.
I have worn round my neck the evening wreath of
BAKULAS woven by the hand of love.
Yet my heart is sweet with the memory of the first fresh jasmines
that filled my hands when I was a child.
By: Rabindranath Tagore
Wednesday, October 31, 2012
Jagjit Singh – جگجیت سنگھ
پير 10 اکتوبر2011
بھارت میں غزلوں کے معروف گلوکار اور غزل گائیک جگجیت سنگھ کا ممبئی کے لیلا وتی ہسپتال میں انتقال ہوگیا ہے۔ ان کی عمر ستّر برس تھی۔
گزشتہ ہفتہ برین ہیمبرج کے سبب انہیں ہسپتال میں داخل کیا گيا تھا۔ سوگواروں میں وہ اپنی اہلیہ چترا داس کو چھوڑ گئے ہیں۔
جس روز انہیں ہسپتال میں داخل کیا گیا اس روز وہ ممبئی میں پاکستان کے مشہور زمانہ گلوکار غلام علی کے ساتھ مشترکہ پروگرام پیش کرنے والے تھے۔
جگجیت سنگھ کے ایک ہی بیٹا تھا۔ جو جوانی میں ہی ایک روڈ حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے۔
آزادی کے بعد بھارت میں غزل گائیکی کے فن کے حالات اچھے نہیں رہے تھے لیکن جگجیت نے اس فن کو دوبارہ زندہ کیا اور غزل کو درباروں یا ادب کی محفلوں سے نکال کر عوام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جگجیت سنگھ غزل گلوکاری کے لیے بھارت میں تو مشہور ہیں ہی لیکن ان کے مداح دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔
جگجیت سنگھ ریاست راجستھان کے شری گنگا نگر میں آٹھ فروری انیس سو اکتالیس میں پیدا ہوئے تھے۔ پیدائش کے وقت ان کا نام جگموہن رکھا گيا تھا لیکن ایک خاندانی ستارہ شناش کی صلاح پر ان کا نام جگجیت سنگھ کر دیا گیا۔
جگجیت سنگھ نے فلموں میں بھی نغمے گائے لیکن بھارت میں انہیں غزل گائیکی کا معمار مانا جاتا ہے جنہوں نے اس فن کو عوام میں مقبول کیا۔
نقاد ان کے فن کو معیاری یا اعلٰی پائے کا نہیں سمجھتے ہیں لیکن نکتہ چینی بھی اس بات کے قائل ہیں کہ انہوں نے غزلوں کو فلمی گیتوں کی طرح عوام تک پہنچایا۔
جگجیت سنگھ پہلے اپنی اہلیہ چترا کے ساتھ مل کر غزلیں گاتے تھے اور ان کے کئی البم کافی مقبول ہوئے۔ لیکن بیٹے کی موت کے بعد چترانے اس پیشہ کو یکسر چھوڑ دیا اور کبھی دوبارہ نہیں گایا۔
گجیت نے لتا منگیشکر کے ساتھ مل کر سجدہ کے نام سے ایک البم بنایا تھا جو بہت مقبول ہوا تھا۔ انہوں نے اوشا منگیشکر کے ساتھ بھی کافی کام کیا۔
انہوں نے بالی وڈ کے معروف نغمہ نگار اور شاعر گلزار کے سات بھی کافی کام کیا اور ان کے ٹی وی سیریل مرزا غالب میں انہوں نے کئی غزلیں پیش کیں جو بہت مقبول ہوئیں۔ غالب کی چند غزلوں کو جگجیت سنگھ نے عوام میں دوام بخشا۔ اس سیریل کی بیشتر غزلیں اب بھی لوگوں کی پسندیدہ ہیں۔
انہوں نے جاوید اختر کے ساتھ بھی کام کیا اور سوز کے نام سے ایک البم تیار کیا جو کافی سنا گیا۔
جگجیت سنگھ کو گھوڑوں سے بہت لگاؤ تھا اور گھوڑوں کی ریس کے شوقین تھے۔ ان کے پاس گھوڑے تھے اور ان کی دیکھ بھال کے لیے انہوں نے بہت سے لوگوں کی مدد بھی لی تھی۔
بشکریہ بی بی سی اردو
ہفتہ 24 ستمبر 2011
بھارت کے مشہور غزل گو جگجیت سنگھ کی دماغ کی شریان پھٹنے کے بعد ممبئی کے ایک ہسپتال میں ان کا آپریشن کیا گیا ہے۔
ممبئی کے علاقے باندرہ میں واقع ليلاوتی ہسپتال کے ذرائع نے بتایا کہ جمعہ کی صبح ہسپتال لائے جانے کے بعد ستّر سالہ جگجیت سنگھ کی سرجری کی گئی تاہم ان کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔
دوسری جانب خبر رساں ادارے پی ٹی آئی نے ان کے ایک قربت دار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
انہیں جمعہ کی شام پاکستان کے مشہور غزل گو غلام علی کے ساتھ ایک پروگرام میں شامل ہونا تھا۔
اس سے پہلے جگجیت سنگھ کو سنہ انیس سو اٹھانوے میں دل کا دورہ پڑا تھا اور جسم میں خون کی گردش میں مسائل کی وجہ سے انہیں اکتوبر سنہ دو ہزار سات میں ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔
ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ شاید ان ہی وجوہات کی بناء پر انہیں برین ہیمرج ہوا ہوگا۔
جگجیت سنگھ کے خاندان کے ایک قریبی دوست نے ليلاوتي ہسپتال میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ان کے دماغ کے ایک حصہ میں خون جم گیا تھا جسے نکالنے کے لئے آپریشن کیا گیا۔
ان کے مطابق، انہیں اگلے اڑتالیس گھنٹے تک انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رکھا جائے گا۔
http://www.bbc
Subscribe to:
Posts (Atom)