بینظیر بھٹو کی کتاب سے اقتباسات
’ائرپورٹ سے نکل کر میرا بکتر بند ٹرک چیونٹی کی رفتار سے چل رہا تھا کیونکہ آس پاس مجمع بڑھتا جا رہا تھا۔شام ڈھلی تو سٹریٹ لائٹس مدھم ہوتے ہوتے بجھنے لگیں۔موبائل فون کے سگنل جیم کرنے والے آلات بھی کام نہیں کر رہے تھے، جن کا کام کسی متوقع خود کش بمبار یا بارود سے بھرے ریموٹ کنٹرولڈ کھلونا ہوائی جہاز کو میرے ٹرک کے قریب پھٹنے سے روکنا تھا۔
میرے شوہر آصف نے دبئی میں ٹی وی پر میرے قافلے کی لائیو کوریج دیکھتے ہوئے مجھ سے بات کی اور یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ٹرک کی چھت پر کھڑے ہو کر عوام کے سامنے آنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ لیکن میں نے کہا کہ میں اپنے عوام کے سامنے آ کر ہی ان کا استقبال کروں گی۔
رات گیارہ بجے سے کچھ بعد میں نے ایک شخص کو دیکھا جس نے ایک شیر خوار بچے کو پیپلز پارٹی کے جھنڈے سے ملتے جلتے کپڑے پہنا رکھے تھے اور اسے ہاتھوں میں اٹھائے وہ بار بار مجھے اشارے کر رہا تھا کہ میں بچے کو تھام لوں۔میں نے ہجوم کو اشارہ کیا کہ وہ اس شخص کے لیے راستہ بنائیں۔ لیکن جب اس کے لیے راستہ بن گیا تو وہ آگے آنے سے کترانے لگا اور اس نے بچہ ہجوم میں کسی کے حوالے کرنے کی کوشش بھی کی۔ مجھے تشویش ہوئی کہ بچہ زمین پر گر کر ہجوم کے پیروں میں کچلا نہ جائے، یا کھو نہ جائے۔
میں نے اشارہ کیا کہ نہیں، بچے کو میرے پاس لے کر آؤ۔ میں نے سکیورٹی گارڈ کو بھی اشارہ کیا کہ اس شخص کو ٹرک کے اوپر آنے دیا جائے۔ تاہم جب تک وہ شخص ٹرک تک پہنچا میں ٹرک کے اندر بنے کمرے میں آ چکی تھی کیونکہ میرے پاؤں درد کرنے لگے تھے۔ ہمیں شبہ ہے کہ اسی بچے کے کپڑوں کے نیچے پلاسٹک دھماکہ خیز مواد رکھا گیا تھا۔
ایک ہی جگہ پر دس گھنٹے کھڑے رہنے سے میرے پیر سوج گئے تھے اور جوتا پہننے سے مزید تکلیف ہو رہی تھی۔ میں نے سینڈل کے سٹریپ کھولے اور اپنی سیکرٹری ناہید خان کے ساتھ اس تقریر کے مسودے پر کام کرنے لگی جو مجھے مزار قائد پر کرنی تھی اور جو میری زندگی کی سب سے اہم تقریر تھی۔
ایک نکتے پر بحث کے دوران میں نے کہا کہ ہمیں اس تقریر میں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اس پیٹیشن کا ذکر بھی کرنا چاہیے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ قبائلی علاقوں میں تمام سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کا موقعہ دیا جائے تاکہ انتہا پسندوں کا سیاسی سطح پر مقابلہ کیا جا سکے۔
ابھی میری بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایک زوردار دھماکے سے ٹرک لرز گیا۔ پہلے دھماکے کی آواز، پھر روشنی کا فلیش، پھر شیشے ٹوٹنے کی آواز اور اس کے بعد موت کی خاموشی۔ ذرا دیر کے بعد چیخ و پکار شروع ہوئی، اور میں نے دل میں کہا’ اوہ میرے خدا یہ نہیں ہو سکتا۔
ابھی میرے کان اس دھماکے کی شدت سے بج رہے تھے کہ دوسرا اور زیادہ زور دار دھماکہ ہوا۔عین اسی وقت کوئی چیز ٹرک سے ٹکرائی اور یوں محسوس ہوتا تھا وہ چیز ٹرک کی باڈی کے ساتھ گھوم رہی ہے۔ بعد میں میں نے ٹرک کے بائیں جانب، جہاں میرا کمرہ تھا، باڈی پر ٹکراؤ کے دو نشان دیکھے۔
میں نے باہر دیکھا تو اندھیری رات نارنجی روشنی میں نہائی ہوئی تھی اور سڑک پر لاشیں بکھری پڑی تھیں۔
اب میں جان گئی ہوں کہ پیپلز پارٹی کے رنگوں والے کپڑے پہنے بچے کے ساتھ کیا ہوا۔ پارٹی کے ایک پارلیمانی رکن آغا سراج درانی میرے ٹرک کے آگے راستہ بنا رہے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب مشکوک آدمی نے بچہ ٹرک کے اوپر پہنچانا چاہا تو انہوں نے اسے منع کر کے وہاں سے چلتا کیا۔ اس پر وہ شخص بچے کو لیے ٹرک کے بائیں جانب چلنے والی ایک پولیس گاڑی کی طرف گیا جس میں موجود افراد نے بھی بچے کو لینے سے انکار کر دیا۔ اس سے آگے والی پولیس وین میں پارٹی کی ایک کونسلر رخسانہ فیصل بلوچ اور ایک کیمرہ مین بھی سوار تھے۔
جب وہ آدمی اس وین کے قریب آیا تو پچھلی پولیس گاڑی والوں نےخبردار کیا کہ ’بچے کو مت لینا، بچے کو مت لینا، بچے کو ٹرک کے اندر مت جانے دینا۔
یہ دونوں پولیس گاڑیاں ٹرک کے متوازی اسی جانب چل رہی تھیں جس طرف ٹرک کے اندر میں بیٹھی ہوئی تھی۔ جب پولیس والے اس مشکوک آدمی کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے، اسی وقت پہلا دھماکہ ہوا۔ دوسری پولیس وین میں سوار تمام افراد مارے گئے۔
ایک منٹ سے بھی کم وقفے سے 15 کلوگرام کے ایک کار بم کا دھماکہ کیا گیا اور عینی شاہدین کے مطابق اس کے ساتھ ہی سنائپرز یا ماہر نشانچیوں کو فائرنگ کرتے بھی دیکھا گیا۔
بشکریہ بی بی سی
گڑھی خدا بخش میں پاکستان پیپلز پارٹی کی مقتول سربراہ بینظیر بھٹو کے چہلم میں ملک بھر سے ہزاروں پارٹی کارکنوں نے شرکت کی ہے۔