Showing posts with label Ghazal. Show all posts
Showing posts with label Ghazal. Show all posts

Wednesday, November 7, 2012

Manzil


butt35.gifbutt35.gifmanzil-ko-rehguzar-mein-rose-framed.jpgbutterfly-211.gifbutt35.gif

Why God Made Moms?

choza.gif
Answers given by 2nd grade school children to the following questions: Why did God make mothers?
1. She’s the only one who knows where the scotch tape is.
2. Mostly to clean the house.


How did God make mothers?
1. He used dirt, just like for the rest of us.
2. Magic plus super powers and a lot of stirring.
3. God made my Mom just the same like he made me. He just used bigger parts.



What ingredients are mothers made of ?
1. God makes mothers out of clouds and angel hair and everything nice in the world and one dab of mean.
2. They had to get their start from men’s bones. Then they mostly use string, I think.


Why did God give you your mother and not some other mom?
1. We’re related.
2. God knew she likes me a lot more than other people’s moms like me.


What kind of little girl was your mom?
1. My Mom has always been my mom and none of that other stuff.
2. I don’t know because I wasn’t there, but my guess would be pretty bossy.
3. They say she used to be nice.


What did mom need to know about dad before she married him?
1. His last name.
2. She had to know his background d. Like is he a crook? Does he get drunk on beer?
3. Does he make at least $800 a year? Did he say NO to drugs and YES to chores?


Why did your mom marry your dad?
1. My dad makes the best spaghetti in the world. And my Mom eats a lot.
2. She got too old to do anything else with him.
3. My grandma says that Mom didn’t have her thinking cap on.


Who’s the boss at your house?
1. Mom doesn’t want to be boss, but she has to because dad’s such a goof ball.
2. Mom. You can tell by room inspection. She sees the stuff under the bed.
3. I guess Mom is, but only because she has a lot more to do than dad.


What’s the difference between moms & dads?
1. Moms work at work and work at home and dads just go to work at work.
2. Moms know how to talk to teachers without scaring them
3. Dads are taller & stronger, but moms have all the real power ’cause that’s who you got to ask if you want to sleep over at your friend’s.
4. Moms have magic; they make you feel better without medicine.


What does your mom do in her spare time?
1. Mothers don’t do spare time.
2. To hear her tell it, she pays bills all day long.


What would it take to make your mom perfect?
1. On the inside she’s already perfect. Outside, I think some kind of plastic surgery.
2. Dye it. You know her hair. I’d dye it, maybe blue.
If you could change one thing about your mom, what would it be?
1. She has this weird thing about me keeping my room clean. I’d get rid of that.
2. I’d make my mom smarter. Then she would know it was my sister who did it and not me.
3. I would like for her to get rid of those invisible eyes on the back of her head.

Rasme Karokari – رسم کارو کاری  

Rasme Karokari red

Tuesday, November 6, 2012

Haider Sherazi – تتلیوں کی فصل

Haider Sherazi – تتلیوں کی فصل

تتلیوں کی فصل” butterfly3.gif

مدعا لفظ ہو یا تصویر کیا جائے، کوششِ اظہار انسان کا حق نہیں بلکہ اس پر واجب ہے، لفظ سے تصویر تک سارا کھیل تو

نقطےکے پھیلاو کا ہے، جیسے بیج میں درخت کا ہونا امرِ واقعہ ہےا ُسی طرح نقطےمیں تصویر اور لفظ ہر دو موجود ہوتےہیں،

اِ س کے پھیلاو کا نتیجہ قلم اور مو قلم کے فرق کی بنا پر مختلف ہو سکتا ہے۔


Haider Sherazi and Farzana Khan

میرےخیا ل میں شاعری، قلم سےنقطے کو تصویر کرنا ہے بشرطیکہ نقطےسے کشید کا یہ عمل اپنے پیچ و خم میں رقص کی سی ترتیب رکھتا ہو، ایسی ترتیب جو کوشش کے نتیجے سے زیادہ خود رو محسوس ہوتی ہو کہ کوشش جہانِ ممکنات کا تمدن ہےاور شاعری خدشہ و امکان، ہر طرف نقطے کا پھیلاو کھوجنا ہے، مجھےعادت ہے منظروں سے نابود پس منظروں تک بےارادہ خیال آرائی کی، منظر کےحدود اربعےمیں واقع ہونےکے باوجود، نابودی کے خوف کو مجھ میں دھڑکتا چھوڑ دیا گیا ہے، مجھے میری پیدائش کےواقعے میں قید رکھ کر میری نمو کی حد بندی کردی گئی ہے۔


زمان و مکان کی ردیف میں پابند ہستی کےاس مصرع طرح پر طبع آزمائی کی گنجائش ہی کتنی ہے، قافیہ پیمائی میں مضمون دسترس سےنکل نکل جاتا
ہےاور مضمون سنبھالنے میں بحر کا سانس پھولنے لگتا ہے۔

نقطےکے پھیلاوسے ہستی کےجغرافیے تک کوئی راز ہے جسے ذوقِ نظارہ سےاوجھل رکھا گیا ہے، شاعری نقطےکا اس قدر پھیلاؤ ہے کہ وہ راز تصویر نہ ہونے پائے تو بھی شعور کی سطح پر ثابت قرار پائے، مجھ میں اور فرزانہ خان میں بہت فرق ہےلیکن فرق کی یہ ساری بہتات بھی شاعرانہ ہے، اُس کے ہاں لفظ اُترتا ہوا محسوس ہوتا ہے جبکہ مجھ پر تو لفظ چیختا برستا سنا جا سکتا ہے، اُس کےہاں لفظ سے اُنسیت کا تعلق صاف ظاہر ہے، میرےہاں لفظ کے ساتھ گھمسان کے ایک کارن کی سی کیفیت ہے، فرزانہ درد کو سسکیوں میں اور خوشی کو مسکراہٹوں میں لکھتی ہے، میری طرف لفظ صدائے ماتم سے گونجتا عزاخانہ ہے یا فلک شگاف قہقہ۔۔

کوئی تقابلی مقصد ہرگز نہیں کہ تقابل کےلئے متقابلین سے کما حقہُ آگاہی لازم ہے، یہاں تو المیہ ہے کہ رگِ جان کےقرب و جوار میں بسنے والے کی خبر ہی نہیں، خود سے آگاہی کی ہر کوشش بھی انجامِ کار کسی بند گلی میں لا کھڑا کرتی ہے، زندگی یوں بھی موجود سےمعدوم کی بند گلی تک سرکنا ، رینگنا یا سرپٹ دوڑے جانا ہے، سیدھے رستےکی دریافت میں ہی کہیں عزم سفر مسلسل ہوکر دو گز زمین کا لقمہ بن جاتا ہے۔ جوئے سخن جاری کرنے کو سنگِ وجد پہ امکان کی تیشہ زنی تو ضروری ہے، سختئی روزوشب پہ جب بھی ضرب لگے، لپکتے شعلوں کا حجم اور لپک سختی سے براہِ راست متناسب ہوتا ہے ۔

فرزانہ کےہاں یہ شعلےآتش بازی سےکھلِتے ستاروں اور پھولوں جیسے ہیں، یہ اُس کا ضرب لگانےکا ہنر ہے یا روز و شب کی مہربانی کہ اُس کے ہاں شعلوں میں الاو کی سی کیفیت نہیں، مجھےلگتا ہےکہ کسی نوک دار لمحےسےالجھ کر اُدھڑنےکےبجائے وہ کسی بچگانہ تجسس کےتحت تار تار کُھلی ہے، اُس کے مضامین میں نسوانیت سے مخصوص ترتیب و تنظیم ہے۔ مجھےاُس کےلفظ انگلیوں پہ بےارادہ دوپٹہ کھولتے دکھائی پڑتے ہیں، لگتا ہےکہ خواب دیکھنے کی عمر میں آنکھیں زندگی کی بے ہنگم برہنگی کا شکار ہوئیں تو ایک ایک پور میں حیا رنگ سچائیاں جیسے برف ہو کر جم سی گئیں، اِدھر ضرب شعلہ ہوئی اور اُدھر وہ برف شبنم سی قطرہ قطرہ پگھلنےلگی، ایک ذرہ کسی ایسےقطرے کو قلم سے گدگدایا تو کاغذ پر تتلیوں کی خود رَوفصل اُگ آئی۔

مجھے ہرگز علم نہیں کہ تتلیوں کی اِس فصل پر غالب رنگ نیلا کیوں ہے؟

مجھےتو یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ ان تتلیوں کو درد کی نیلی رگیں کہنے پر کیوں مُصر ہے؟ مجھے تو آسمان کو نیلا دیکھنےکی عادت ہے یا زہر پیالے سے فارغ ہوکر سقراط کا آسمان ہو جانا میرا رومان ہے، ہوسکتا ہے کہ فرزانہ کے ہاں آسمان ریزہ ریزہ زمین کی طرف بکھرتا ہو اور تحیر سے کھنچی کمان ہوا، وجود سے بےکراں خلا میں ڈولتے آسمانی ٹکڑوں میں سے ایک دکھائ پڑ تا ہو۔۔۔۔۔

نقطےکے پھیلاو میں جہاں آسمان آپڑے وہاں خود آزمائی انجام نہیں ہوتی لیکن کوشش کی نوعیت بدل جاتی ہے، آسمان تک رسائی اس کی نیلاہٹ کی تردید کےلئے کافی ہوتی ہے لیکن اس رسائی میں اگر نقطےکا پھیلاو ہی آسمان ہوجائے تو رگوں کی نیلاہٹ ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔

فرزانہ کے ہاں نقطےکے مزید پھیلاو کے سارےامکان ستاروں کی طرح نہیں سورج کی طرح روشن ہیں، سات آسمانوں کا یہ سارا پھیلاو اس کی خواہش میں دھڑکتا محسوس ہوتا ہے، درد کی نیلی رگوں کا یہ ہوشرُباجال اُس کا نہیں اپنی پیدائش کے واقعے میں اسیر ہر شخص کا المیہ ہے، اُس کا کمال یہ ہے کہ اُس نے یہ المیہ لفظوں سےحوصلہ بَنتے ہوئے جھیلا ہے،
ہم پر واجب ہے کہ ہم اُس کےحوصلے میں برکت عطا کئےجانےکی دعا کےساتھ اُسے دیانتداری سےداد دیں۔


Monday, November 5, 2012

Dr.Tahir Taunswi – نسأیت، نیناں اور نیلے چراغ

Dr.Tahir Taunswi – نسأیت، نیناں اور نیلے چراغ

نسائیت، نیناں اور نیلےچراغ

اردو شاعری کا مطالعہ کریں اور اخبارات و رسائل کا جائزہ لیں تو یوں لگتا ہےکہ ایک سیلِ شاعرات ہےکہ بہتا چلا آرہا ہےاور شعری مجموعوں کا یہ عالم ہے کہ چھپتے چلے جارہے ہیں، مشاعرے ہو ں یا تقریبات خواتین ہیں کہ چھائی چلی جارہی ہیں اور اس فعل حالِ جاریہ میں معیار کا تجزیہ کریں تو گراف اونچا دکھائی نہیں دیتا بلکہ صورتِ حال کچھ اور دکھائی دیتی ہے ۔ ۔ ۔

کہ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

تاہم عہدِ موجود میں ایسی شاعرات بھی ہیں جن کی بدولت اردو شاعرات کا بھرم قائم ہےاور آٹےمیں نمک کےبرابر سہی مگر ان کےاظہار کا اپنا ذائقہ ان کے وجود کی واضح نشاندہی کرتا ہے اس حوالےسے ادا جعفری، پروین فنا سید، شبنم شکیل، پروین شاکر، شاہدہ حسن، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، منصورہ احمد، شاہین مفتی، سارہ شگفتہ اس میں چند اور جینوئین شاعرات کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

خواتین قلم کاروں کےاس قبیلےمیں فرزانہ نیناں بھی انفرادی شان کےساتھ شامل ہوئی ہےاور اس کےکلام ِ غزل و نظم کو پڑھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بہت کم عرصےمیں اعتناد اور پوری تخلیقی توانائی سےاپنا شعری سفر طےکرنا شروع کیا ہےاور اس کےشعور و آگہی کی ندی مدھم سروں سےبہتی ہوئی دل و دماغ کو ٹھنڈک اور فکر و نظر کو تازگی عطا کرتی ہےاور اس کی غزل اور نظم کا مطالعہ اس بات کا اعلان نامہ بھی ہے کہ اس کے پس منظر میں نیناں ہی بول رہی ہے، یہ اس کی اپنی آواز ہے جس نےتخلیقی چشمے میں ارتعاش پیدا کیا ہے۔اس کا شعری ورثہ اپنا ہی ہے، اس کےلب و لہجہ میں جو گداز ، اپنائیت، درد اور شیرینی ہے وہ ایک عورت کےاسلوب کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس تناظر میں اس کےشعری مجموعے ‘نیلی رگیں‘ کا نام بھی پوری شعری معنویت کے ساتھ سامنے آتا ہے اور جس طرح درد کا رگوں سے گہرا تعلق ہے اور پھر رگوں پر چوٹ (خواہ وہ ہلکی سی کیوں نہ ہو) لگتی ہے اس کی وجہ سے جو نیلاہٹ آجاتی ہےاس دکھ اور درد کی توجیہہ اور اس کے پیدا ہونےکی وجوہات کا تذکرہ لفظوں کےحوالے سے جس طرح نیناں نے کیا ہے اور سماج کی ساری کیفیات کو جیسے بھرپور انداز میں وہ سامنے لائی ہے اس میں اس کا ذاتی تجربہ ،مشاہدہ اور مطالعہ ایک مثلث شکل اختیار کر لیتا ہے اور پھر اس کی سوچ اور فکر کےدھارے رنگا رنگ موضوعات کی صورت میں شعر کے قالب میں ڈھل جاتے ہیں، یہاں دیدہءبینا کی فرزانگی بھی ہے اور عشق و محبت کی دیوانگی بھی، تخلیقی اظہار کےاس تنوع میں نیناں کی نسائیت نے بڑا کردار ادا کیا ہے جو اس کی ذات پر اعتماد سے چھائی ہوئی ہے۔

جس طرح ہندی اور پاکستان کی علاقائی زبانوں میں عورت ہی عاشق کا روپ دھارتی ہے، نیناں کے ہاں بھی یہی رویہ ہے کہ وہ دیوانگیءعشق میں سسی کی طرح نہ صرف مارو تھل کی خاک چھانتی ہے بلکہ فراقِ پُنل میں رات بھر اپنی پلکوں کو جھپکنے بھی نہیں دیتی اور یہ اس کی سچی، حقیقی اور بےلوث محبت کا ثبوت ہے، وہ اپنےمحبوب کی یاد کو سینے سے لگائےاس کے خیال میں گم رہتی ہے اور اپنی ذات کو اس کی ذات میں اس طرح چھپا لیتی ہے جیسے کوئی کسی کی پناہ لےرہا ہو، اس کے یہاں وصلِ یار کی خواہش اورتمنا ضرور ہےمگر اس ہجر کی آگ میں جلنے کا جو عمل ہےاس کا لطف ہی کچھ اور ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ یادِ یارِ مہرباں کو اپنی زندگی کا سرمایہ سمجھتی ہے، اس کےاظہار کی یہ جھلکیاں دیکھیں ۔ ۔ ۔

تلاش بستی میں کرتا ہے جس کو شہزادہ
وہ مورنی کسی جنگل نے پال رکھی ہے

رہیں گےنام وہ پیڑوں پہ نقش صدیوں تک
چڑھا کےجن پہ بہاروں نےچھال رکھی ہے

نیلگوں جھیل میں ہے چاند کا سایہ لرزاں
موجِ ساکت بھی کوئی آئےسنبھالےاس کو

اپنے بےسمت بھٹکتے ہوئے نیناں کی قسم
کتنےخوش بخت ہیں سب دیکھنے والےاس کو

اب کےٹس سے مس نہیں ہونا ہوا کے زور پر

بے دھڑک لکھے وہ ان پتوں پہ رائے بےحساب
نیلمیں نیناں میں جلتے بجھتے ہیں نیلےچراغ

خالی کمرے میں چلےآتے ہیں سائے بےحساب

نیلے سمندروں کا نشہ بڑھ نہ جائے گا
موتی نکال لاؤں اگر بے شمار میں

کبھی ہم نیل کے پانی میں اس انداز سے ڈولیں

کہ اپنی داستاں لکھ دیں اسی دجلہ کےدھاروں میں

ان اشعار میں نیناں نے زندگی، محبت، عشق، چاہت، پیار اور اس سے پیدا شدہ کیفیات کی جو عکس ریزی کی ہےاس میں حیات و کائنات کے سارے رنگ موجود ہیں، تاہم اسے نیلے رنگ سے زیادہ انس ہے، میرے نزدیک نیلی، نیلگوں، نیلمیں اور نیل کے ساتھ نیناں نے جو ہم آہنگی پیدا کی ہے اور پھر درد کی نیلی رگوں نے جو مضمون آفرینی کی ہے اس کےتناظر میں یہ بات سامنےآتی ہے کہ اس نے نیلے رنگ سے اپنی شاعری میں ایک نیا انداز اور نیا طرزِ ہنر پیدا کیا ہے جو حرفی اور معنوی دونوں اعتبارات سے نہ صرف دیکھنے میں بھلا معلوم ہوتا ہے بلکہ اس کے حسن کو محسوس بھی کیا جا سکتا ہےاور اس کے ظاہر و باطن کے موسموں کا بھی ادراک ہو جاتا ہے، یوں دیکھیں تو نیناں کی غزل کا مزاج ہی بدل جاتا ہے اور نئی رُتوں کا ذائقہ محسوس ہوتا ہے، نیناں کے محسوسات کو اس زاویے سے دیکھیں ۔ ۔

ہے ذرا سا سفر گذارا کر

چند لمحے فقط گوارا کر


آسمانوں سے روشنی جیسا

مجھ پہ الہام اک ستارا کر


دھوپ میں نظم بادلوں پر لکھ

کوئی پرچھائیں استعارا کر


کھو نہ جائےغبار میں نیناں

مجھ کو اے زندگی پکارا کر

یہ خوبصورت اظہار نیناں کی اس طرح کی دوسری غزلوں میں بھی پھیلا ہوا ہے جن میں اس نے استعارہ، پکارا، ستارا کرنے کی باتیں کی ہیں جن میں کوئی دوسرا شریکِ گفتگو ہے اور وہ بھی اس طرح ۔ ۔ ۔

مرے خیال کے برعکس وہ بھی کیسا ہے

میں چھاؤں چھاؤں سی لڑکی وہ دھوپ جیسا ہے


یونہی نہیں تمہیں نیناں نے روشنی لکھا

تمہارے ساتھ ہمارا یہ رشتہ طے سا ہے

اس کیفیت کو نیناں نے ایک اور رنگ میں یوں بیان کیا ہے

رات دن سویروں سا خواب جلتا رہتا ہے
شام رنگ جنگل میں، میں ہوں اور مرا ساجن

محبت کرنے والوں کی کہانی بس یہی تو ہے
کبھی نیناں میں بھر جانا کبھی دل میں رچا کرنا

اس طرح دیکھیں تو نینوں میں بھر جانے والے دل میں رچنے کی بات محبت کرنے والوں کی کہانی کو جنم دیتی ہے اور اس کہانی کا تسلسل نیناں کی نظموں میں بھی موجود ہے مگر فرق یہ ہے کہ وصال سے زیادہ فراق کا رنگ نمایاں ہے چنانچہ اس کی نظمیں

کبھی تم بھی ہم کو ہی سوچنا؛
کب تم مجھ کو یاد کروگے ؟

فقط اک پھول؛

محبت کے ثمر آور گلابوں کی داستاں سناتی ہیں مگر اس کے پس منظر میں درد کی جو لےاور دکھ کی جو ر وَ ہے وہ درد کی نیلی رگوں کی صورت میں عکس ریز ہوتے ہیں، یہاں اس کا لب و لہجہ بھی بدلا ہوا اور اسلوب بھی مختلف ہے اور بین السطور جو کیفیت ہےاس کا اندازہ مشکل نہیں

شام کےسناٹےمیں بدن پر کوٹ تمہارا جھولےگا
یاد کا لمس ٹٹولے گا ،گھور اداسی چھولے گا

اونچی اونچی باتوں سے تم ،خاموشی میں شور کروگے
گیت پرانے سن کر ٹھنڈی سانسیں بھر کر بھور کروگے

اس پل شب کی تنہائی میں اپنےدل کو شاد کروگے ۔۔۔

بولو مجھ کو یاد کروگے ؟

(کب تم مجھ کو یاد کروگے)

کبھی تم بھی ہم کو ہی سوچنا
کبھی اڑتی چڑیاں دبوچنا
یہ کھرنڈ زخموں سےنوچنا
(کبھی تم بھی ہم کو ہی سوچنا)

ان نظموں میں موضوع اور اسلوب کا جو نیا پن ہے وہ نیناں کے بے پناہ تخلیقی شعور اور ندرت، فکر و خیال کی عکاسی کرتا ہے اور اس بات کےامکانات کی بشارت بھی دیتا ہے کہ لمحہءموجود میں اس نے جو کچھ لکھا ہے اور جو بھی اس نے کہا ہے وہ اسےاس قبیلے کی جس کا ذکر آغاز میں ہوا ہے معتبر ،توانا اور منفرد شاعرہ کے طور پر سامنے لاتا ہے، ابھی اسے بہت کچھ کہنا ہے، بہت کچھ دیکھنا ہے اور بہت کچھ سیکھنا ہے، جوں جوں وہ اس حال سے گزرتی جائے گی اس کا رنگ، ہنر، فکر و فن نکھرتا اور سنورتا چلا جائے گا۔

آنے والا وقت یقینی طور پر ‘نیلی رگیں‘ کے مطالعے سے سرشار ہوکر اسے اردو کی منفرد شاعرہ کے طور پر تسلیم کرے گا جبکہ میرے نزدیک اس وقت بھی وہ اردو کی منفرد شاعرہ ہے جس نے نسائیت کے حوالے سے نیناں کے نیلے چراغ روشن کیئے ہیں، اس لیئے کہ نیلے رنگ کی چمک کبھی مدھم نہیں ہوتی، آنکھوں میں سمندر کو تیراتی اور آسمان کو لہراتی رہتی ہے اور یہی حال نیناں کی شاعری کا ہے۔

تحریر:ڈاکٹر طاہر تونسوی

Chamakdaar Sitara – چمکدار ستارہ

Chamakdaar Sitara – چمکدار ستارہ

 

Aqeel Danish – ہوا کے دوش پر

Aqeel Danish – ہوا کے دوش پر

تذکرہ کتابوں کا۔۔۔”درد کی نیلی رگیں“

peacock3.gif


ہوا کےدوش پر سنی جانےوالی آواز، ”فرزانہ خان نیناں“ بڑی پہلو دار شخصیت کی مالک ہیں، خوش آوازپیشکار، خوش فکر شاعرہ اور پُر اَثر کہانی کار، اپنی شعری کاوشوں کو انہوں نے”درد کی نیلی رگوں“ کےنام سےاردو دنیا کی نذر کیا ہے، یہ شعری مجموعہ بلا مبالغہ مغرب میں شائع ہونےوالی کتابوں میں ایک خوبصورت ترین کتاب ہے، اسے یہ خوبصورتی اور نفاست عطا کرنے میں فرزانہ نے جو کاوشیں کی ہوں گی ان کا احساس وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہوں نےاپنی تخلیقات کتابی شکل میں منضبط کی ہیں،۔

فرزانہ نیناں نےاس مجموعےکو نہ صرف صوری شکل ہی میں منفرد نہیں بنایا ہے بلکہ معنوی سطح پر بھی انفرادیت عطا کی ہے، اس مجموعے میں شامل غزلیں اور آزاد نظمیں اپنےاندر فکر و معانی کا ایک جہان لئے ہوئے ہیں اور قابلِ قدر اَمر یہ ہےکہ یہ جہان فرزانہ نیناں نے خود بسایا ہے، ان کے ہر مصرع اور ہر شعر پر ان کے رنگ کی چھاپ ہے، یہ اعزاز اور یہ افتخار بہت کم سخنوروں کو نصیب ہوتا ہے۔ نیناں کے بسائے ہوئےاس جہان میں رنگ ہے، خوشبو ہے، چاندنی ہے، موسیقی ہے، جھرنوں کا ترنم ہے، پرندوں کی چہچہا ہٹ ہےاور اشکوں کے موتی ہیں، آپ بھی اس جہان پر ایک نظر ڈالیئے:۔

مثالِ برگ میں خود کو اڑانا چاہتی ہوں ۔۔۔ ہوائےتند پہ مسکن بنانا چاہتی ہوں

روز دیکھا ہےشفق سےوہ پگھلتا سونا۔۔۔روز سوچا ہےکہ تم میرے ہو میرے ہو نا

میں اپنےدل کی گواہی کو کیسےجھٹلاوں ۔۔۔ جو کہہ رہا ہے مرا دل وہ بلکل ایسا ہے

کسی کےعکس میں کھوئی ہوں اتنی۔۔۔خود آئینےسےاوجھل ہوگئی ہوں

ممکن ہےاس کو بھی کبھی لےآئےچاند رات ۔۔۔ کچھ پھول سونےگھر میں کبھی رکھ دیا کرو

زندگی کےہزار رستےہیں ۔۔۔ میرےقدموں کا ایک رستہ ہی

نیناں اُڑی جو نیند تو اک جانفزا خیال ۔۔۔ خوشبولگا۔۔بہار لگا۔۔۔روشنی لگا

بتاو آگ بجھانےکوئی کہاں جائے ۔۔۔ لگائےآگ اگر ماہتاب پانی میں

نیناں کا لہجہ خالص نسائی ہے، ان کا اور پروین شاکر کا تعلق ایک ہی درسگاہ سے رہا ہے ممکن ہےکہ شعوری یا غیر شعوری طور پر انہوں نے پروین شاکر کےرنگ سےتاثر حاصل کیا ہو، چند مثالیں دیکھئے:۔

میری خاموشی کو چپکےسےسجادو آکر۔۔۔ اک غزل تم بھی مرےنام کبھی لکھونا

اسےجو دھوپ لئےدل کےگاؤں میں اترا۔۔۔ رہٹ سےچاہ کا پانی پلانےوالی ہوں

بدن نےاوڑھ لی ہےشال اس کی۔۔۔ ملائم ، نرم، مخمل ہوگئی ہوں

پیار کی کہانی میں سچ اگر ملےنیناں۔۔۔ عمر باندھ لیتی ہیں لڑکیاں وفاؤں سے

غزلوں کی طرح نیناں کی نظموں میں بھی ایک خاص رنگ اور انداز ہے، جسےنیناں کا رنگ کہا جا سکتا ہے۔ ”درد کی نیلی رگیں“ میں نہ معاشرے کی بےانصافی کا شکوہ ہےنہ ظلم و ستم پر واویلا ، نہ معاش کا رونا ہی، نہ مشین کی کرخت آوازوں کا ماتم، اس میں تو عشق کی تپش ہے، محبت کی آنچ ہی، وفا کی خوشبو ہےاور آنچل کی ٹھنڈی ہوا۔۔۔!۔

ہمیں یقین ہے کہ اس زر گزیدہ فضا میں نیناں کی شاعری تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی اُس جہان میں لے جائے گی جہاں چاند ستارے اور جگنو انسان کے تاریک دل کو اُجال دیتے ہیں۔

تبصرہ نویس:عقیل دانش، لندن

کتاب ملنےکا پتہ:
ای میل کےذریعے:farzananaina@yahoo.co.uk
قیمت: ٨ پونڈ
my-book-1.jpg

ناشر- لوحِ ادب پبلیکیشنز، کراچی

 

Wednesday, October 31, 2012

Zaroorat – ضرورت

Zaroorat – ضرورت

Falak jaisa ho dil uska

Qadam suraj ke jaise hon

Wo karriyal jism rakhta ho, Nigha shehbaaz jaisi ho

Wo bole tau mohabbat karwatein leti ho lafzon mein

Badan ke gandami peikar mein garmi ho qayamat ki

Kuch aisa sarw’qaamat ho, chale jo saath mere tau

Usey ruk ruk ke dekhein larkiyaan rah mein

Siyaah baalon ka koi sheid jo aajaey maathey par

Tau do’pehron mein dam bhar shaam ke saaye ubhar aayein

Mujh aisi kehkashaaon ko wajahat dekh kar uski

Zameen par toot girne ki tammana tang kerti ho

Magar mein sochti hon, waqi’atan koi aisa ho

Tau kya mere qadam bhi bhool jayeingay gali apni

Nahein, …. aisa nahein hoga

Nahein aisa nahein hoga

Bohut hi khoobsurat hai …meri shaadaab tanhaee

Bohut hi khoobsurat hai

Jisey meri zaroorat hai !!!

 

Ye kaisa ghar – یہ کیسا گھر بنایا ہے

Ye kaisa ghar – یہ کیسا گھر بنایا ہے


Ye kaisa ghar copy



 

Wo Peele Perr – وہ پیلے پیڑ

Wo Peele Perr – وہ پیلے پیڑ




Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...