Showing posts with label Articles. Show all posts
Showing posts with label Articles. Show all posts

Wednesday, November 7, 2012

KHALIFA MAMUN-EL-RASHID 813-833 A.D (198 A.H. -218 A.H.)

KHALIFA MAMUN-EL-RASHID 813-833 A.D (198 A.H. -218 A.H.)

During the reign of abbasid caliph mamun-el-Rashid notable progress was made in
the since of astronomy and first observatroy to measure earth’s circumference was
established under his order well. known astronomers like yahya bin Mansoor, Khalid
bin Abdul Malik Maruzie and Abbas bin Saeed prepared astronomical tables to establish
an observatory at the city of Shamasa to collect infomation about the sun and other
planet.

It is a artwork of well Know pakistan’s artisit Aftab Zafar .

Tuesday, November 6, 2012

Shair-E-Lashker – شاعرِ لشکر

Shair-E-Lashker – شاعرِ لشکر

قبلہ میرے بڑے اچھے دوست ھیں، ان کو پیار سے میں شاعر لشکر کہتا ھوں۔
وجہ ؟؟؟
قبلہ gregarious جانداروں کی طرح رہتے بھی شاعروں کے لشکر میں ہیں اور ان کا مزاج اور انداز بھی لشکری شاعروں جیسا ہے۔ یعنی اپنے لشکر کی تعریفوں کے پل باندھتے رہنا خواہ وہ مائل بہ شکست ہی ہو اور مخالف لشکر کی ہجو کرنا خواہ وہ کشتوں کے پشتے لگا رہا ہو۔ ان کے لشکر میں شامل ہونے کی بنیادی اہلیت عورت ہونا ہے لیکن اگر بدقسمتی سے فطرت آپ کو عورت بنانے میں ناکام رہی ہے تو بھی آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے لیے بھی اِن کے لشکر میں شامِل ہونے کی گنجائش موجود ہے۔ ان کے لشکر میں شامل ہونے کے لیے آپ کا اچھا شاعر ہونا قطعا ضروری نہیں، بس ان کی ہاں میں ہاں ملاتے جا ئیے یہ خود ہی اپنے زور بازو سے آپ کو اعلی ترین شاعر منوا لیں گے۔
اجی ٹھرئیے، رکیئے بھئی، سنیئے تو، کہاں بھاگ لیئے! آپ تو عظیم شاعر بننے کے جنون میں بغیر سوچے سمجھے میری بات سنتے ہی اِن کے لشکر میں شامل ہونے بلکہ کودنے کا سوچنے لگے ۔ پہلے میری پوری بات تو سن لیں!
لشکر کے spirit کو برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے اس میں موجود رہنے کا معیار امریکہ کی طرح بڑا سخت رکھا ہوا ہے، یعنی .You are either with us or against us۔

اس معیار کو جان لینے کے بعد بھی اگر ابھی تک آپ ذہن پر راتوں رات عظیم شاعر بننے کا خناس چھایا ہوا ہیے تو مجھے آپ سے بڑی ہمدردی ہے، کیونکہ اِن کے لشکر میں آ چکنے کے بعد کبھی آپ بھولے سے بھی اِن کے مخالِف لشکر کی تعریف کرنے کی حماقت کر بیٹھیں تو آپ کے لیے اِن کے قہر سے بچنے کی دعا ہی کی جا سکتی ہے، لیکن میں جانتا ہوں یہ معجزہ ہو گا نہیں!!!

اب آپ پر طعن و تشنیع کے ایسے ایسے کوڑے برسیں گے کہ زمین بھی آپ کو پناہ دینے سے مکرر انکار کر دے گی۔ پھر facebook پر آن لائن ہوتے ہی آپ پر وہ وہ تبرے برسیں گے کہ آپ کی حالت نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن والی ہو کے رہ جائے گی۔ آپ بڑی خجالت محسوس کرتے، گڑگڑاتے، گھگھیاتے، دوڑے دوڑے واپس آئیں گے اور قبلہ کے پاوٗں پڑ جائیں گے لیکن اب آپ کو بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ قبلہ آپ کو لشکر میں واپس قبول نہیں کریں گے کیونکہ۔۔۔۔گربہ کشتن روز اول۔۔۔۔ان کا فلسفہ ہے۔آخر محاورے ہوتے کس لیے ہیں۔

اب تک آپ کی حالت بڑی قابل رحم ہو چکی ہوتی ہے کہ مخالف کیمپ بھی تو آپ کو قبول نہیں کر رہا ہوتا۔۔۔آپ تو محض اپنے خوش ذوق اور ادب دوست ہونے کا مظاہرہ کر رہے تھے اور یہ کیا ہو گیا۔۔۔۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے۔۔۔ دیکھا قبلہ کا انتقام!
قبلہ کو عاجزی بہت پسند ہے لیکن صرف دوسروں میں۔ آپ ان سے جتنی زیادہ عاجزی سے ملیں گے آپ کے شاعرانہ درجات بلند ہونے کے امکانات اُتنے ہی زیادہ ہیں۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کب سے اُول جلُول بک رہا ہے لیکن اس ذاتِ والا صفات کا نام ابھی تک نہیں بتایا۔ قبلہ کے متعلق اِتنا کہنا ہی کافی ہے کہ آپ۔۔۔۔ اسم بامسمی۔۔۔۔ کی مکمل تعریف ہیں اور ہمہ وقت شاعری کے اعلَی و ارفع مقام پر فائض رہتے ہیں۔ ا للہ کی صناعی میں سرِمُو تبدیلی کو کفر گردانتے ہیں لہزا اللہ نے فطرۃ جیسا پیدا کیا تھا اُس پر راضی بہ رضا ہیں اور آج تک اُس میں کوئ تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ جنوبی امریکہ کے ملک کینیڈا کا ایک شہر ٹورانٹو اِن کی آماجگاہ ہے۔ ٹورانٹو، اسکے گردو نواح اور facebook پر بکثرت پائے جاتے ہیں۔

بچپن سے ہی میرے اور کچھ اور دوستوں کے دوست ہیں، بچپن کا حوالہ اِس لیئے نہیں دے رہا کہ ہم کوئ بچپن میں ایک ہی لنگوٹ پہن کر گھومتے رہے تھے بلکہ بچپن کی دوستی کا حوالہ اِس لیئے دے رہا ہُوں کہ یہ ہمارے دوست تو بیشک ہیں لیکن اِن کے سامنے ہم پاوں پاوں چلتے بچے ہی ہیں۔ ہم اِن سے کوئ بھی بات کر لیں اور اُس بات کی سپورٹ میں چاہے جتنی بڑی مرضی علمی یا عقلی دلیل پیش کر لیں یہ اُس کو بچوں جیسی بات کہ کے ہمیں چپ کرا دیتے ہیں۔ اِن کے اِس رویے نے ہم پر بڑے منفی اثرات ڈالے ہیں۔ اِن کے رویے کا اثر مجھ پہ یوں ہوا ہے کہ میرا سارا اعتماد جاتا رہاہے اور میں بات کرتے ہُوئے اکثر ہکلا جاتا ہُوں۔ اور ایک دوست تو بیچارہ باقائدہ تُتلانے پر اُتر آیا ہے۔ اور تو اور بے دھیانی میں انگوٹھا تک چوسنے لگتا ہے۔

دنیا میں گنجے دو قسم ک ہوتے ہیں، ایک وہ گنجا کہ جب آ رہا ہو تو دُور سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ گنجا آ رہا ہے اور دُوسری قسم کا وہ کہ جب تک گزر نہ جائے پتہ ہی نہیں چلتا ہے کہ گنجا ہے۔۔۔ قبلہ پہلی قسم کے گنجے ہیں اور اِن کو آتے دیکھ کر بچے دُور سے ہی شور مچانے لگتے،۔۔۔ گنجا آیا، گنجا آیا! ایک دن مجھ سے ملے تو اُکھڑے اُکھڑے سے بولے، ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔۔۔۔حضور خیریت تو ہے؟ بولے خاک خیریت ہے، بیگم سے لڑائی ہو گئی ہئ۔۔۔ کہتی ہیں ہفتے بھر کا صابن لاتی ہوں اور تم تین چار روز میں ہئ ختم کر دیتے ہو!۔۔۔ تم ہی بتاوُ بھلا اِس میں میرا کیا قصُور ہے، صبح منہ دھوتے ہُوئے پتا ہی نہیں چلتا کہ صابن کہاں تک لگانا ہے؟ قبلہ نائی کے پاس جاتے ہیں تو جانے کس دھن کہتے ہیں۔۔۔۔ یار آج بال ذرا سٹائلش کاٹنا، ایک مشاعرہ ہے (انتہائ چھچھورے انداز مین آنکھ مارتے ہوئے) اُس میں خواتین بھی ہوں گی۔ میں ایک تازہ غزل پڑھوں گا!۔۔۔۔ نائ بھی ان کا دل رکھنے کو دائیں کنپٹی سے کچھ بال اُٹھا کر قبلہ کی چندیا پر پھیلا دیتا ہے،اور سوچنے لگتا ہے کہ اگر یہ اپنی غزل کے ساتھ تازہ کا لفظ نہ بھی لگائیں تو میں تو کیا پُورے محلے کو پتہ ہوتا ہے آپ ساری ساری رات بیٹھ کر غزلیں ہی بُنتے ہیں اور صرف تازہ ہی پڑھتے ہیں۔۔۔۔۔خدا گنجے کو ناخن نہ دے والا مُحاورہ اِن کے گنجے ہونے کے بعد ہی اِیجاد ہُوا تھا۔

سنا ہے گھر میں صرف یہی ہیں جو پڑھے لکھے پیں،اور اِس کی تصدیق کچھ قبلہ کے لب و لہجے اور مزاج سے بھی ہوتی ہے۔ ایک دفعہ ان کے ابا کے ایک دُور کے دوست مری سے ملنے آئے تو اِن کے بڑے بھائی کے متعلق پوچھنے لگے کہ کیا کام وام کرتے پیں۔ اِن کے ابا فرمانے لگے۔۔۔۔۔,بس یار کیا بتاوں ابھی تک فارغ ہی ہے,۔۔۔۔ پھر قبلہ کا ذکر چھڑ گیا تو اِن کے ابا بولے۔۔۔۔, چھوڑو یار وہ بھی شاعر ہے,۔۔۔۔۔دوست بڑے حیران ہوئے اور لگے پوچھنے کہ یہ تم نے شاعر کے ساتھ ۔۔۔ بھی۔۔۔ کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے؟۔۔۔۔ تو اِن کے ابا بولے کہ۔۔۔ بھی۔۔۔ اس لیے لگایا ہے کہ شاعر ہے تو اُسے بھی فارغ ہی سمجھو!۔ ان کے ابا کے دوست کہنے لگے یار پڑھا لکھا ہے کہیں نہ کہیں تو جڑ دیتے۔۔۔۔۔
بس اُس دن کے بعد سے اِن کو کچھ الفاظ۔۔۔ ۔بھی۔ ۔ہی۔ ۔پِھر۔ ۔پُھر۔ ۔جڑا۔ ۔کھڑا۔ ۔پہاڑیاں۔ اور اس قبیل کے کئی اور الفاظ سے ایک خاص قسم کی چڑ ہو گئ۔ اب تو یہ حالت ہے کہ کوئ بھی اِن الفاظ کو اپنی گفتگو میں استعمال کرے یہ فوراّ بھڑک جاتے ہیں۔ قبلہ کو لگتا ہے کہ اِن کا مضحکہ اُڑانے کے لیئے یہ الفاظ استعمال کیے جا رہے ہیں۔

قبلہ چوبیس گھنٹے ہی فارغ ہوتے ہیں اور اِس فراغت کو فیس بک پر نظر رکھنے کے لیئے استعمال کرتے ہیں۔ ایک بڑا سا رجسٹر بنا رکھا ہے جس پر مختلف قسم کا ڈیٹا لیتے رہتے ہیں۔ امرہکہ کے انسٹیٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز کی طرح فیس بک پر وقوع پزیر ہونے ولی تبدیلیوں کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ مثلا کس خوبصورت خاتون کو کتنے پھول مل رہے ہیں اور کون کون بھیج رہا ہے؟ کس کس کو کون کون کب کب کس کس زبان میں کومنٹس بھیج رہا ہے، وغیرہ؟ اور پھر انہی سٹڈیزکی روشنی میں امریکہ کی ہی طرح مختلف قسم کی پالیسیاں وضع کرتے ہیں۔ اور پھر ان پالیسیز کی روشنی میں موقع، دوستی، دشمنی، صنف، اور مختلف زبانوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مختلف کومنٹس فرماتے رہتے ہیں۔ کس کو کس وقت کون سی اذیت، طعنہ یا دھمکی دینی ہے یہ تمام تفصیلات قبلہ اپنی انہی سٹڈیز کی روشنی میں وضع کرتے ہیں۔

قبلہ کو آج تک اچھی اور معقول بات کرتے نہیں دیکھا گیا، سوائے چند غزلوں کے۔ ستم ظریفی دیکھیئے کے کہ برنیتی پر مبنی ان کی انتہائ نامعقول کوششوں کے باوجود کچھ لوگوں کا فائدہ ہو جاتا ہے، مثلا۔۔ فیس بک پر آپ کو کوئ خاتون اچھی لگتی ہیں، اور آپ اپنے اُسی جزبے سے مغلوب ہو کر اس خاتون کے کسی ادب پارے پر کوئ اچھا سا تبصرہ کرتے ہیں، اور وہ بیچاری کسی نامعقول وجہ سے ان کی معتوب ہونے کا شرف بھی رکھتیں ہیں، تو قبلہ فورا ہی آپ پر حملہ آور ہوں گے اور آپ کو اُن محترمہ کے عاشق ہونے کے اعزاز سے نوازیں گے۔۔۔۔۔ اب آپ کے دل میں تو کب سے یہ کھد بد ہو رہی تھی کہ اُن محترمہ تک اپنی بات کیوںکر پہنچائ جائے، ایسے میں ان کے یہ کومنٹس آپ کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوں گے۔۔۔۔آپ اُن محترمہ کے پرسنل میسیج میں بظاہر تو ان کے مخرب اخلاق کومنٹس پر برا ہی منائیں گے، لیکن اندر ہی اندر آپ خوش ہو رہے ہوں گے جو کام آپ مہینوں سے نہیں کر پا رہے تھے قبلہ کے ایک کومنٹ نے چٹکیوں میں کر دیا۔ ان کے اس فیضان سے میں بھی سیراب ہو رہا ہوں۔ کبڑے کو ان کی لات راس آگئ ہے اور الحمدللہ اب فیس بک پر تین چار محبوبائیں مل گئ ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ سب ہی مجھ سے ہزارہا میل کی دوری پر رہتی ہیں لیکن اس کی کون کافر پروا کرتا ہے۔ بندے کا فقط مجھ سا چھچھورا ہونا ہی کافی ہے۔

قبلہ دشمن سازی میں بڑے خود کفیل ہیں۔ آپ دشمنی ٹالنے کی چاہے لاکھ کوشش کریں اور اسی کوشش میں چاہے انکی جھوٹی اور بے تکی تعریف بھی کریں، بات کو اِدھر اُدھر گھمائیں، ہنس ہنس کر بات کریں لیکن بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی کے مصداق آپ سے کوئ نہ کوئ غلطی تو ہو گی ہی کہ انسان جو ٹھرے، بس ہو گئ دشمنی شروع۔ آپ سے دشمنی ہو جانے کے بعد خوش خوش پھرئیں گے، سیٹی پر محمد رفیع کے گیت۔۔۔۔میرے دشمن تو میری دوستی کو ترسے۔۔۔۔ کی بےسری دھن بجاتے پھریں گے، دوستوں کو دشمنی کی باریک سے باریک تفصیلات بڑے فخریہ انداز میں بتائیں گے اور ان سے نیا محاذ کھلنے کی مبارک باد وصول کرتے پھریں گے، الغرض خوش ہونے کے جتنے بھونڈے طریقے جانتے ہیں اپنائیں گے۔ دوست بھی ان کی اس نئ نویلی دشمنی پر انتہائ خوشی محسوس کرتے ہیں کہ چلو سب کو شاعری کے علاوہ بھی کچھ کرنے کو ملا۔
قبلہ بڑے فراخ دل واقع ہوئے ہیں اور ہر جاننے والے کو۔۔۔ بلا تخصیص صنف۔۔۔ زندگی میں کم از کم ایک دفعہ اپنے ساتھ دشمنی کا موقعہ ضرور عنائیت کرتے ہیں۔ اور اگر آپ کو ان سے دشمنی کی سعادت حاصل ہوگئ تو آپ دشمنی کی بابت بےفکر ہو جائے کیونکہ دشمنی کے باقی لوازمات یہ خود ہی پورے کر لیں گے۔ اور اگر آپ ابھی تک قبلہ سے دشمنی کی سعادت سے محروم ہیں تو میری تمام ہمدردیاں آپکے ساتھ ہیں، لیکن یاد رکھیے کہ اللہ کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ قبلہ نفرت کو بڑی محبت سے پالتے ہیں۔ دشمن کی تاک میں شست لگا کر بیٹھ جاتے ہیں، اور جونہی دشمن نصیب کا مارا اِن کی رینج میں آتا ہے گردن سے جا دبوچتے ہیں اور خوب بھنبوڑتے ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ ایک صاحب جن سے حسب دستور ان کی ٹھن چکی تھی، خود کُشی کو خود کَشی لکھ بیٹھے، بس پھر کیا تھا پہلے تو اُن کو key board پر keys کی پوزیشن جتلائ تاکہ سند رہے مبادہ دشمن اپنے کیئے سے مکر جائے۔۔۔ظاہر ہے بھئ میدان قبلہ کے حصے میں ہی آیا۔

کسی زمانے میں بی جمالو کا کردار پڑھا تھا لیکن اس کردار کو قبلہ کی ذات میں پہلی دفع مجسم دیکھا تو سمجھ آئ کہ بی جمالو پن کیا ہوتا ہے اور کیسے ہوتا ہے۔ میں بچپن سے ہی ذہنی طور پر پسماندہ رہا ہوں اور کئ باتیں لاکھ کوششوں کے باوجود آج تک سمجھ نہ پایا، ان میں ایک محاورہ۔۔۔۔یہ حبِ علئ نہیں بغض معاویہ ہے۔۔۔۔تو کبھی بھی پلے نہیں پڑا اور اس پر اساتزہ سے ہمیشہ ہی بحث کی اور جی بھر کر مار کھائ لیکن قبلہ کی فیس بک پرکچھ لوگوں سے محبت کا اظہار دیکھ کر اس محاورے کے علاوہ بھی مزید کافی کچھ سمجھ آ چکا ہے اور ان تمام چیزوں کی تفہیم دینے پر میرا سر قبلہ کے احسانات کے بوجھ سے جھکا ہوا ہے۔

قبلہ کے مختلف زبانوں پر عبور سے میں بہت مرعوب ہُوں، خاص طور پر عربی کے تو عالمِ بے بدل ہیں۔ نہ جانے کب عربی بولنی پڑ جائے اس لیے احتیاطؑ دائیں کھیسے میں ایک ٹوپی رکھتے ہیں۔ آپ فیس بک پر بھی اکثر ان کے عربی ملفوظات دیکھتے رہتے ہوں گے۔ کہیں سے عربی کا ایک جملہ نہ جانے کب سے میرے ذہن میں اٹکا ہوا ہُوا تھا۔ ایک دن قبلہ کا موڈ اچھا دیکھا تو سوچا کیوں نہ آج وہی جملہ پوچھوں ڈالوں ، ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔۔۔۔۔قبلہ یہ ۔۔۔۔ ھل ترکیبَ دِغ دِغ۔۔۔۔ کا کیا مطلب ہے؟۔۔۔۔۔جملہ سننا تھا کہ ان کے چہرے پر ایک تشنجی کیفیت پیدا ہُوئ، تیزی سے ٹوپی نکال سر پہ دھری، قلقلہ درست کیا (قبلہ عربی بولنے سے پہلے جب بھی قلقلہ درست کریں تو جانیئے آپ پر کوئ بہت بڑی آفت نازل ہونے والی ہے) اور پھر عربی میں ہی نہ جانے کیا کیا فرمانے لگے۔ مجھ پہ ایسا سہم طاری ہوا کہ کاٹو تو لہو نہیں، بس چپکا بیٹھا رہا اور سوچتا رہا۔۔۔یا اللہ مجھ سے قبلہ کی شان میں ایسی کیا گستاخی سرزد ہو گئ ہے کہ ان کا جلال کم ہونے میں ہی نہیں آ رہا؟۔۔۔اللہ اللہ کر کےغصہ کچھ کم ہوا تو فرمانے لگے۔۔۔پاجی، لعنتی مارے، خبیث! یہ بات پوچھنے کو تجھے میں ہی ملا تھا کیا! تمھارے گھر میں باپ یا کوئ بڑا بھائ نہیں ہے! میں خجالت کے مارے سر نہوڑائے بیٹھا رہا۔ لیکن یہ اندازہ ضرور ہو گیا کہ یقیناؑ کوئ لزیز بات ہے جو بتانے سے احتراز فرما رہے ہیں۔

ہمارے ایک ڈکٹیٹر حکمران ایوب خان خود ساختہ (self appointed) فیلڈ مارشل رہے ہیں۔ چونکہ مزاجّ قبلہ بھی ڈکٹیٹر واقع ہوئے ہیں لہزا انہوں نے بھی اپنے آپ کو نقاد کے عہدے پر خود ہی فائض کر لیا ہے، اور تنقید کے ایک نئے سکول آف تھوٹ ۔بِستی ہی بِستی۔ (بے عزتی ہی بے عزتی) کی بنیاد ڈالی۔ بڑی ادق قسم کی تنقید کرتے ہیں۔ تنقید میں ایسی ایسی اصطلاحات استعمال کرتے جو پہلے صرف طّب کی کتابوں میں ہی ملتی تھیں،۔۔۔مثلا نظم یا غزل کی نامیاتی، لحمیاتی، نِشاستائ یا عضلاتی ترتیب وغیرہ،۔۔ نظم یا غزل کا سفراوی، بلغمی یا فشاری مزاج وغیرہ،۔۔نظم یا غزل کی آفاقی، افلاقی، ملکوتی سطح وغیرہ،۔۔۔ تجریدی، وریری، عروقی یا نسائ لہجہ وغیرہ وغیرہ۔
وجہ اسکی یہ ہے کہ قبلہ فاضل طب والجراحت ہیں اور گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ طبیب حاذق ہیں اور ٹورانٹو آنے سے پہلے اپنے گاوں میں مطپ کرتے تھے۔تنقید میں جیسے طب کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں بعینہِ مریض دیکھتے وقت شاعری کی اصطلاحات استعمال کرتے۔ مثلا کوئ مریض آکے کہتا کہ دمہ ہو رہا ہے تو فرماتے۔۔۔۔۔یوں کہیے نا کہ سانس نے قافیہ تنگ کر رکھا ہے۔۔۔۔۔۔مریض بیچارہ انکا منہ تکتا رہ جاتا۔ عربی اور فارسی سے ان کی محبت جنوں کی حد کو پہنچی ہوئ تھی کہ بیمارہوں کے نام تک مفرس یا معرِب کرنے کی کوشش کرتے۔ جیسے ایک دفعہ بخار اور نزلہ زکام کا مارا ایک مریض قبلہ کے پاس حاضر ہوا۔ پہلے تو اُس کی نبض پر ہا تھ رکھے رکھے گہرے مراقبے میں چلے گئے۔ کافی دیر انتظار کے بعد مریض کے جھنجھوڑنے پر ھڑبڑا کر مرقبے سے باہر آئے اور فرمایا۔۔۔۔۔آپ کو تو تپِ خنزیر لگتا ہے۔ مریض چونکا، گھبرایا، لاحول ولا پڑھنے لگا اور انتہائ پریشان ہوکر پوچھا کہ یہ کون سا نیا مرض ہے تو بتایا کہ swine flu کی بات کر رہا ہوں۔

تنقید کہ میرا بھی پسندیدہ موضوع ہے۔ شومئ قسمت، اس غلط فہمی میں کہ تنقید کے کچھ نئے در وا ہوں گے، ایک دن قبلہ سے تنقید کی تعریف پوچھ بیٹھا۔ فوراّ جلال میں آ گئے اور کسی جنّاتی سی زبان میں کچھ فرمانے لگے (بعد میں خود ہی بتا دیا تھا کہ یہ قدیم کینیڈین باشندوں کی زبان ہے)۔ جب بھڑاس نکال چکے تو فرمانے لگے۔۔۔۔ تو کافر ہو گیا ہے تعریف صرف اللہ کی ہوتی ہے اور اللہ کے بعد صرف اور صرف میری، میں تمھارے ساتھ فری ہوں تو اس کا یہ مطلب ہرگز یہ نہیں کہ تیرے دماغ میں جو فتور بھی آیے تو اُس کا اظہار کرتا پھرے۔

بڑے سخت ناقد ہیں ( یہاں نقاد سے مراد وہی ہے جو قبلہ کے ذہن میں ہے)۔ تنقید میں اِن کا ایک اپنا اصلوب (اسلوب) ہے اور اُسی اصلوب سے سب کو مصلوب کرتے ہیں۔ ان کی اجازت کے بغیر آپ کی مجال ہے کہ اپنے آپ پر کوئ کیفیت طاری کر سکیں۔۔۔مثلا، چاندنی رات میں آپ پر پاگل ہونا منع ہے۔ البتہ اِن کی طرح دن کے وقت پاگل رہنے پر ان کو مطلق اعتراض نہیں۔آپ آزاد نظم نہیں کہ سکتے کہ آزاد نظم کے وجود میں آنے کی وجہ اور تاریخ ان کو معلوم نہیں۔ الغرض جو بات قبلہ کی سمجھ سے باہر ہو اصول ہے کہ اُس کا استعمال صریحاّ حرام ہے۔

قبلہ غصہ یوں فرماتے ہیں گویا پیار فرما رہے ہوں۔ ان کے غصے اور پیار میں فرق کرنا تقریباّ نا ممکن ہے، وجہ اسکی یہ ہے کہ پیار آے تو بھی گالیاں ہی ارشاد فرماتے ہیں۔

استعاروں اور کنایوں پر عبور رکھتے ہیں۔ جب بھی کسی کو گالیاں بخشنا مقصود تو استعارے استعمال کریں گے۔ اور جب کسی کو کھلم کھلا گالیاں ارشاد فرما رہے ہوں تو جانئیے کسی استعارے کی تشریح و تو ضیع فرمارہے ہیں۔

باتیں بہت گہری کرتے ہیں۔ اور کئ باتیں تو اتنی گہری ہوتی ہیں کہ کئ کئ دن کی کھدائ کے بعد جب آپ بات کی تہ تک پہنچتے تو پتا چلتا ہے کہ اس بات کا تو کوئ مطلب ہی نہیں ہے۔ ایسی ہی ایک گہری بات آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔۔۔ فیس بک پر موجود ایک دوست (اس دوست کو سب ہی جانتے ہیں) سے ایک دن فرمانے لگے۔۔۔۔یار تم اتنی اچھی شاعری کرتے ہو کہ میں شاعری چھوڑنے کا سوچ رہا ہُوں۔۔۔۔۔قبلہ کا یہ اعلان سن کر میں بڑا خوش ہوا کہ اب اِن کی شاعری سے جان چھٹ جائے گی۔ لیکن صاحب کہاں، جب کئ دنوں کی انتظار کے بعد میری امید دم توڑ گئ تو میں نے سوچا کہ یہ بھی میری کج عقلی ہی ہو سکتی ہے جو ۔۔چھوڑنے۔۔کو ترک کرنے کے معنے میں لے رہا ہوں۔ اس بات کا ذہن میں آنا تھا کہ ابّا کے زمانے کی اردو لغات لکال کر بیٹھ گیا۔ اب جو ۔۔چھوڑنے۔۔ کا مطلب دیکھا تو میرے اپنے پسینے چھٹ گئے۔ پتہ چلا کہ یہ ۔۔چھوڑنا۔۔ محاوراتی چھوڑنا تھا،۔۔۔۔جیسے، ہاتھ چھوڑنا، کتّے چھوڑنا، سانس چھوڑنا، کھلا چھوڑنا، لمبی لمبی چھوڑنا وغیرہ۔۔۔۔۔۔ جبھی جس دن سے قبلہ نے شاعری چھوڑنے کی بات کی ہے اُس دن کے بعد سے بہت زیادہ غزلیں چھوڑنے لگے ہیں۔
جی کیا سمجھے آپ، میں اور آپ سات جنموں تک بھی اتنی گہری بات کرنے کا تصور نہیں کر سکتے!!!

میری پوری زندگی میں اس طرح کے یہ دوسرے انسان ہیں، پہلے بھی یہی ہیں کہ ان کو دوج گوارا نہیں۔ فیس بک پر ان کا طوطی بولتا ہے یا بولتی ہے۔ کسی کی موت آئ ہے جو اِن سے آنکھ ملا کر بات کر سکے۔ سب اِن کے آگے جاہل گنوار اور گدھے ہانکنے والے ہیں۔ البتہ دوستوں کے لیے بریشم ہیں۔ ان کے اکثر دوست ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی شاعری اِنکے کندھے پر رکھ کر چلاتے ہیں۔
بڑے ہی حسن پرست واقع ہوئے ہیں۔ فیس بک پر کسی بھی خاتون کی تصویر، خواہ وہ بیس سال پرانی ہی ہو، دیکھیں گے تو فوراّ فدا ہو جائیں گے۔ہر حیلہ آزمانے کے بعد بھی اگر وہ خاتون چکنی مچھلی ثابت ہو تو پھر اُسے باجی کہنے سے بھی نہیں چوکیں گے۔ جب کوئ باجی اِن کی نیت کو بھانپتے ہوئے اِن کے لشکر سے بغاوت کر دے تو قبلہ اپنے تیئں اُس کا جینا حرام کر دیتے پیں۔ اور یہ بالکل بھول جاتے ہیں کہ اِن کے مدمقابل کون ہے ۔ہم ایک ایسی معاشرت سے تعلق رکھتے ہیں جہاں عام خواتین کو بھی عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے،یہ تو پھر شاعرات ہیں اور عام خواتین سے زیادہ حساس۔ آبگینوں جیسی نازک!!۔

Mohammed Naeem-Glasgow

بشکریہ ’محمد نعیم ۔ گلاسگو‘‘۔

نوٹ ۔ میرے بلاگ پر فی الحال اردو کلیدی تختے کی تنصیب ممکن نہیں لہذا آپ سے التماس ہے کہ اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیےاردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھیں اور اسے تبصرے والے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں ۔۔۔ بہت شکریہ

Shaam E Adab in Nottingham – سلطانہ مہر

Shaam E Adab in Nottingham – سلطانہ مہر

Sahir Shewy – طلائی کان کے مالک

Sahir Shewy – طلائی کان کے مالک

’’طلائی کان کے مالک *ساحر شیوی*تحریر:فرزانہ نیناں

خدمتِ اردو ہمارا شوق ہے

بانٹنا خوشبو ہمارا شوق ہے

عشقِ اردو کی راہ میں ساحر

کتنے ذرے مَہِ منیر ہوئے

کونے کونے میں عام کردیں گے

ملکِ اردو کے ہم سفیر ہوئے

جب بھی جاتا ہوں باغِ اردو میں

پھول کی طرح میں نکھرتا ہوں

مانو کہ نہ مانو اسے تم رفعتِ ہستی

انگلینڈ میں اردو کی ضیا بانٹ رہا ہوں

اردو کے آسمان پہ جب بھی اڑان کی

ہم بھی ستارے توڑ کے لائے ہیں صاحبو

وہ جہاں بھی گیا اردو کے ہی گن گاتا ہے

یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے وہ کتنا پاگل

سازش کرے کوئی اگر اردو کے خلاف

جان اس کی بنا سوچے میں لے سکتا ہوں

اردو ہے کائنات تو ہے شاعری حیات

شفاف آئینے کی طرح ہیں مرے صفات

اسی حوالے سے زندہ ہوں آج بھی ساحر

جہانِ اردو میں تھوڑی سی میری عزت ہے

شاعری کی گوناگوں اصناف پر طبع آزمائی کے بعد عبور کے ساتھ اپنا ہنر پیش کرنے والے استاد ساحر شیوی نے مجھ جیسی طفلِ مکتب کو اس قابل سمجھا کہ ان کی شاعری کے بارے اظہار خیال کروںتومیں نے اپنے دوپٹے کی وہ چھوٹی چھوٹی گانٹھیں کھولنا شروع کیں جن میں میرے خیال کی کوئی نہ کوئی چمکتی شعاع بندھی ہوئی تھی مگر روشنی کے اس مینار کے آگے یہ ننھی ننھی کرنیں ماند ہوکر مجھے اپنی کم مائیگی کا احسا س دلا رہی ہیں،الفاظ کے چہروں پہ ایک تحیر ہے اور میں ان سے خائف ہوں۔۔۔

خوشبو ہے مرے دم سے گلستانِ سخن میں

آؤ تو سہی دیکھ لو کیا بانٹ رہا ہوں

آگ کو گلزار بنانے والے، کلاسیکل انداز کے ساتھ زبان و فن پرگرفت رکھنے والے ساحر شیوی جو اس کوہ طور تک پہنچتے پہنچتے نجانے کتنے دیوں سے لڑے ہوں گے،کتنے ہی سایوں کا مقابلہ کیا ہوگا،جھپٹتی بجلیوں کو جُل دیا ہوگا،ان کے سفر کی صعوبتیں ، آہٹوں اور صداؤں کے منظر دکھاتی ہیں۔۔۔

کس قدر کرب سے جی سوکھ گیا ہے ساحر

کاٹ کر دیکھو بدن خون نکلتا ہی نہیں

اپنی اپنی فطرت کے مطابق ہر انسان ایک رائے ایک نظریئے کا حامل ہوتا ہے ماضی، حال و مسقبل انہیں نظریات کے تحت ترتیب پاتے ہیں،تمناؤں کے بدن تشکیل ہوتے ہیں،ہواؤں میں لکھی تحریروں کا وجود بنتا ہے،بدلتی رتوں کے تجربے سبق سکھاتے ہیں،قدموں کے نشاں پیکر خاکی میں ڈھلتے ہیں،جرأت و عزم کی صدائیں سنی جاتی ہیں،سرابوں میں الجھتی آنکھوں کو بینائیاں ملتی ہیں تو یہ موجِ آب کھلکھلا کے تنبیہہ کرتی ہے کہ۔۔۔

خودی نہ بیچ کہ پھر یہ کبھی ملے نہ ملے

بجھے چراغ تو پھر روشنی ملے نہ ملے

طوفان آتے جاتے ہیں بحرِ حیات میں

ہے ناؤ کو بھنور میں کناروں کی بھی غرض

کچھ دوستوں کی تلخیاں کچھ حسرتوں کے غم

ہے سوگوار دل کو نظاروں کی بھی غرض

جلتے سورج کی تمازت جہاں بادل جیسی تھی ،جن کھیتوں کا سبز ہ روح میں ٹھنڈک بھرتاتھا، جس گلاب مٹی پہ بسنے والے پیار کے پیکرموجود تھے وہاں سے دوراُس نگرمیں ہجرت کرنا ، جہاں جذبوںکی گرمجوشی برف وادی کی طرح منجمد ہوجاتی ہے تو یادوں میں ڈوبا دل، بول پڑتا ہے۔۔۔

ہوئی ہے جیسی بسر کینیا میں اے ساحر

اب انگلینڈ میں وہ زندگی ملے نہ ملے

آج بھی یاد مجھے آتی ہے نیروبی کی

چھوڑ آیا ہوں جہاں پیار کی دولت یارو

گو دیارِ غیر میں رہتا ہوں میں

روحِ ہندوستان ہے میری غزل

پچھلی یادوں نے تعاقب کیا اکثر میرا

چھوڑ کر پیار کا گھر بارِ ندامت ہے مجھے

اپنی تہذیب وثقافت، معاشرت، بود وباش، اردو زبان کی محبت میں عشق کے مقام پر پہنچے ہوئے ساحر شیوی شبنمی یادوں کی پھوار میں جاگتی آنکھوں کے خوابوں کی تعبیریں لکھتے رہتے ہیںتاکہ رکنے والی سانسوں کو تازہ ہوا میسر آجائے۔۔۔

غم کدے میں سانس جب رکنے لگے

روزنوں میں چھن کے آتی ہے ہوا

دکھ کا سورج سر پہ آجاتا ہے ج

اس کے شعلوں سے بچاتی ہے ہوا

ابنِ آدم نے جب اپنے تجربوں کو دوسروں تک پہنچانا چاہا تو کوزے میں دریا کو بند کرنے کے لئے محاوراتی زبان نے بھی جنم لیا ،تاریخ کے حوالے بھی قائم ہوئے،تشبیہات و استعاروں نے بول چال کو نیا رنگ بھی دیا ،تاکہ آپ کی بات بھی پہنچے اور منظر بھی جاگے، ملاحظہ کیجئے ساحر شیوی کے مناظر کہاوتوں کے روپ میں۔۔۔ مرے مہماں کو خبر تھی شاید اک نوالہ بھی مرے گھر میں نہ تھا

جن کو ہوتا ہے ڈوبنے کا ڈر

وہ سمندر میں کیوں اترتے ہیں

ملتی رہتی ہے پاپیوں کو سزا

جیسا کرتے ہیں ویسا بھرتے ہیں

عجیب شخص ہے دل میں غبار رکھتا ہے

کہ پھل ہاتھ میں پہلو میں خار رکھتا ہے

ساحر ہے یقیں مجھ کو کہ جیت اپنی ہی ہوگی

پانی کی طرح پیسا بہانے میں لگا ہوں

میں نے سنا ہے ہوتے ہیں دیوار کے بھی کان

مشکل میں اب زباں ہے ذرا جاگتے رہو

میں ساحر شیوی کی بابت کیا لکھوں جن کے پاس ایک سونے کا دل ہے ،جو اس دشت میں فرات جیسے ہیں، جن کے اصول اک نکتۂ ذات نہیں بلکہ آسمان کی وسعت جیسے ہیں،یہ اپنے مفاد کے لیئے چہرے نہیں بدل سکتے جو آج کے دور میں ایک چھوت کی بیماری کی طرح سب کو لاحق ہے، یہ تو وہ دور ہے جہاں دل کی آواز دبادی دی جاتی ہے، ضمیر کی کونپل سر اٹھاتے ہی کچل دی جاتی ہے، جہاں رکھ رکھاؤکو ملحوظِ خاطر رکھنا، مہذب ہونا اور شائستگی کو چھونا ممنوع نظر آتا ہے، معمولی باتوں کو نظر انداز کرنے کا ظرف کب کا ٹوٹ چکا،معصومیت اور بھولپن کو عیاری اور مکاری کا روپ دے دیا گیا ہے اور ہم سے نادان ارمانوںکے ریشم میں الجھے بدگمانیوں کی گتھیاں سلجھاتے رہ جاتے ہیں۔۔۔

زباں اک بار جب دے دی ہے ساحر

تو پھر اس سے مکرنا بزدلی ہے

ہمارے درمیاں گو اختلاف لاکھ رہے

تم گھر میں آئے ہو میرے میں مان دے دوں گا

ساحر شیوی جو مظلوموں اور محکوموں کی زباں ہیں تو حاکموں کی ترنگ اور حکمرانی کو بھی زیرِ غور لاتے ہیں ، جو اندھے سفر پہ جانے والوں کی پرواز وں کے انجام پر کڑھتے ہیں،نہ ان کو چالاکی آتی ہے نہ یہ کشکول لے کر کسی در پہ جا سکتے ہیں،کتابوں میں کالموں میں بہت بڑے بڑے بلند وبانگ دعوے کر کے منہ چھپانے والوں کی قطار میں شامل نہیں ہوسکتے، حق پرستوں کو کوئی خوف و ڈر نہیں ہوتا، ان کے آنگن میں چاندنی بھی پوری آب و تاب سے اترتی ہے تو سورج بھی شدت سے نکلتا ہے ،یہ تو نانصافی کو مٹانے کی فکروں میں مبتلا، تدبیریں سوچتے ہیں۔۔۔ کس کے نرغے میں ہے خدا جانے اس گلی کا ہر اک مکاں چپ ہے

اونچی پرواز کی خواہش میں سنبھلتا ہی نہیں

اپنے پیروں سے کوئی شہر میں چلتا ہی نہیں

جو سایہ دار اور ثمر دار بھی نہیں

گلشن میں ایسے پیڑ اگانے سے فائدہ

آنکھوں کی بھی زباں سے حقیقت بیان ہو

سچ کے لبوں کو قفل لگانے سے فائدہ

محنت کرلو تو سب کچھ اس مٹی ہی میں پاؤگے

چاند پہ جاکر آنے کا کیا حاصل ہے ذرا سوچو تو

ساحر شیوی کی مسافرت کا کوئی سنگِ میل ان کو رستے میں نہیں روک سکا،کسی گرد باد نے ان کوپیچھے نہیں دھکیلا، اگر پرچھائیوں کے تعاقب میں چلے تو کارواں سے جا ملے،کسی نے بتلایا کہ دنیا چوکور ہے تو اس بات پر یقین کرنے کے بجائے چھان بین کو نکل پڑے ، خود جاکر ثبوت لے آئے کہ دنیا گول ہے،اصل حقیقت جان لینے سے ہی مسرت حاصل ہوتی ہے، وہ مسرت جسے بانٹنا اس دولت میں مزید اضافہ کا باعث ہوتی ہے۔۔۔

اپنی منزل کے شوق میں ساحر

ہم تو کانٹوں سے بھی گزرتے ہیں

پیچھے مڑ کے کبھی نہیں دیکھا

جاکے منزل پہ ہی ٹہرتا ہوں

بڑھے ہیں آگے ہی پیچھے قدم نہیں آئے

بڑا حسین رہا میری شاعری کا سفر

حاسد کو پتہ کیوں نہ لگے میرے ہنر کا

ہر سمت مسرت کی فضا بانٹ رہا ہوں

فصل گل کی باتیں کرنے والے ساحر شیوی جو اپنے آنگن میں کھلے گلاب کی سادہ سی خوشبو کو ہی من پسند قرار دیتے ہیں ۔۔۔ کوئی رقیب نہ پیدا ہو دیکھ کر اس کو مجھے پسند ہے سادہ سا دلربا کا لباس

ساحر شیوی جو موسموں کو پیرہن پہناسکتے ہیں، انسانی رویوں کی تشخیص کرسکتے ہیں۔۔۔

تم اپنی ذات کو بدلو نہ موسموں کی طرح

کہ جیسے گرم کبھی سرد ہے ہوا کا لباس

ساحر شیوی جو علم کی اس معراج تک پہنچے ہوئے ہیں جہاں تجلیاں ہیں،جلوے ہیں۔۔۔

میں اس کو خواب میں دیکھوں ہے آرزو ساحر

سنا ہے نور کی کرنوں کا ہے خدا کا لباس

اندازِ تغزل ، اندازِ تغافل،شان ہی شان، غزل کی دیوی خود سرنگوں ہے، بے نیازی ایسی کہ سمندر کی لہریں پلٹ پلٹ کر ہنستی مسکراتی ساحل تک آتی ہیں،ان کی کشش مقناطیسی ہے یا شاید چقماق جیسی ہے کہ جو آگ بھی لگادیتا ہے، اس سورج کی کرنیں شیشے پر منعکس ہوکر مزید چکا چوند بڑھاتی ہیں، یہ دلکشی یہ خوبصورتی، شاعری کی دنیا کو سنوار رہی ہے۔۔۔ یہ دل کی بے نیازی اللہ اللہ

حسینوں پر بھی اب مائل نہیں ہے

محبت ایک دریا کی طرح ہے

مگر اس کا کوئی ساحل نہیں ہے

آئینہ چونکہ سچ ہی کہتا ہے

ہم اسے دیکھ کر سنورتے ہیں

ساحر شیوی جو کبھی خوش خرامی کرتےہوئے خوابوں کے تراشیدہ صنم خانے میں پہنچیں توپتلی کا تماشا بھی زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتے،خواب کا الجھا ہوا آنچل بھی ان کے نرم سبھاؤ کو گوارا نہیں،پھولوں کو لیئے کانٹوں کی رہگزر میں منتظر ساحر شیوی منظر کی دلکشی میں گم تو ہوتے ہیں لیکن درد کا درماں ہونا، ڈوبے کا سہارا بن جانا ہی ان کی منزل ہے

کبھی ساغر کبھی دریا میں اترنا اس کا

مجھ سے دیکھا نہ گیا پانی میں مرنا اس کا

پیش کش پھولوں کی کیوں کرتا نہ ساحر

اس کو کیا پسند آیا ہے کانٹوں سے گزرنا اس کا

حضرت علی سے کسی نے پوچھا کہ علم کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا:اگر کوئی تم پر ظلم کرے تو اسے معاف کردو، اگر کوئی تعلق جوڑے تو جوڑ لو، اگر کوئی تمہیں محروم کرے تو اسے نواز دو، اگر کسی سے انتقام لینا ہو تو عفو و درگزر سے کام لو ، اگر تمہیں غصہ آئے تو اسے پی جاؤ ایسی بات نہ کرو کہ بعد میں ندامت ہو، یہ علم ہے۔ ‘‘

لیم و ہنر تو زندگی کے انہی طور طریقوں اور اصولوں پر مبنی ہے جو عام فہم ہوں اور روز مرہ زندگی پر لاگو ہوں،نہ کہ بڑی بڑی کتابوں سے ثقیل الفاظ چن کر ،گنجلک اقتسابات کی نقل کر کے اس ڈھیر پر اپنی قابلیت کو سند دینا ہے،یہ تو زیادہ جہالت ہے ،بندر جب روٹی کے ٹکڑے کرنے لگیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے ہاتھ ایک بھی ٹکڑا نہیں آئے گا ،ہم تو اپنی ذات کے اندر بھی متعصب ہیں تو دوسروں کی فطرت کا بھلا کیسے تجزیہ کر سکتے ہیں، لیکن ادبی دنیا میں آجکل بے لاگ رائے دینا کسی کی شخصیت کو جانے بغیر اس کو کٹہرے میں کھڑا کر دینا رواج بن چکا ہے،

میں ان کے فن و ہنر کا قصیدہ تو پڑھ سکتی ہوں، لافانی ہونے کی مہر تو ثبت کر سکتی ہوں لیکن کوئی مضمون کو ئی تبصرہ کوئی جریدہ پیش کرنے کی بساط نہیں پاتی،مجھ سی ناچیز ہستی کے لیئے سلطانہ مہر صاحبہ نے برمنگھم میں ایک شام منائی اور جناب ِ شیوی اس محفل کی رونق بڑھانے نہ صرف تشریف لائے بلکہ میرے لیئے اپنے قیمتی الفاظ میں قصیدے کا تحفہ بھی پیش کیا،اس مہربان ہستی کو میں نے ہمیشہ اردو دانوں کی بستی میں ایسی سوغاتوں کو بانٹتے پایا ہے، ہر قلمکارکی شان بڑھانے کے لیئے بلا تخصیص اپنے فن کو عقیدتوں کا نذرانہ بنا دیتے ہیں، دنیائے ادب میں ان کی جانب سے یہ میرے لیئے اعزاز ہے کہ ’پرواز‘ کا ایک شمارہ میرے نام سے منسوب ہوا ،ساحر شیوی کے الفاظوں سے بنی جڑاؤ غزل میرے سخندان میں کھنکناتی رہتی ہے کہ۔۔۔

چرچے ہیں ہر سو فن شعری کے اس کے

اک ایسی ہے فنکار نینا فرزانہ

اپنے دین سے بھی اس کو ہے الفت

ہے اک اعلی کردار نینا فرزانہ

افلاک اردو کا تابندہ سورج

سب کی ہے دلدار نینا فرزانہ

قلبِ ساحر میں بھی اس کی عزت

سب کی ہے غمخوار نینا فرزانہ

شاعری ہے میری دولت بے حساب

اک طلائی کان ہے میری غزل

اس قدر ہنر مندی سے یہ شعر کہا گیا ہے کہ کہنے والے کے جوہری ہونے کا کوئی شبہ باقی نہیں رہتا، ایسا جوہری جس کے ہاتھ لگی ہوئی سونے کی کان سنہرے جڑاؤ زیورات کے لئے مواد اگلتی رہتی ہے، وہ حمد ہو یا نعت ،غزل ہو یا نظم،گیت ہو یا دوہا، قطعات ہوں یا رباعیات، کہہ مکرنیاں ہوں یا تکونیاں جدھر دیکھئے نوادرات کا ڈھیر جھلمل جھمل کر رہا ہے،اپنے تجربے اپنے مشاہدے بیش بہا الفاظ کی مالا میں پروکرخوبصورتی سے پیش کرنے والے ’ساحر شیوی‘ کی مادری زبان اردو نہیں لیکن اردو کی محبت میں سرشار اس زبان کے فروغ کے لیئے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں،ساحر شیوی کے نظریات پر اردو کی محبت کا رنگ خوب جما ہوا ہے۔۔۔

i-dream-of.gif

Rules of Poetry – آوازیں اور عروض

Rules of Poetry – آوازیں اور عروض

i-dream-of.gif

تمام زبانیں آوازوں سے مل کر بنتی ہیں۔ آوازوں کو دو قسموں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ایک ۔ آوازوں کا بڑی ہونا اور یا چھوٹا ہونا اس کی ادائیگی سےظاہر ہوتا ہے۔ دو۔ آوازیں اس طرح ادا کی جائیں کہ بعض آوازوں کےادا کرنےمیں زیادہ زور لگانے کی ضرورت ہو اور بعض میں کم۔ اردو کا شمار پہلی قسم میں ہوتا ہے یعنی اردو میں آوازیں بڑی یا چھوٹی سننائی دیتی ہیں۔

 

چھوٹی آواز میں صرف ایک حرف کی آواز سننائی دے گا۔ بڑی آواز میں دو حروف کی آواز سننائی دے گی۔

جب ہم عروض کہتےہیں تو کان پہلے ع اور رو اور پھر ‘ ض ‘ آواز سنتے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ لفظ عروض ، ایک چھوٹی، ایک بڑی اور پھر ایک چھوٹی آواز سےمل کر بنا ہے۔ اگر ہم چھوٹی آواز کو چ اور ہڑی آواز کو ب سےظاہر کریں تو یہ علامتی ترتیب ہوگی۔ چ ۔ ب ۔چ ۔ اس طرح لفظ عروضی میں ہم ع رو اور پھر ضی کی آوازیں سنتے ہیں۔ عروضی کی علامتی ترتیب چ ۔ ب ۔ ب ہوگی۔ ان آوازوں کو ہم ‘ تہجی کےارکان ‘ یا لفظ کی حرکات ‘ (syllable) کہتے ہیں۔

اس سےہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ علم عروض اس علم کا نام ہے جس میں زبان اور شعر کا مطالعہ مندرجہ ذیل طریقہ سے کیا جا سکت اہے۔

1
۔ آواز کوادا کرتے وقت جو آواز نکلتی ہے وہ چھوٹی ہے یا بڑی ہے؟
2
۔ کتنی بڑ ی اوازیں یکجا ہوسکتی ہیں؟
3
۔ کتنی چھوٹی آوازیں یکجا ہوسکتی ہیں؟
4
۔ اور چھوٹی اور بڑی آوازوں کا بیک وقت اجتماع کس حد تک
5
۔اور کس نمونہ پر ممکن ہے؟

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے۔کہ عروض کا بنیادی کام آوازوں کی ترتیب اور ان کے نمونوں کا مطالعہ ہے۔ کسی لفظ کی آوازوں کو اگر علامتوں کے ذریعہ سےظاہر کیا جائے تو اس کو الفاظ کا وزن ظاہر کرنا کہا جاتا ہے۔
مثلاً عروض کا وزن ہے۔ چ ۔ ب ۔چ ہے۔
جب اس ترتیب کو کسی نمونے کے احاطہ میں ڈال دیا جائے اور اس پر ترکیب کا وزن کو مستقل علامتوں کے ذریعہ ظاہر کی جائے تو اس ترکیب کو تقطین کرنا یا بحر بیان کرنا کہتے ہیں۔

اصول: وہ آوازیں جو لکھنےمیں بڑی لگتی ہوں لیکن بولنے اور پڑھنے میں چھوٹی سننائی دیتی ہوں ایسی آوازیں وہ ہیں جن کو آخیر میں ( ا – و – ں – ی – ے – ہ) میں سے کوئی ایک حروف ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ مصرعہ دیکھے۔

امیدیں غریبوں کی بر لانے والا
– مولانہ حالی

اس میں لفظ کی اور نے بظاہر بڑے لگتے ہیں اور بڑی آواز والے بھی نظر آتے ہیں لیکن پڑھنےمیں دونوں کی’ ی اور ے ‘ دبائی جاتی ہے۔ یعنی اگرچہ ‘ کی ‘ اور ‘نے’ میں دو، دو حروف ساتھ ساتھ لکھےگئے ہیں لیکن پڑھنے میں ایک حرف (ک اور زیر) اور ( ن اور زیر ) کی آواز ادا ہوتی ہے اس طرح اس مصرعہ کی ترکیب کو
علا مات کے ذریعہ یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔اس نقطہ کو مزید صاف کرنے کے لئے اگر ہم کی اور نے کو ان کی ظاہری بڑی شکل میں ہی لکھیں اورعلامتی نقشہ بنائیں تو یوں لکھنا ہوگا۔

غلط علامتی شکل
اُم ۔ ی ۔ دیں
چ ۔ ب ۔ ب
غر ۔ ی ۔ بوں
چ ۔ ب ۔ ب
کی ۔ بر ۔ لا
ب ۔ ب ۔ ب
نے۔ وا ۔ لا
ب ۔ ب ۔ ب

چ = چھوٹی ب = بڑی

آپ اس نقشہ کو پڑھیں تو فوراً معلوم ہو جائے گا کہ مصرعہ نہ صرف زبان پر رواں نہیں بلکہ ناموضوع بھی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے کی اور نے کو مصنوعی طور پر وہ آوازیں دی ہیں جو فطری بول چال کے خلاف ہیں۔ لہذا اس مصرعے کی صحیح علامتی شکل وہی ہے جو میں نے پہلے بیان کی۔

صحیح علامتی شکل
اُم ۔ ی ۔ دیں
ب ۔ ب ۔ چ
غر ۔ ی ۔ بوں
ب ۔ ب ۔ چ
کی ۔ بر ۔ لا
ب ۔ ب ۔ چ
نے۔ وا ۔ لا
ب ۔ ب ۔ چ

چ = چھوٹی ب = بڑی

ہم نے چ اور ب کی علامت کو استعمال کیا ہے۔ یہ ترکیب استعمال شروع شروع میں آوازں کے کو سمجھانے کی حد تک تو کافی ہے۔ ‘ لیکن شاعری میں استعمال کرنے کے لئے ایک بہتر نظام کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے پاس کچھ ایسے الفاظ موجود ہوں جو اردو کے تمام الفاظ اور نمونوں کو علامتی طور پر ادا کر سکیں تو مشکل آسان ہوسکتی ہے۔
خوش قسمتی سے ایسی علامات پرانے زمانے میں عرب کے خلیل بن احمد نے دریافت کر لیں تھیں۔ چناچہ علمِ عروض میں مختلف آوازوں کی ادائیگی کا ایک اور طریقہ استمعال کیا جاتا ہے جس میں فرضی الفاظ استمعال کیئے جاتے ہیں جو اردو کی آوازوں کی ترتیب کا تمام ممکن نمونوں کو ظاہر کر سکتے ہیں۔ فرضی الفاظ کو افاعل یا ارکان کہتے ہیں۔

ارکان

1۔ فاعلن
2۔ فعولن
3۔ فاعلا تن
4۔ مستفعلن
5۔ مفاعلین
6۔ فاع لاتن
7۔ مس فاع لاتن
8۔ مفعولاتن
9۔ متفاعلن

10۔ مفاعلتن

 

Rafiuddin Raaz – نیلی فکر کی شاعرہ

Rafiuddin Raaz – نیلی فکر کی شاعرہ

i-dream-of.gif

نیلی فکر کی شاعرہ

 

پودے لگائے گئے ہوں یا قدرتی طور پر خود اگ آئے ہوں، انھیں دیکھ کر میں اکثر سوچتا ہوں کہ ان میں سے کتنےخوش قسمت پودے ہوں گے جو کبھی اپنے آپ کو تناور درخت کی صورت دیکھ سکیں گے، موسم کی سختی، زمین کا دکھ اور وقت کی نادیدہ رہ گذر، اتنے عذابوں کو سہنا کوئی آسان نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر پودا پورے قد کا درخت نہیں بن پاتا، اس حوالے سے جب میں ادب میں نئے لکھنے والوں کو دیکھتا ہوں تو یہاں بھی مجھے ایسا ہی خیال آتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ اپنی آنکھوں میں خواب سجائے تعبیر کی جستجو میں سرگرداں یہ نو واردِ ادب اس سفر کے دوران کیا آبلہ پائی کی اذیت کو جھیل لیں گے، آنکھوں سے بہتے ہوئےخون کو دامن میں جذب کرتے ہوئے ان کےحوصلے پست تو نہیں ہو جائیں گے، ان کے آئینہ صفت پیکر کیا پتھروں کی بارش کا تا دیر مقابلہ کر سکیں گے؟
میرے ایسے سوالوں کو کوئی سن رہا ہوتا ہے، فوراَ ہی سرگوشیوں میں مجھ سے کہتا ہے

’جس دیئےمیں جان ہوگی وہ دیا رہ جائےگا!

آج ایسا ہی اک دیا فرزانہ خان نیناں کی صورت محفلِ شعر و سخن میں فروزاں ہےاور اس کی لوَ اِس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ اس میں ہوا سے تا دیر لڑنے کی قوت موجود ہے، یہ محض ستائشی جملہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے وہ روشن امکانات واضح موجود ہیں جس کے تحت میں نے یہ جملہ لکھا ہے، فرزانہ نے اپنے پہلے مجموعے میں اپنے آپ کو شاعرہ تسلیم کروالیا ہے اور میری نظر میں یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے:

آدھی رات کے سپنے شاید جھوٹے تھے
یا پھر پہلی بار ستارے ٹوٹے تھے

تلاش کرتا ہے بستی میں جس کو شہزادہ
وہ مورنی کسی جنگل نے پال رکھی ہے

انگلیوں سے لہو ٹپکتا ہے
پھر بھی کلیاں پروئےجاتی ہیں

بدن کی چٹانوں پہ کائی جمی ہے
کہ صدیوں سے ساحل پہ تنہا کھڑی ہوں

خیمے اکھاڑتے ہوئے صدیاں گزر گئیں
کب تک رہیں گی ساتھ یہ خانہ بدوشیاں

یہ دیا بھی کہیں نہ بجھ جائے
جو ہوا سے چھپائے بیٹھی ہوں

بام و در ہیں ترے اشکوں سے فروزاں نیناں
گھر میں اچھا نہیں اس درجہ چراغاں نیناں

یہ اشعار اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ اس شاعرہ میں زندگی کا بھرپور ادراک موجود ہے، وہ زندگی جس کا تعلق یقین سے بھی ہے اور بد گمانی سے بھی، یہ زندگی کبھی انسان کو خود کلامی پر مجبور کرتی ہے تو کبھی اس کا وجود زمانے کی آواز سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہو جاتا ہے، کبھی انا کی لو اس کے احساس کو آنچ دکھاتی ہے تو کبھی انکسار کی نرمی اسے اوس کی بوند میں تبدیل کردیتی ہے، فرزانہ کے یہاں یہ تمام کیفیات ملتی ہیں، نسائی آواز کے مختلف رنگ ہمیں پروین شاکر، کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض وغیرہ کے یہاں ملتے ہیں، فرزانہ کے یہاں بھی نسائی آواز کا ایک الگ انداز ظہور کرتا دکھائی دےرہا ہے، اگر یہ شاعرہ ثابت قدمی سے اس راہ پر تادیر چلتی رہی تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی اس کے قدم نہ چومے۔

ہجر ایک ایسی حقیقت ہے جس کی آنچ کسی نہ کسی صورت عمر بھر انسان کے دامن سے لپٹی رہتی ہے، اس کا اظہار ہر شاعر اپنے طور پر کرتا ہے، فرزانہ نے ہجر کو یادیں اور انتظار کی صورت لکھا ہے اور خوب لکھا ہے، کچھ اشعار دیکھئے:

یاد میری بھی پڑی رہتی ہے تکیئے کے تلے
آخری خط کی طرح روز جلاتی ہوں اسے

میں سینت سینت کے رکھے ہوئے لحافوں سے
تمہارے لمس کی گرمی چرانے والی ہوں

ترے جنگل کی صندل ہوگئی ہوں
سلگنے سے مکمل ہوگئی ہوں

بدن نے اوڑھ لی ہے شال اس کی
ملائم، نرم، مخمل ہوگئی ہوں

مرے قریب ہی گو زرد شال رکھی ہے
بدن پہ میں نے مگر برف ڈال رکھی ہے

اوڑھ کے پھرتی تھی جو نیناں ساری رات
ریشم کی اس شال پہ یاد کے بوٹے تھے

چونکتی رہتی ہوں اکثر میں اکیلی گھر میں
کوئی تو ہے جو صدا دیتا ہے نیناں، نیناں

ہے لبریز دل انتظاروں سے میرا
میں کتبے کی صورت گلی میں گڑی ہوں

انھیں زینوں پہ چڑھتے کیسی کھنکھناتی تھی
نگوڑی پائل اب جو پاؤں میں کانٹے چبھوتی ہے

فرزانہ احساسات کی حدت کو کاغذ پر منتقل کرنے کا ہنر جانتی ہے اور یہ حدت صفحہء قرطاس تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ قاری کے رگِ احساس کو بھی اپنی پوری توانائی کے ساتھ چھوتی ہے، کسی جذبے کی حدت کو قاری کے دل تک پہنچانا آسان کام نہیں، بہت کم لوگ اتنی جلدی اس منزل تک پہنچ پاتے ہیں، فرزانہ کے اشعار کی جو زیریں رو ہے اُس میں ایک ایسا حجاب اور شرم ہے جو اپنے اظہار کے لئے کچھ آزادی چاہتی ہوئی دکھائی دیتی ہے لیکن فرزانہ نے دانستہ اسے ایسا کرنے سے روک رکھا ہے اور اس کی وجہ ہے۔۔۔

’درد کی نیلی رگیں‘ پڑھتےہوئےمجھ پر عجیب انکشاف ہوا، یہ فرزانہ خان نیناں جو انگلستان میں رہتی ہے وہ تو کلو ننگ شدہ نیناں ہے، اصل نیناں تو یہاں کی فضا میں قید ہے، اس کی سانسوں کی حدت تو اس فضا کی حرارت سے قائم ہے، اس زمین سے اس کا رشتہ زندگی اور موت کا ہے، انگلستان میں رہنے والی شاعرہ کی کچھ لفظیات دیکھئے :

جامن، الگنی، رہٹ، پیپل،اُپلی، گوٹھ، تھر، بھوبھل، آم کی گٹھلی ،بھاگ بھری، گڑیا، چھوئی موئی اور مورنی وغیرہ،

یہ کیسی ہجرت ہے جسم وہاں ، روح یہاں!

فرزانہ خان نیناں کی شاعری جن لفظیات کے گرد گھومتی ہے ان میں بیشتر لفظوں کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ شاعری کے لفظ نہیں ہیں، میرے نزدیک ہر لفظ شاعری کا لفظ ہے اگر کوئی شاعر اُس لفظ کو شعری آہنگ میں ڈھال دے تو!

انہیں لفظوں میں ایک لفظ لحاف ہے، دیکھئے فرزانہ نےلحاف کو کس طرح لکھا ہے:

میں سینت سینت کے رکھے ہوئے لحافوں سے
تمہارے لمس کی گرمی چرانے والی ہوں

فرزانہ کی شعری عمر ابھی بہت کم ہے اور فرزانہ نے لفظیات کے جس دشت میں پاؤں رکھا ہے وہ یقیناَ انتہائی محنت طلب کام ہے۔

اس سے پہلے کہ میں نظموں پر کچھ لکھوں فرزانہ کی غزلوں سے کچھ اور اشعار سنئے:

مجھے قوموں کی ہجرت کیوں تعجب خیز لگتی ہے
یہ کونجیں کس قدر لمبے سفر کرتی ہیں ڈاروں میں

میرے جگنو سے پر سلامت ہیں
میں تمہیں راستہ دکھاؤں گی

فون پر تم ملے ہو مشکل سے
گفتگو کو تمام مت کرنا

ابھی تک یاد ہے اس کی وجاہت
ملا تھا جو مجھے پچھلے جنم میں

طواف اس پر بھی تو واجب ہےنیناں کعبہء دل کا
ٹہر جا تو اسے بھی اس طرف دوگام آنے دے

چھوئی موئی کی ایک پتی ہوں
دور ہی سے مرا نظارہ کر

فرزانہ میں نظم کہنےکی بھرپور صلاحیت موجود ہے، بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ فرزانہ میں نظم کی ایک قابلِ ذکر شاعرہ ہونے کے روشن امکانات موجود ہیں، پہلی نظم ’جانے کہاں پہ دل ہے رکھا‘ ملاحظہ کیجئے:

آج کا دن بھی پھیکا پھیکا
کھڑکی سے چھپ کر تکتا ہے
میں ہاری یا وہ ہے جیتا
روز کا ہی معمول ہے یہ تو
کل بھی بیتا، آج بھی بیتا
درد بھی با لکل ہی ویسا ہے
تھوڑا تھوڑا میٹھا میٹھا
چولھا ،چوکا، جھاڑو، پونچھا
سب کچھ کر بیٹھی تب سوچا
ہر شئے جھاڑ کے پونچھ کے دیکھا
جانے کہاں پہ دل ہے رکھا!

چند لائنیں مختلف نظموں سے:

اگر میں پتھر کی لڑکی ہوتی
تو اپنے پیکر کی سبز رُت پر
بہت سی کائی اگایا کرتی
بہت سے تاریک خواب بُنتی

چاندنی کے ہالے میں کس کو کھوجتی ہو تم
چھپ کے یوں اداسی میں کس کو سوچتی ہو تم

بار بار چوڑی کے سُر کسے سناتی ہو
کھڑکیوں سے برکھا کو دیکھ کر بلکتی ہو

سارے سپنے آنکھوں سے ایک بار بہنے دو
رات کی ابھاگن کو تارہ تارہ گہنے دو
ماضی ،حال، مستقبل کچھ تو کورا رہنے دو!

:کل ملبوس نکالا اپنا
ہلکا کاسنی رنگت کا
دھڑ سے کھول کے دل کے پٹ کو
خوشبو سنَ سنَ کرتی آئی۔۔۔

اور ایک نظم آخری خواہش سے کچھ لائنیں دیکھئے:

ندی کنارےخواب پڑا تھا
ٹوٹا پھوٹا بے سدھ بےکل

لہریں مچل کر اس کو تکتیں
سانجھ سویرے آکر پل پل

سیپی چنتےچنتے میں بھی جانے کیوں چھو بیٹھی اس کو
یہ احساس ہو ا کہ اس میں روح ابھی تک جاگ رہی ہے
ہاتھ کو میرےاس کی حرارت دھیرے دھیرے تاپ رہی ہے
تب آغوش میں اس کو اٹھایا، اک اوندھی کشتی کےنیچے
تھوڑا سا رکھا تھا سایہ۔۔۔

چھوٹی نظموں پر فرزانہ کی گرفت بہتر دکھائی دیتی ہے جس کی مثال نظم ’پگلی‘ اور ’جانےکہاں پہ دل ہے رکھا‘ میں موجود ہے،
’درد کی نیلی رگیں‘ بلا شبہ ایک اچھی تخلیق ہےلیکن یہ فرزانہ کی منزل نہیں ہے، اس مجموعے نےحرف کے امکانات کے دَر وا کئے ہیں،
مجھے امید ہےکہ وہ جو کچھ حاصل کرنا چاہتی ہیں ،وہ حاصل کر لیں گی، اس لئے کہ ان کی شخصیت میں ایک اعتماد ہے،
وہ اعتماد جو کچھ کر لینے اور کچھ پالینے کے لئےضروری ہوتا ہے۔

رفیع الدین راز
کراچی

Quratul Ain Haider – قرۃ العین حیدر

Quratul Ain Haider – قرۃ العین حیدر

qurat-1_thumbnail.jpgqurat-4thumbnail1.jpgquratulain-3.jpgquratulain-41.jpg1-quratul-ain-haider.gif2-quratul-ain-haider.gif3-quratul-ain-haider.gif4-quratul-ain-haider.gif5-quratul-ain-haider.gif6-quratul-ain-haider.gif7-quratul-ain-haider.gif8-quratul-ain-haider.gif9-quratul-ain-haider.gif10-quratul-ain-haider.gif11-quratul-ain-haider.gif12-quratul-ain-haider.gif13-quratul-ain-haider.gif14-quratul-ain-haider.gif15-quratul-ain-haider.gif16-quratul-ain-haider.gif17-quratul-ain-haider.gif18-quratul-ain-haider.gif19-quratul-ain-haider.gif20-quratul-ain-haider.gif21-quratul-ain-haider.gif22-quratul-ain-haider.gif23-quratul-ain-haider.gif24-quratul-ain-haider.gif25-quratul-ain-haider.gif26-quratul-ain-haider.gif27-quratul-ain-haider.gif
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...